سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کا تسلسل

   
نومبر ۲۰۰۱ء

روزنامہ جنگ لندن ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ء کی ایک خبر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کو ظالمانہ نظام قرار دیتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ اس نظام کو تبدیل کیا جائے۔ کونسل کی سفارش میں کہا گیا ہے کہ یہ نظام تمام تر خرابی کی جڑ ہے، اس لیے اس نظام کو ختم کر کے اسلام کے اصولوں پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے مؤثر نظام نافذ کرنا چاہیے تاکہ سب سے انصاف ہو اور کوئی کسی کا حق نہ چھین سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا موجودہ معاشی نظام سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ ہے جس کی بنیاد چند مخصوص طبقات کو سہولتیں فراہم کرنے، ان کے مفادات کے تحفظ اور غریب عوام کے استحصال پر ہے۔ اور اسی سودی اور استحصالی نظام کے بطن سے بیشتر معاشرتی جرائم اور خرابیوں نے جنم لیا ہے۔ یہ معاشی سسٹم اس نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو مغربی حکمرانوں نے اپنے قبضے کے دور میں ہم پر مسلط کیا تھا اور جسے آزادی کے اعلان اور قیامِ پاکستان کے فورًا بعد ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

حتٰی کہ خود بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے بھی قیامِ پاکستان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ۱۵ جولائی ۱۹۴۸ء کو اپنے خطاب میں پاکستانی ماہرینِ معیشت کو ہدایت کی تھی کہ وہ مغرب کے معاشی نظام کی پیروی کرنے کی بجائے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر نیا معاشی نظام تشکیل دیں۔ اس موقع پر انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغربی نظام افرادِ انسانی کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کی ذمہ داری سراسر مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی دنیا صنعتی قابلیت اور مشینوں کی دولت کے زبردست فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بدترین باطنی بحران میں مبتلا ہے۔ اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پرسکون خوشحالی کو حاصل کرنے کے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشی ماہرین اور ریاستی اداروں کا معاشی قبلہ مغرب ہی چلا آ رہا ہے اور قیامِ پاکستان کے بعد اس ظالمانہ اور استحصالی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بجائے ہم اس کے جال میں مزید جکڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا شکنجہ ہمارے گرد دن بدن سخت ہوتا جا رہا ہے اور اس جال سے نکلنے کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ چند سال قبل وفاقی شرعی عدالت اور اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے سود کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور حکومت کو ان کے متبادل اسلامی قوانین نافذ کرنے کی ہدایت کی تو کسی درجہ میں یہ امید قائم ہو گئی تھی کہ اس استحصالی نظام کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہو جائے گی۔ مگر ریاستی اداروں نے جس افسوسناک طریقہ سے اس عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کا راستہ روکا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش نہ صرف قومی سطح پر اس اہم اور بنیادی مسئلہ پر یاددہانی کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس نے ملک کے دینی حلقوں کی طرف سے اس سلسلہ میں فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے حکمران اور ریاستی ادارے اس یاددہانی پر جلد توجہ دے کر قوم کو اس عظیم بحران بلکہ عذابِ خداوندی سے نجات دلا سکیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter