۴ اپریل کو اوکاڑہ کے ایک محلہ میں مولانا قاری عبد المنان عثمانی نے اپنی دینی درسگاہ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان ذوالنورینؓ کی یاد میں ایک جلسہ رکھا ہوا تھا جس میں راقم الحروف کو اظہار خیال کی دعوت دے رکھی تھی۔ میرے خطاب سے پہلے قاری صاحب موصوف نے اپنی تمہیدی گفتگو میں حضرت عثمان غنیؓ کی سخاوت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ علماء کرام کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خرچ کرنا نہیں جانتے، اس لیے انہیں بھی حضرت عثمانؓ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا اور وہی اس جلسہ میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ذکر کا باعث بنا۔ چنانچہ میں نے اپنی گفتگو کا آغاز اسی ’’خرچ نہ کرنے‘‘ کے نکتہ سے شروع کیا۔
ایک لطیفہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے کئی مجالس میں بھٹو مرحوم کے حوالے سے سنایا تھا کہ ۱۹۷۷ء کے انتخابات کے نتائج کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سرکاری وفد کی قیادت کر رہے تھے جبکہ مولانا مفتی محمودؒ پاکستان قومی اتحاد کے وفد کے قائد تھے۔ قومی اتحاد کے مطالبات غالباً ۳۲ نکات پر مشتمل تھے جن میں سے ۳۱ تسلیم ہو چکے تھے اور صرف ایک مطالبہ باقی تھا جس پر گفتگو ہو رہی تھی۔ وہ مطالبہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں اور عدلیہ کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ بھٹو صاحب اس کے لیے تیار نہیں تھے جبکہ قومی اتحاد اس پر شدید اصرار کر رہا تھا اور اسی نکتہ پر بالآخر مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔
مولانا مفتی محمودؒ نے بتایا کہ اس نکتہ پر مذاکرات کے دوران بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے مخاطب ہو کر کہا کہ مفتی صاحب! مذاکرات تو ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر ہوتے ہیں جبکہ آپ صرف اپنے مطالبات منواتے چلے جا رہے ہیں اور میری ایک بات بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ بتائیں کہ آپ مجھ سے لے تو سب کچھ رہے ہیں، کیا کچھ دینا نہیں چاہتے؟
مفتی صاحبؒ نے جواب میں ازراہ تفنن کہا کہ بھٹو صاحب! مجھ سے آپ کیا مانگتے ہیں؟ میں تو ایک مولوی ہوں اور مولوی لینا جانتا ہے دینا نہیں جانتا۔ اس پر مفتی صاحبؒ نے خود بھٹو مرحوم کو یہ لطیفہ سنایا کہ کسی گاؤں میں ایک مولوی صاحب کنویں میں گر گئے، کنواں گہرا تھا اس لیے باہر نکلنا مشکل تھا۔ شور مچایا تو قریب سے گزرتا ہوا ایک نوجوان کنویں کی منڈیر پر آگیا۔ اس نے مولوی صاحب کو کنویں میں دیکھا تو اپنا ہاتھ نیچے کر کے کہا کہ مولوی صاحب اپنا ہاتھ مجھے دیں تاکہ میں آپ کو پکڑ کر باہر کھینچ لوں۔ مگر مولوی صاحب نے ہاتھ نہ دیا۔ اب وہ نوجوان اوپر سے آوازیں دے رہا ہے مگر مولوی صاحب دونوں ہاتھ بغلوں میں دبائے نیچے آرام سے کھڑے ہیں۔ اتنے میں کچھ اور لوگ جمع ہوگئے جن میں ایک پرانا تجربہ کار بزرگ بھی تھا۔ اس نے ماجرا پوچھا تو نوجوان نے بتایا کہ کنویں میں مولوی صاحب ہیں، میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ اپنا ہاتھ دو تاکہ میں آپ کو باہر نکلنے کے لیے سہارا دے سکوں مگر وہ ہاتھ نہیں دے رہے۔ اس بزرگ نے نوجوان سے کہا کہ تم سادہ آدمی ہو، مولوی صاحب سے اس طرح نہیں کہا جاتا بلکہ ان سے کہو کہ میرا ہاتھ لو تب وہ تمہارا ہاتھ پکڑیں گے اور پھر تم انہیں باہر کھینچ لینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ نوجوان نے جیسے ہی مولوی صاحب سے کہا کہ میرا ہاتھ لو، مولوی صاحب نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑا اور کنویں سے باہر نکل آئے۔
یہ واقعہ سناتے ہوئے اچانک یاد آگیا کہ آج تو ۴ اپریل ہے جو بھٹو مرحوم کا یوم وفات ہے اور ان کے کارکن ملک بھر میں ان کی برسی منا رہے ہیں۔ چنانچہ اس کا بھی تذکرہ کر دیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ ایک اور واقعہ انہی مذاکرات کے حوالہ سے سنایا جس کا ذکر مولانا مفتی محمودؒ بسا اوقات کیا کرتے تھے۔ مفتی صاحبؒ کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کئی کئی گھنٹے خشک موضوعات پر گفتگو کے دوران کبھی کبھی خوش گپیاں بھی ہو جاتی تھیں تاکہ ذہن تازہ دم ہو جائیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے پوچھا کہ سنا ہے ابتدا میں پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں پھر پانچ رہ گئیں، یہ معاملہ کیسے ہوا؟ مفتی صاحبؒ نے اس کے جواب میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا وہ حصہ بیان کر دیا کہ آپؐ کو امت کے لیے ابتدا میں پچاس نمازوں کا حکم ملا تھا مگر واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے تو انہوں نے تقاضہ کیا کہ واپس جا کر تخفیف کی درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت دن رات میں پچاس نمازوں کی پابندی نہیں کر سکے گی۔ چنانچہ حضورؐ کئی بار حضرت موسیٰؑ کے کہنے پر واپس بارگاہ ایزدی میں گئے حتیٰ کہ آخر میں پانچ نمازیں باقی رہ گئیں۔ اس پر بھٹو مرحوم نے ہنستے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ حضرت محمدؐ کو نمازوں میں تخفیف کے لیے بار بار واپس بھیجتے رہے۔ نمازیں پچاس ہی رہتیں تو فائدہ ہوتا کہ آپ مولوی صاحبان آرام سے نمازیں پڑھاتے رہتے اور ہم اطمینان سے حکومت کرتے۔
یہ واقعات سنانے کے بعد میں نے گفتگو کا رخ حضرت عثمان ذوالنورینؓ کی حیات مبارکہ کی طرف موڑ دیا، مگر اس کے بعد سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ حضرت عثمان غنیؓ کے تذکرہ کے ساتھ بھٹو مرحوم کے تذکرہ میں آخر کیا مناسبت ہو سکتی ہے؟ کافی سوچ بچار کے بعد ایک نکتہ یہ ذہن میں آیا کہ دونوں مالدار تھے۔ حضرت عثمانؓ اپنے دور کے مالدار ترین شخص تھے اور بھٹو صاحب کا شمار بھی ملک کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ مگر ذہن نے فورًا اس نکتہ کو جھٹک دیا کہ یہ بھی کوئی مناسبت نہیں بلکہ سرے سے کوئی مناسبت تلاش کرنا ہی غلطی ہے۔
حضرت عثمانؓ بلاشبہ اپنے دور کے مالدار ترین شخص تھے مگر ان کی دولت اسلام کے کام آئی، مسلمانوں کے کام آئی، جہاد میں صرف ہوئی، معاشرہ کے نادار افراد پر خرچ ہوئی، اور غرباء و مساکین کے حصے میں آئی۔ حتیٰ کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ میں یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ حضرت عثمانؓ کی زندگی (۸۳ سال) کے دنوں کی تعداد زیادہ ہے یا ان غلاموں کی تعداد زیادہ ہے جنہیں انہوں نے اپنی گرہ سے خرید کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کیا تھا۔ جبکہ مال و دولت کی کثرت کے باوجود ذاتی زندگی کا حال یہ تھا کہ ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے وہ بہت تاخیر سے مسجد نبویؐ میں آئے۔ راوی کے کہنے کے مطابق لوگوں نے خاصا انتظار کیا حتیٰ کہ عصر کا وقت قریب آگیا۔ حضرت عثمانؓ نے منبر پر کھڑے ہوتے ہی لوگوں سے معذرت کی اور دیر سے آنے کی وجہ بتائی کہ وہ گھر سے وقت پر ہی چلے تھے لیکن راستہ میں کسی مکان کے پرنالے سے گندے پانی کے چھینٹے ان کے کپڑوں پر پڑے جس کی وجہ سے وہ گھر واپس گئے، دوبارہ غسل کیا اور کپڑے دھوئے۔ چونکہ ان کے پاس پہننے کے لیے متبادل لباس نہیں تھا اس لیے تھوڑی دیر ان کپڑوں کے خشک ہونے کا انتظار کیا تب جمعہ کے لیے روانہ ہو سکا۔
چنانچہ حضرت عثمانؓ کے ساتھ اس جاگیردار کو کیا مناسبت ہو سکتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے پینے کا پانی بھی پیرس سے آتا تھا۔ سرمایہ دار آج بھی بہت ہیں اور غلاموں کی تعداد بھی بڑی ہے، بلکہ ہم تو بحیثیت قوم سب کے سب قرضوں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مگر ہماری گردنوں کو غلامی کے اس طوق سے نجات دلانے والا کوئی ’’حضرت عثمانؓ‘‘ نہیں ہے جو خود ایک لباس میں زندگی گزارے اور اپنی دولت کو غلاموں کی آزادی کے لیے وقف کر دے۔