شہر کی بزرگ دینی شخصیت مولانا حافظ شفیق الرحمان ۱۹ جون کو اچانک انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حافظ صاحب مرحوم کا شمار گوجرانوالہ کی ممتاز شخصیات میں ہوتا تھا اور وہ معروف دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم کی مجلس انتظامیہ کے صدر تھے۔ ان کی نماز جنازہ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے پڑھائی جس میں علماء، طلباء اور شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور اس کے بعد انہیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
مولانا حافظ شفیق الرحمان ۱۹۲۹ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے، ان کے والد محترم مولوی مولا بخش مرحوم ایک مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ حافظ شفیق الرحمان مرحوم نے دینی تعلیم مدرسہ خیر المدارس جالندھر میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد جب یہی مدرسہ ملتان منتقل ہوگیا تو انہوں نے مدرسہ خیر المدارس ملتان میں دورۂ حدیث کر کے سندِ فراغت حاصل کی۔ ان کے ہم سبق ساتھیوں میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے فرزند حضرت مولانا ابوذر بخاری اور پنجاب کے موجودہ وزیر زکوٰۃ و عشر مولانا قاری سعید الرحمان بھی شامل ہیں۔ حافظ صاحب مرحوم کی دستار بندی علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے فرمائی۔ قرآن کریم کی تعلیم انہوں نے معروف استاذ القرآن مولانا قاری کریم بخش سے حاصل کی اور تمام زندگی قرآن کریم کی بے لوث خدمت میں گزار دی۔
قیام پاکستان کے بعد حافظ صاحب کا خاندان امرتسر سے گوجرانوالہ منتقل ہوگیا، ان کے بڑے بھائی ملک عبد الرحمان مرحوم ریلوے میں ملازم تھے۔ دینی تعلیم سے فراغت کے بعد حافظ شفیق الرحمان مرحوم نے بازار سیدنگری میں کریانہ اور دیسی گھی کا کاروبار شروع کیا جو آخری عمر میں الیکٹرک سٹور میں تبدیل ہوگیا، اور اب کچھ عرصہ سے وہ اپنے فرزندوں کے ہمراہ حافظ الیکٹرک سٹور کے نام سے کاروبار کر رہے تھے۔ حافظ صاحب کا دکان میں یہ معمول رہا ہے کہ درجنوں کی تعداد میں بچے ہر وقت ان کے ہاں زیر تعلیم رہتے۔ وہ دکانداری بھی کرتے اور بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتے۔ سینکڑوں حفاظ نے ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی جن میں سے بعض علماء ہیں، کچھ ڈاکٹرز ہیں اور کچھ تلامذہ دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مولانا حافظ شفیق الرحمان مرحوم کا معمول یہ تھا کہ ہر وقت قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہتے، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اور کاروبار کرتے ہوئے ان کی زبان پر قرآن کریم ہوتا۔ ان کے ایک دوست کی روایت ہے کہ جوانی کے زمانے میں روزانہ ایک قرآن کریم مکمل کرنے کا معمول تھا اور ان دنوں بھی دس پندرہ پارے روزانہ پڑھ لیتے تھے۔ ایک دوست سے کہنے لگے کہ جب میں غسل خانہ اور بیت الخلاء میں جاتا ہوں تو بڑی مشکل سے زبان پر کنٹرول کرتا ہوں کہ کہیں اس حالت میں بھی قرآن کریم زبان پر جاری نہ ہو جائے۔
مولانا حافظ شفیق الرحمان عظیم دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ اس مدرسہ کی بنیاد حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے ۱۹۵۲ء میں رکھی تھی اور پھر اپنے بھائی شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ساتھ مل کر انہوں نے مسلسل محنت اور پرخلوص جدوجہد کے ساتھ اسے ملک کی بڑی دینی درسگاہوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کو مدرسہ نصرۃ العلوم کے قیام، تعمیر اور ترقی میں ابتدا سے جن حضرات کا قریبی تعاون حاصل رہا ہے ان میں حافظ شفیق الرحمان سرفہرست تھے۔ بلکہ اپنی وفات سے پہلے کچھ عرصہ سے مدرسہ کی مجلس انتظامیہ کے صدر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ حافظ صاحب مرحوم کا بیعت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے تھا۔ ان کے انتقال کے بعد حافظ صاحب نے بیعت کا تعلق امام الہدیٰ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ سے قائم کر لیا اور تمام اسباق بہت جلد مکمل کیے۔ سیاسی طور پر جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان سے وابستہ تھے۔ جمعیۃ کے امیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے ساتھ خصوصی عقیدت تھی اور آخر دم تک پوری استقامت کے ساتھ حضرت درخواستیؒ کے ساتھ وابستہ رہے۔
ان کی رہائش سیٹلائیٹ ٹاؤن میں مسجد صدیقیہ کے قریب تھی اور وہ مسجد صدیقیہ کی انتظامیہ کے رکن تھے بلکہ مسجد کے انتظامات میں انہیں نگران اور سرپرست کی حیثیت حاصل تھی۔ گوجرانوالہ میں قیام کے بعد کم و بیش تیس سال تک انہوں نے شہر کی مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں رمضان المبارک کے دوران تراویح میں قرآن کریم سنایا۔ جبکہ کچھ عرصہ سے ان کی جگہ اب راقم الحروف کو تراویح میں قرآن کریم سنانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔
حافظ صاحب مرحوم اکثر اپنے لیے حسنِ خاتمہ اور چلتے پھرتے موت کی دعا مانگا کرتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ وفات کے روز بھی معمول کے مطابق دکان پر آئے، ان کے دو شاگرد جو حج کے لیے جا رہے تھے انہوں نے حافظ صاحب سے ملاقات کی۔ پہلے حافظ محمد اکرم آئے، ان سے کہا کہ حرمین شریفین میں میرے لیے ایمان پر خاتمہ کی دعا کرنا۔ وفات سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل حافظ محمد نثار ملاقات کے لیے آئے، وہ بھی حج کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے، ان سے بھی یہی کہا کہ میرے لیے ایمان پر خاتمہ کی دعا کرنا۔ تھوڑی دیر گزری کہ اچانک دل کا دورہ ہوا اور چند لمحوں میں اپنی زندگی کی تمنا اور دعا کے مطابق چلتے پھرتے اچانک خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا حافظ شفیق الرحمان کے تین فرزند عتیق الرحمان، انیس الرحمان اور نفیس الرحمان دوکان کا کام سنبھالے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے نیک دل اور شفیق باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ وفات کے بعد مولانا قاضی حمید اللہ خان نے انہیں خواب میں دیکھا کہ صاف ستھرا لباس میں ایک خوبصورت جگہ میں کھڑے ہیں، حال پوچھا تو کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ یہ ایک غیبی اشارہ ہے جو ان کے حسنِ خاتمہ کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔