نیویارک ٹائمز کی ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو شائع کردہ ایک خبر کے مطابق امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن نے دو مسلمان تنظیموں کی طرف سے انتخابی مہم کے لیے دی جانے والی رقوم واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ہیلری کلنٹن نے ان مسلمان تنظیموں کے عہدے داروں کے اسرائیل مخالف نظریات کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔
امریکہ میں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں اور ان کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے بلکہ بعض رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کی تعداد امریکہ میں یہودیوں کے برابر ہوگئی ہے۔ اور مختلف حلقوں کی طرف سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی یہ رفتار جاری رہی تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ عیسائیوں کے برابر بھی آسکتی ہے۔ ایک امریکی مضمون نگار نے چند سال قبل یہ لکھا تھا کہ امریکی آبادی پر مسلمان تین طرف سے حملہ آور ہیں (۱) باہر سے آ کر امریکہ میں آباد ہونے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے (۲) امریکہ میں مذہب کی تبدیلی کے ذریعہ بھی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے (۳) اور مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کا تناسب بھی دوسروں سے زیادہ ہے۔
چنانچہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی میں روز افزوں اضافہ کا مسئلہ امریکی حلقوں کے لیے سنجیدہ موضوع کی حیثیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ امریکی سیاستدان اس نکتہ کی طرف توجہ دینے لگے ہیں کہ امریکی شہریت اختیار کرنے والے مسلمانوں کا ووٹ بینک آئندہ چل کر امریکی سیاست میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ اور کلنٹن خاندان کی طرف سے گزشتہ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ تعلقات و روابط کے اظہار کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ مسلمان ووٹروں میں اپنے لیے دلچسپی اور کشش کا ماحول پیدا کیا جائے۔ لیکن نہ صرف امریکہ کے داخلی ماحول بلکہ عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کے ساتھ تعلقات و روابط کو مطلوبہ سطح پر لانے میں امریکی راہنماؤں کے لیے دو بڑی رکاوٹیں ہیں جن کو عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔
ایک رکاوٹ یہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی رہنماؤں اور حکمرانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان سے تعلقات قائم کرنے والے مسلمان اپنی ’’بنیاد پرستی‘‘ میں لچک پیدا کریں اور انہیں خوش کرنے اور رکھنے کے لیے مغری فلسفۂ حیات کے گن گانے کے ساتھ ساتھ اسے عملاً قبول بھی کر لیں۔ لیکن قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ تعلق اور محبت رکھنے والے کسی مسلمان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کی بنیادی باتوں سے نعوذ باللہ منحرف ہوجائے۔ حتیٰ کہ بظاہر عمل نہ کرنے والے اور ماڈرن نظر آنے والے مسلمان بھی اندر سے فکری اور اعتقادی طور پر اسی طرح بے لچک ہوتے ہیں کہ ان سے اسلام کے کسی بنیادی حکم سے انکار کی بات سننے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور جو گنتی کے چند افراد مغربی آقاؤں کی خوشنودی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں وہ مسلم سوسائٹی سے کٹ کر اچھوت کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور روابط ظاہر کرنے میں مغربی راہنماؤں اور حکمرانوں کا جو اصل مقصد ہوتا ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتا۔
دوسری رکاوٹ وہ ہے جسے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے انگریزوں کے حوالہ سے کہا تھا کہ
امریکہ بھی فرنگی استعمار ہی کا جانشین ہے اور اس کی رگِ جاں بھی یہود کے قبضے میں ہے۔ اور اس بات میں اب کوئی شبہ اور ابہام باقی نہیں رہ گیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی سیاست و معیشت اور میڈیا مکمل طور پر یہود کے کنٹرول میں ہے اور وہ اپنی اس معمولی سی اقلیت کو کسی حالت میں ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی مکمل پشت پناہی اور امریکی رہنماؤں کا اسرائیلی مظالم کی ظاہری مذمت تک کو برداشت نہ کرنا اسی یہودی کنٹرول کا شاخسانہ ہے۔ اور امریکی خاتون اول کی طرف سے انتخابی فنڈ کے لیے مسلمانوں کے عطیات واپس کرنے کا اعلان بھی انہی یہودیوں کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو مسز ہیلری کلنٹن کا یہ فیصلہ اچھا نہ لگا ہو اور اس میں انہیں پریشانی کا کوئی پہلو نظر آرہا ہو مگر ہمیں تو اس بات پر خوشی ہوئی ہے۔
- ایک تو اس وجہ سے کہ ہمارے چند امریکی مسلمان بھائیوں کے پیسے بچ گئے جو انہوں نے سیاسی مصلحت کی وجہ سے مسز ہیلری کے انتخابی فنڈ میں دیے ہوں گے کیونکہ امریکی خاتون اول کی کھلم کھلا یہود نوازی کے باعث ان کے منتخب ہونے کے بعد ان پیسوں کا مفاد یہودیوں کے حق میں جانا واضح تھا۔ یقیناً اس رقم میں کچھ نیک مسلمان کے پیسے بھی ہوں گے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پیسوں کو یہودیوں کے حق میں استعمال ہونے سے بچا لیا ہے۔
- اور اس وجہ سے بھی ہیلری کلنٹن کا یہ فیصلہ ہمارے لیے اطمینان کا باعث بنا ہے کہ امریکیوں کو کسی کے پیسے واپس کرنے کا خیال تو آیا ورنہ امریکیوں کی تجوریوں میں تو دنیا بھر کی لوٹ مار اور معاشی ڈکیتیوں کی رقمیں بھری پڑی ہیں۔ اور اس میں ہم غریب پاکستانیوں کے F-16 جنگی طیاروں کی خریداری کے لیے دیے ہوئے کچھ روپے بھی شامل ہیں۔
اس لیے ہم امریکی خاتون اول کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان سے گزارش کرتے ہیں کہ اگر انہیں یہودیوں کی حمایت میں مسلمانوں کے خلاف اس درجہ غیرت آگئی ہے کہ وہ اس غصہ میں مسلمانوں کی رقمیں واپس کر رہی ہیں تو لگے ہاتھوں ہم سے لوٹی ہوئی رقمیں بھی واپس کر دیں، اور تیسری دنیا کے ممالک کی سود در سود کی ظالمانہ رقوم کے ساتھ ساتھ عربوں کے تیل اور پاکستان کے ایف سولہ کی رقوم بھی اسی غصہ میں ہمیں لوٹا دیں۔