گزشتہ ہفتے سعودی مملکت کے فرمانروا شاہ فہد کے ساتھ حکومت پاکستان کے ایک وفد کی ملاقات کے حوالے سے یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ شاہ فہد مسئلہ کشمیر پر اسلامی سربراہ کانفرنس بلانے والے ہیں۔ معلوم نہیں اس خبر کی حقیقت کیا ہے لیکن جہاں تک اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس طلب کرنے کی ضرورت ہے اس سے انکار یا صرفِ نظر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
کشمیری حریت پسند جس جرأت و استقلال کے ساتھ حصولِ آزادی کے لیے اپنے خون کی قربانی دے رہے ہیں اور افغان مجاہدین کے گیارہ سالہ کامیاب جہادِ آزادی کو آخری مراحل میں جس طرح سازشوں کے ذریعے ناکامی میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ مسلم سربراہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور افغانستان و کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطین، آذربائیجان، مورو، ایریٹیریا، اراکان (برما) اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں میں ابھرنے والی آزادی کی تحریکات کے حوالہ سے اپنے اجتماعی کردار کا تعین کریں۔
یہ درست ہے کہ مسلم ممالک کے بیشتر موجودہ حکمرانوں کے شخصی اور گروہی مفادات استعماری قوتوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہ اس وقت اس دوراہے پر کھڑے ہیں کہ عالم اسلام میں آزادی، غلبۂ اسلام اور دینی بیداری کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا ساتھ دیں یا مسلم ممالک کے موجودہ فرسودہ انتظامی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچوں کے تحفظ کی ناکام تگ و دو میں لگے رہیں۔ لیکن مسلم حکمرانوں کو ایک بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ عالم اسلام اب خواب غفلت سے بیدار ہو رہا ہے اور اگر ان حکمرانوں نے بیداری اور آزادی کی ان لہروں کے مخالف سمت چلنے کی کوشش کی تو تاریخ میں ان کا یہ جرم کبھی معاف نہیں ہوگا۔
اس پس منظر میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مسلم حکمران اگر اپنے مثبت اور مؤثر کردار کا تعین کرتے ہیں تو نہ صرف افغانستان، کشمیر، فلسطین اور دیگر خطوں کے مظلوم مسلمان ان کے شکر گزار ہوں گے بلکہ انہیں اپنی گزشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا راستہ بھی مل جائے گا۔