’الشریعہ‘ کے جولائی ۲۰۰۶ء کے ادارتی صفحات میں حدود آرڈیننس پر ملک میں ایک عرصہ سے جاری بحث و مباحثہ کے حوالے سے حدود آرڈیننس پر معترض حلقوں کے موقف پر اظہار خیال کرتے ہوئے راقم الحروف نے اپنے دو محترم دوستوں، محترم جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کا بھی تذکرہ کیا تھا اور اس بات پر دکھ کا اظہار کیا تھا کہ حدود آرڈیننس کے حوالے سے ان حضرات کا جو موقف پبلک کے سامنے آ رہا ہے، وہ ان حلقوں کی تقویت کا باعث بن رہا ہے جو حدود آرڈیننس کی تکنیکی خامیوں یا فقہی کمزوریوں کو دور کرنے کے بجائے سرے سے پاکستان میں شرعی قوانین کے نفاذ ہی کے خلاف ہیں اور اسی وجہ سے وہ حدود آرڈیننس کو منسوخ کرانے کے درپے ہیں۔ راقم الحروف نے اپنے اس مضمون کا اختتام ان جملوں پر کیا تھا کہ:
’’جو لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں، ان سے شکوے کا حق ہم ضرور رکھتے ہیں کیونکہ جسٹس (ر) دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جب ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کو ایک ہی صف میں کھڑا دیکھتے ہیں تو بہرحال ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
مجھے خوشی ہے کہ دونوں بزرگوں نے اس ’’تکلیف‘‘ کا نوٹس لیا ہے جس سے میری گزارشات کا ایک مقصد بحمد اللہ تعالیٰ پورا ہو گیا ہے۔ مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ ان حضرات کا موقف وہ نہیں ہے جو بعض ذرائع ابلاغ کی مخصوص پلاننگ کی وجہ سے عام حلقوں میں سمجھا جانے لگا ہے مگر میں یہ چاہتا تھا کہ اس کی وضاحت کسی دوسرے کو نہیں، بلکہ خود ان حضرات کو کرنی چاہیے۔ چنانچہ میرا تیر نشانے پر لگا ہے اور دونوں حضرات نے اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کی ضرورت محسوس فرمائی ہے جس پر میں اپنے ان دونوں بزرگ دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے حسب روایت خود کچھ نہیں لکھا مگر ان کے معتمد رفیق کار جناب منظور الحسن نے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور کے اگست ۲۰۰۶ء کے ادارتی صفحات میں میری گزارشات پر اظہار خیال کیا ہے جو چونکہ جاوید غامدی صاحب کے ترجمان ’’اشراق‘‘ کے اداریہ کے طور پر شائع ہوا، اس لیے میں اسے غامدی صاحب کی طرف سے ہی تصور کر رہا ہوں۔
منظور الحسن صاحب ایک صاحب علم، صاحب مطالعہ اور فاضل دوست ہیں اور غامدی صاحب کے زیر سایہ علمی خدمات میں مصروف ہیں، مگر ابھی چند روز قبل ان کے ساتھ یہ المناک سانحہ پیش آیا ہے کہ غامدی صاحب کے علمی مرکز ’’المورد‘‘ ماڈل ٹاؤن لاہور کے قریب رات کے اندھیرے میں ان پر فائرنگ ہوئی ہے جس سے شدید زخمی ہو کر وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اگرچہ حملہ آوروں کا سراغ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا مگر یہ حرکت جس نے بھی کی ہے، انتہائی مذمت کے قابل ہے اور ہم منظور الحسن صاحب کے ساتھ اس المناک سانحہ میں ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور ان کے حملہ آوروں کو بے نقاب کر کے ان کے قانونی انجام تک پہنچائیں، آمین یا رب العالمین۔
منظور الحسن صاحب کا مذکورہ مضمون اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب کا تفصیلی مکتوب گرامی آپ ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے میں ملاحظہ کر رہے ہیں اور ان دونوں مضامین کی اشاعت سے میرا مقصد ایک حد تک پورا ہو گیا ہے۔
میں ان دنوں مدارس دینیہ کے سالانہ اجتماعات کی وجہ سے مسلسل اسفار میں ہوں، اس لیے ان دونوں مضامین پر تفصیلی گفتگو کا حق کسی اور موقع کے لیے محفوظ رکھتے ہوئے سردست صرف اس حوالے سے کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب منظور الحسن صاحب نے لکھا ہے اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کا موقف ان کی کتابوں میں موجود ہے جسے دیکھے بغیر ان کی کسی رائے پر جرح کرنا درست نہیں ہے۔ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ کتابوں کی دنیا پبلک میڈیا کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ پبلک میڈیا میں کتابوں کے حوالے نہیں دیکھے جاتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کس موقع پر کن کے سامنے کون سی بات کہہ رہے ہیں، کون سے تنازعے میں کس فریق کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کسی مسئلہ پر عمومی کشمکش کے تناظر میں آپ کی بات کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں الیکٹرانک میڈیا کے ایک چینل نے حدود آرڈیننس پر جس کج بحثی کا اہتمام کیا، اس کے بارے میں خود ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب کا تاثر یہ ہے کہ:
’’مجھے افسوس ہوا کہ ایک ٹی وی چینل نے اسے ناپسندیدہ طریقے سے اپنی ناشائستہ مہم کا حصہ بنایا۔‘‘
اس ٹی وی چینل نے ہمارے ان دو محترم بزرگوں کے موقف کو جس انداز سے پیش کیا، ہمارے لیے اصل تکلیف کا باعث وہی تھا اور اگر ان دوستوں کو ہماری یہ تکلیف کسی لابی کے ساتھ ہمدردی یا اس کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا سبب نظر آتی ہے تو وہ ملک کے کسی شہر میں جا کر کسی گلی میں کھڑے ہو جائیں اور مذکورہ ٹی وی چینل دیکھنے والے آٹھ دس افراد کو روک کر ان سے ان کا تاثر معلوم کریں کہ وہ حدود آرڈیننس کے حوالے سے عاصمہ جہانگیر اور ہمارے ان محترم دوستوں کے موقف میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
جہاں تک حدود آرڈیننس کے بارے میں ہمارے موقف کا تعلق ہے تو وہ بھی یہی ہے کہ حدود اللہ جو قرآن و سنت کی طے کردہ ہیں، قطعی طور پر ناقابل ترمیم ہیں اور قیامت تک کسی کو اس کا حق حاصل نہیں ہے، مگر حدود سے ہٹ کر حدود آرڈیننس کی باقی تمام باتوں پر نظر ثانی ہو سکتی ہے۔ فقہی مباحث کا دروازہ کھلا ہے اور ضرورت کے مطابق اجتہاد و استنباط کی گنجائش بھی موجود ہے، البتہ اس فرق اور وضاحت کے ساتھ کہ اجتہاد کے اصول و قواعد وہی ہوں گے جو امت مسلمہ کے اجماعی تعامل کے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور اجتہاد و استنباط کے مسلمہ قواعد و اصول کی نفی کرتے ہوئے نئے اصول و ضوابط کا دروازہ کھولنے کو ہم فتنے کا دروازہ سمجھتے ہیں اور گمراہی کا راستہ تصور کرتے ہیں۔
حدود آرڈیننس ہوں یا کوئی بھی مسئلہ اور قانون، مسلمات کے دائرے میں رہتے ہوئے بحث و مباحثہ ہمارے نزدیک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ وقت کا ایک ناگزیر تقاضا اور ضرورت بھی ہے جس کی طرف ہم روایتی علمی حلقوں کو مسلسل توجہ دلاتے رہتے ہیں، اور مختلف حوالوں سے بعض دوستوں کی ناراضی کا خطرہ مول لیتے ہوئے بھی اس کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں، البتہ اس کے ساتھ ہم پورے شعور کے ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور قلم سے کوئی ایسا جملہ نہ نکلنے پائے جو اسلامی تعلیمات کی نفی کرنے والوں اور مسلمان ممالک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا راستہ روکنے والوں کی تقویت کا باعث ہو اور دوسرے دوستوں سے بھی ہمارا یہی تقاضا ہوتا ہے۔
اپنے گھر کے نقشے میں ردوبدل اور ضرورت کے مطابق ترمیم و اضافہ کے لیے رائے دینا اور اس کے لیے کوشش کرنا تمام بھائیوں کا یکساں حق ہوتا ہے لیکن اگر دشمن اس گھر پر حملہ آور ہو تو پہلے گھر کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کوشش اسی گھر کے لیے ہوتی ہے جو جیسا کیسا بھی ہے مگر موجود ہے۔ گھر کو دشمن کے حملے کا سامنا ہو تو ترمیم اور ردوبدل کے نقشے نہیں پھیلائے جاتے بلکہ اس کے تحفظ کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، البتہ کسی دوست کو اسلام پر، اسلامی احکام و قوانین پر، اسلامی ثقافت و تمدن پر، اسلامی اقدار و روایات پر اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص و امتیاز پر دشمن کی یلغار کی ہمہ گیری اور سنگینی کا پوری طرح ادراک و احساس نہ ہو تو ہم اس کے لیے اقبال کی زبان میں یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں