صبح نمازِ فجر کے بعد مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں بیٹھا کچھ لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا کہ مولانا عبد الرؤف ملک نے فون پر یہ خبر دی کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا رات انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بے حد صدمہ ہوا کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد، جس کا میں خود بھی ایک کارکن ہوں، ایک باشعور اور حوصلہ مند رہنما سے محروم ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب سے اس جدوجہد کے حوالے سے طویل رفاقت رہی ہے اور بہت سی تحریکات میں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ۔۔۔ بہرہ ور تھے اس لیے یہ فرق کبھی رفاقت میں حائل نہیں ہوا۔
انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جمعیت طلبہ سے کیا اور پھر جماعتِ اسلامی کے قافلے کا حصہ بنے، مگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعض افکار اور طریق کار سے اختلاف کے باعث الگ ہو گئے۔ جماعتِ اسلامی سے اپنا راستہ الگ کیا لیکن نفاذِ اسلام کی جدوجہد سے دستبرداری اختیار نہیں کی اور آخر وقت تک مصروف عمل رہے۔ اس بڑھاپے میں نفاذِ شریعت کے لیے ان کی تڑپ اور محنت قابلِ رشک تھی جسے دیکھ کر جوانوں کو بھی حوصلہ ملتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے برطانوی استعمار کے خلاف آزادیٔ وطن کی جدوجہد میں مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال کی قید و بند کے بعد واپسی پر اپنی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا تھا، وہی اس محنت کا صحیح راستہ ہے، اور وہ خود کو شیخ الہندؒ کی اس تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہوئے آخر عمر تک اس پر گامزن رہے۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس اور شیخ الحدیث تھے، مگر آزادئ وطن کے لیے انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے ساتھ تدریسی وابستگی کی قربانی دیتے ہوئے آزادئ وطن کی اس تحریک کے تانے بنے، جسے آج ”ریشمی رومال کی تحریک“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان کے اندر علماء کرام اور عوام کو برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت پر ابھارنے کے ساتھ ساتھ اس وقت برطانیہ کی مخالف عالمی قوتوں جرمنی، جاپان اور خلافت عثمانیہ کے ساتھ بھی روابط استوار کیے اور آزادئ ہند کے لیے ان کی مدد سے مسلح جدوجہد کا پروگرام بنایا۔ وہ اسی مقصد کے لیے خلافت عثمانیہ کے ذمہ داروں سے گفت و شنید کی غرض سے حجاز مقدس پہنچے، مگر اس دوران خلافت عثمانیہ کے خلاف شریف مکہ کی بغاوت اور عربوں کی خلافت عثمانیہ سے آزادی کی تحریک نے شیخ الہندؒ کی ریشمی رومال کی تحریک کو بریک لگا دی۔ مولانا محمود حسنؒ کو حجاز مقدس سے ہی گرفتار کر کے برطانوی استعمار کے حوالہ کر دیا گیا، ان پر قاہرہ میں مقدمہ چلا اور انہیں مالٹا جزیرہ میں نظربند کر دیا گیا، جسے اس دور میں برطانوی استعمار کی گوانتاناموبے کہا جا سکتا ہے۔
مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ واپس ہندوستان پہنچے تو انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پُراَمن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ اب ہتھیار اٹھانے کی بجائے آزادیٔ وطن کے لیے سیاسی جدوجہد کریں اور پُراَمن عوامی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی منزل کی طرف پیشرفت کریں۔ اس موقع پر شیخ الہندؒ نے، جو نہ صرف اس وقت دیوبندی فکر اور تحریک کے سب سے بڑے قائد تھے بلکہ اب بھی انہیں دیوبندی مسلک کے تمام داخلی مکاتبِ فکر میں متفقہ قائد کی حیثیت حاصل ہے، آئندہ جدوجہد کے لیے تین نکات کا ایجنڈا پیش کیا:
- مسلمان باہمی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے متحدہ کردار ادا کریں۔
- قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمان کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لیے ہر سطح پر دروسِ قرآن کا اہتمام کیا جائے۔
- مسلمان اپنے شرعی معاملات طے کرنے کے لیے امارتِ شرعیہ کا قیام عمل میں لائیں اور ایک باقاعدہ امیر منتخب کر کے اس کی اطاعت میں کام کریں۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا موقف تھا کہ وہ شیخ الہندؒ کے اسی تین نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، جبکہ ان کے بقول شیخ الہندؒ کے تلامذہ اور ان کے حلقے کے لوگ اس ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے اس موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وہ خود اسی ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ملک بھر میں احباب اور رفقاء کا ایک پورا حلقہ تیار کیا تھا، جو اب ’’تنظیمِ اسلامی‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحبؒ کے فرزند جناب حافظ محمد عاکف سعید کی امارت میں متحرک اور سرگرم عمل ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآن فہمی کے ذوق کو فروغ دیا اور ہر سطح پر اس کے حلقے قائم کیے۔ انہوں نے قرآن کالج کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق قائم کرایا۔ وہ ایک امیر کی بیعت اور اس کی اطاعت میں کام کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور ان کا زندگی بھر اصرار رہا کہ ایک امیر اور اس کے ساتھ سمع و طاعت کا تعلق دینی تقاضوں میں سے ہے۔
وہ نفاذِ شریعت کی ہر جدوجہد اور تحریک کا حصہ رہے اور انہوں نے اسلامی تحریکات میں ہمیشہ ہراول دستہ کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے نفاذِ اسلام کے لیے مسلسل جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ اسلامی نظام کی اصل اصطلاح ’’خلافت‘‘ کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو خلافت کی اصطلاح سے مانوس کرنے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ خلافت، امام مہدی کے ظہور اور ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ کے حوالہ سے بعض تعبیرات میں تفرد بھی رکھتے تھے، جس سے بہت سے علمائے کرام کو اتفاق نہیں تھا۔ خود راقم الحروف نے بھی ان متعدد ملاقاتوں میں ان کی بعض تعبیرات پر تحفظات کا اظہار کیا، لیکن ان کا خلوص اور اپنے مشن کے ساتھ ان کی بے لچک اور جذباتی وابستگی ہمیشہ قابلِ احترام اور قابلِ رشک رہی۔
لاہور میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ذوق اور رہنمائی کے مطابق قرآن کریم کے دروس کے آغاز کا اعزاز شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور ان کے تلامذہ کو حاصل ہے، مگر ان کے حلقہ سے باہر اس ذوق کو بڑھانے میں اگر میری اس بات کو مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو ڈاکٹر اسرار احمد کی جدوجہد سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ میرے بزرگ دوست تھے، تحریکِ نفاذِ اسلام کے فکری رہنما تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک ایسے عقیدت مند تھے جو آج کے دور میں بھی شیخ الہندؒ کا نام لینے اور انہیں رہنما قرار دینے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔