چائلڈ لیبر اور بنیادی انسانی حقوق

   
۱۴ جون ۱۹۹۹ء

چیف جسٹس جناب اجمل میاں کی صدارت میں منعقدہ پاکستان لاء کمیشن کے ایک اجلاس نے گزشتہ دنوں کچھ سفارشات پیش کی ہیں جن میں سے ایک سفارش کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ سفارش چائلڈ لیبر کے بارے میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بچوں سے محنت مزدوری کا کام لینے کی قانونی عمر میں ایک سال کا اضافہ کر دیا جائے اور اس کی کم از کم عمر پندرہ سال مقرر کر دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پندرہ سال سے کم عمر بچے سے محنت مزدوری کا کام لینا قانوناً جرم تصور ہوگا۔ اس سے قبل یہ عمر ہمارے ہاں چودہ سال ہے۔

بچوں سے محنت مزدوری کا کام لینا دو لحاظ سے زیادتی اور ظلم تصور ہوتا ہے۔ ایک اس لیے کہ یہ عمر تعلیم حاصل کرنے یا کوئی ہنر سیکھنے کی ہوتی ہے اور بچے اس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دوسرا اس وجہ سے کہ اس عمر میں ان پر محنت و مشقت کا بوجھ ڈالنا اور انہیں مسلسل جسمانی مشقت میں مصروف رکھنا سراسر زیادتی ہے۔ انہیں جائز تفریح کے مواقع نہیں ملتے جو ان کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے، اس طرح تعلیم و تربیت سے محرومی کے ساتھ ساتھ ان پر ذہنی اور جسمانی نشوونما کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں بچوں سے کام لینے کا رواج عام ہے۔ اس میں ایک تو وہ رضاکارانہ کام اور خدمت ہے جو ماں باپ اپنی اولاد سے اور اساتذہ اپنے شاگردوں سے لیتے ہیں۔ یہ کام تربیت ہی کا حصہ ہوتا ہے اور اسلام ماں باپ اور اساتذہ کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے بشرطیکہ وہ تربیت اور شفقت کے دائرہ میں ہو۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار مدینہ کے ہر خاندان نے اپنی بساط کے مطابق آپؐ کی خدمت و معاونت کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک انصاریہ خاتون آنحضرتؐ کی خدمت میں اپنے دس سالہ بچے کو لے کر آگئیں کہ میرے پاس اور کچھ نہیں ہے اس لیے اپنے اس بچے کو آپ کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں۔ یہ حضرت انس بن مالکؓ تھے جنہوں نے دس سال تک رسول اللہؐ کے ذاتی خادم کے طور پر ان کے ساتھ وقت گزارا۔ اور ان کا شمار حدیث رسولؐ کے تین چار بڑے راویوں میں ہوتا ہے۔

دوسرا کام جبری ہے جو بچوں سے محنت مزدوری کرا کے ان کی کمائی حاصل کرنے کے لیے لیا جاتا ہے، یہ بہرحال مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو کام کسی جائز حق کے حصول میں رکاوٹ بنتا ہو وہ ممانعت کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں سے جبری مشقت لینے کا رجحان موجود ہے اور کارخانوں، دکانوں، ہوٹلوں اور کام کاج کے دیگر مراکز میں آپ کو بچوں کی ایک بڑی تعداد دکھائی دے گی۔ یہ بچے معصوم ہاتھوں سے محنت مزدوری کر کے اپنی کمائی ماں باپ اور دیگر اہل خاندان کو کھلاتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے قالین کی صنعت کے حوالہ سے چائلڈ لیبر کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر موضوع بحث بن گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بعض بین الاقوامی اداروں اور خاص طور پر بھارتی لابیوں نے ہماری قالین بانی کی صنعت کو نقصان پہنچانے کے لیے یہ سوال کھڑا کر دیا تھا کہ پاکستان میں قالین بانی کا کام نوعمر بچوں سے لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سے چائلڈ لیبر کے قوانین میں ترمیم اور انہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے مختلف حلقوں کی طرف سے مطالبات سامنے آرہے ہیں اور غالباً پاکستان لاء کمیشن کی مذکورہ سفارش کا پس منظر بھی یہی ہے۔ اصولی طور پر یہ سفارش بہت مناسب معلوم ہوتی ہے لیکن تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر اس مسئلہ کا یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ جبری مشقت اور محنت مزدوری کرنے والے بچوں میں غالب اکثریت ایسے بچوں کی ہوتی ہے جن کے ماں باپ معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں بے بس ہو کر انہیں اس رخ پر ڈالتے ہیں۔ ورنہ کوئی ماں باپ بالخصوص ماں اپنے معصوم بچوں کو محنت و مشقت اور تکلیف و اذیت میں ڈالنا پسند نہیں کرتی۔ آپ کو معاشرہ میں معذور اور مجبور ماں باپ کی ایک بڑی تعداد ایسی ملے گی جن کے روز مرہ ضروری اخراجات کی کفالت محنت مزدوری کرنے والے نوعمر بچے کرتے ہیں۔ اور اگر ان سے یہ روزگار چھین لیا جائے تو چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کے لیے دال روٹی کا انتظام بھی ان کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں اور دوسرا رخ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ مغربی ممالک میں بچوں سے محنت مزدوری کا کام لینا ممنوع ہے۔ لیکن یہ دکھائی نہیں دیتا کہ مغرب کی ویلفیئر ریاستیں اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی کفالت کی ذمہ داری بھی اٹھاتی ہیں۔ یہ اصل میں اسلام کا اصول ہے اور خلافت راشدہ کے دور میں بیت المال یعنی قومی خزانے سے ہر شہری کی ضروریات زندگی کی لازمی کفالت کا عملی نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد گرامی ہماری ملی تاریخ کا ایک روشن باب ہے کہ:

’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے روز عمرؓ سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔‘‘

پانی، روٹی، کپڑا اور مکان ایک انسان کی کم از کم بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر وہ روح اور جسم کا تعلق باقی نہیں رکھ سکتا۔ اور ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی ان ضروریات کی کفالت کی ذمہ دار ہے۔ اس سلسلہ میں ایک عرب دانشور کا استدلال مجھے بہت اچھا لگا جو انہوں نے انسان کی بنیادی ضروریات کے حوالہ سے قرآن کریم سے کیا ہے۔ انہوں نے سورۃ طہ کی آیت ۱۱۸ اور ۱۱۹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام کو جنت میں خطاب کر کے ابلیس کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ یہ تم دونوں کا دشمن ہے۔ اس لیے ہوشیار رہنا کہ یہ کہیں جنت سے تم دونوں کو نکال نہ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے جنت کی زندگی کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’بے شک اس جنت میں نہ تم بھوکے ہوگے اور نہ ننگے ہوگے۔ نہ پیاسے ہوگے اور نہ ہی بے سایہ ہوگے۔‘‘

اس عرب عالم کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسان کی کامیاب زندگی کا تصور ہے کہ اسے خوراک، لباس، پانی اور مکان میسر ہو۔ اور یہی انسان کی کم از کم بنیادی ضروریات ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مروجہ دستور جو ۱۹۷۳ء کا دستور کہلاتا ہے، جب ترتیب پا رہا تھا تو شہریوں کی بنیادی ضروریات کی کفالت کا سوال اٹھایا گیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی میں اس وقت حضرت مولانا مفتی محمودؒ اپوزیشن لیڈر تھے، انہوں نے ہمیں جمعیۃ علماء اسلام کے ایک اجلاس میں اس کی تفصیل سنائی۔ مولانا مفتی محمودؒ نے بتایا کہ جب شہری اور انسانی حقوق کی بات چلی تو انہوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے کہا کہ کم از کم بنیادی حقوق کا تعین کیا جائے اور دستور میں ان کی کفالت کی ریاست کی طرف سے ضمانت مہیا کی جائے۔ مفتی صاحبؒ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھٹو مرحوم کو ان کے انتخابی نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ وہ تو لوگوں سے اس کا وعدہ کر چکے ہیں، اس لیے دستور میں شہریوں کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ ریاست سے اپنے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کر سکیں۔ مفتی صاحبؒ کے بقول بھٹو مرحوم نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت اتنے وسائل نہیں کہ ہم سب شہریوں کو یہ حقوق فراہم کر سکیں اور ان کی دستوری ضمانت دے سکیں۔ اس پر مولانا مفتی محمودؒ نے کہا کہ قومی سطح پر مطلوب وسائل کے حصول اور ان میں توازن پیدا کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کیا جائے اور دستور میں صراحت کر دی جائے کہ شہریوں کو اپنے بنیادی حقوق اور ضروریات کے حصول کے لیے اتنے برسوں کے بعد عدالت سے رجوع کا حق حاصل ہوجائے گا۔ لیکن بنیادی حقوق کی ریاست کی طرف سے ضمانت کا تذکرہ کسی نہ کسی طرح دستور میں ضرور کر دیا جائے۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ تفصیلی بحث و مباحثہ کے باوجود بھٹو مرحوم کو اس طرف لانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

ہمارے ہاں شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ملکی وسائل اس کے متحمل نہیں ہیں لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں ہے کیونکہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت وسائل سے مالامال کیا ہے۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ قومی دولت اور وسائل کی تقسیم میں عدم توازن کا ہے اور قومی وسائل کے صحیح استعمال اور اس کی ترجیحات کا ہے۔ اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری قومی لیڈرشپ ایک جاگیردارنی اور ایک صنعت کار کے درمیان شٹل کاک بن کر رہ گئی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی قومی دولت اور وسائل کی تقسیم میں عدم توازن کو دور کرنے کا روادار نہیں ہے۔ اس حوالہ سے ان کے درمیان اختلاف صرف طبقاتی ترجیحات کا ہے اور پوری قوم اس طبقاتی کشمکش میں سینڈوچ بنی ہوئی ہے۔

چنانچہ اس وقت ہماری اصل ضرورت ایک ایسی قومی لیڈرشپ کی ہے جس کے گرد کسی مراعات یافتہ طبقہ کے مفادات و ترجیحات کا حصار نہ ہو اور وہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موجودہ استحصالی اور ظالمانہ معاشی ڈھانچے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم پاکستان لاء کمیشن کے معزز ارکان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ قوم کے معصوم بچوں کو جبری مشقت سے بچانے کے لیے قانون سازی کی سفارش ضرور کریں، ہم ان کی تائید کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ مجبور والدین، بے سہارا خاندانوں اور دو وقت کی روٹی کے محتاج کنبوں کی روز مرہ ضروریات کی کفالت کے لیے بھی کوئی سفارش لائیں۔ اور موجودہ طبقاتی، استحصالی اور ظالمانہ اقتصادی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی کوئی تجویز پیش کریں۔ اور اگر اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات، خلافت راشدہ اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں کوئی حجاب محسوس ہوتا ہے تو اپنے فکری اور تہذیبی امام برطانیہ کا نام ہی لے لیں جہاں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے لیکن اس کے ساتھ اسٹیٹ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت بھی کرتی ہے اور جہاں کسی شہری کو بھوک اور بیماری کے ہاتھوں بے بس ہو کر اپنے معصوم بچوں کو آگ اگلتی بھٹیوں کے سامنے جھلسنے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ ہوٹلوں کے برتن دھونے کے لیے نہیں بھیجنا پڑتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter