’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۶ء کے شمارے میں شائع شدہ روزنامہ جناح اسلام آباد کے کالم نگار جناب آصف محمود ایڈووکیٹ کے مضمون میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، ان میں ایک سوال غلامی کے بارے میں بھی ہے جس میں انہوں نے انتہائی استہزا اور تمسخر کے انداز میں اسے موضوع بحث بنایا ہے، تاہم چونکہ یہ بھی ایک اہم سوال ہے جو جدید تعلیم یافتہ ذہنوں کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے، اس لیے اس کے بارے میں کچھ ضروری گزارشات پیش کی جا رہی ہیں۔
غلامی کا رواج قدیم دور سے چلا آ رہا ہے۔ بعض انسانوں کو اس طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مالکوں کی خدمت پر مامور ہوتے تھے، ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی، انہیں آزاد لوگوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے اور اکثر اوقات ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ جدید دنیا میں بھی ایک عرصے تک غلامی کا رواج رہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، جسے جدید دنیا کی علامت کہا جاتا ہے، غلامی کو باقاعدہ ایک منظم کاروبار کی حیثیت حاصل تھی۔ افریقہ سے بحری جہازوں میں ہزاروں افراد کو بھر کر لایا جاتا تھا اور امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ غلامی کے جواز اور عدم جواز پر امریکی دانشوروں میں صدیوں تک بحث جاری رہی حتیٰ کہ شمال اور جنوب کی تاریخی خانہ جنگی کے اسباب میں بھی ایک اہم مسئلہ غلامی کا تھا۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۵ء میں امریکہ میں قانونی طور پر غلامی کے خاتمہ کا فیصلہ کیا گیا۔ برازیل میں ۱۸۸۸ء میں غلامی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ نیپال نے ۱۹۲۶ء میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا اور ۱۹۴۹ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں غلامی کی مکمل ممانعت کا اعلان کیا جس کے بعد اب دنیا میں غلامی کی کوئی صورت قانونی طور پر باقی نہیں رہی۔
قدیم دور میں غلامی کی دو صورتیں ہوتی تھیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی بے سہارا شخص کو طاقت ور لوگ پکڑ کر قیدی بنا لیتے تھے اور پھر اسے غلام بنا کر بیچ دیتے تھے، جیسا کہ ابتدائے اسلام میں حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ دونوں آزاد گھرانوں کے آزاد افراد تھے، لیکن سفر کی حالت میں انہیں تنہا پا کر کچھ لوگوں نے قیدی بنا لیا اور غلام کی حیثیت سے آگے فروخت کر دیا۔ یہ غلامی ان حضرات کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنی کہ ایک مکہ مکرمہ میں اور دوسرے مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا اور بالآخر آزادی کے ساتھ ساتھ دونوں صحابیت کے شرف سے بھی ہم کنار ہوئے۔ اسے ’’بیع الحر‘‘ یا آج کی اصطلاح میں ’’بردہ فروشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کی مکمل ممانعت کر دی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی آزاد شخص کو غلام بنانے یا اسے فروخت کرنے کو قطعی طور حرام قرار دے دیا، جبکہ مغربی ممالک میں یہ بردہ فروشی اس کے بعد ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ تک جاری رہی اور اسے قانونی تحفظ حاصل رہا۔
غلامی کی دوسری صورت یہ تھی کہ باہمی جنگوں میں جو لوگ قیدی بنتے تھے اور انہیں قتل کرنا، چھوڑ دینا یا فدیہ لے کر آزاد کرنا فاتحین کی مصلحت میں نہیں ہوتا تھا، انھیں غلام بنا لیا جاتا تھا اور باقاعدہ قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے افراد اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا جنھیں گھر کے دوسرے درجے کے افراد کا درجہ حاصل ہوتا تھا، ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور ان میں جو خواتین ہوتی تھیں، ان کے ساتھ جنسی تعلق کا ان کے مالکوں کو حق حاصل ہوتا تھا۔ یہ جنگی قیدیوں کے بارے میں مختلف عملی صورتوں میں سے ایک صورت اور آپشن سمجھا جاتا تھا اور اس کا عام رواج تھا۔
اسلام نے اس آپشن کو ختم کرنے کے بجائے باقی رکھا، البتہ اس صورت میں غلام یا لونڈی بن جانے والوں کے حقوق کا تعین کیا، ان کے ساتھ معاملات کو باقاعدہ قوانین و ضوابط کی شکل دی، ان کے حقوق و فرائض کی وضاحت کی اور مختلف حوالوں سے مثلاً اجر و ثواب کے حصول کے لیے، بعض گناہوں کے کفارات میں اور بعض جرائم کی سزاؤں میں ان کی آزادی کے مختلف راستے کھولے۔ اسلام نے اس دور میں جبکہ پوری دنیا میں غلاموں کو جانوروں کی طرح سمجھا جاتا تھا، ان کے لیے سہولت اور حقوق کی کیا صورتیں پیدا کیں، ان کا ہلکا سا اندازہ دو تین امور سے لگایا جا سکتا ہے:
- زید بن حارثہؓ جنھیں آزاد حالت میں پکڑ کر غلام بنا لیا گیا تھا اور فروخت کر دیا گیا تھا، بالآخر مکہ مکرمہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بنے اور آپ نے انہیں آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ اس دوران ان کے اہل خاندان کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ انہیں لینے کے لیے مکہ مکرمہ آئے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا، مگر زید بن حارثہؓ نے خاندان والوں کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیا۔
- مسلم شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر حکم دیا کہ یہ غلام تمھارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ انھیں وہی کھلاؤ، جو خود پہنو ، وہی انھیں پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو۔
- ایک صحابی نے اپنی لونڈی کو اس بات پر تھپڑ رسید کیا کہ وہ بکریاں چرا رہی تھی اور اس کی بے پروائی کی وجہ سے بھیڑیا ایک بکری لے گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو اس طرح تھپڑ مارنے پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا تو اس صحابی نے لونڈی کو آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمھیں لپیٹ میں لے لیتی۔
اس طرح کے بیسیوں واقعات اور روایات پیش کی جا سکتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ان غلاموں اور لونڈیوں کو کس طرح زندگی کی سہولتوں سے بہرہ ور کیا، ان کے لیے علم کے دروازے کھولے اور انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے، حتیٰ کہ خاندان غلاماں کے حکمرانوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور علم و فضل اور حکمت و دانش کے ساتھ ساتھ دولت و اقتدار میں وافر حصہ لینے والے مسلم مشاہیر کی تاریخ مرتب کی جائے تو ایسے غلاموں کی ایک بڑی فہرست سامنے آئے گی جن کے لیے یہ غلامی ہی ان سعادتوں کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوئی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی یہ بات بہ طور حکم کے نہیں بلکہ مختلف آپشنوں میں سے ایک آپشن کے طور پر تھی اور میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اسے برقرار رکھنے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس زمانے میں باقاعدہ قید خانے اس انداز سے نہیں ہوتے تھے کہ ان میں ہزاروں افراد کو منظم طور پر سالہا سال تک قید میں رکھا جا سکتا، اس لیے جن قیدیوں کو قید میں رکھنا ضروری ہوتا تھا، ان کے لیے عملی صورت یہی ممکن تھی کہ انہیں تقسیم کر دیا جائے اور وہ ریاست کے قیدی بننے کے بجائے افراد اور خاندانوں کے قیدی رہیں۔
جن لوگوں نے زندگی بھر قید میں رہنا ہے، خود ان کے لیے بھی بہتر صورت یہ تھی کہ انہیں قید خانوں میں ڈالنے کے بجائے افراد اور خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ وہ قیدی ہونے کے باوجود زندگی کی مناسب سہولتوں اور حقوق سے کسی حد تک بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کی عملی شکل آج کے دور میں دیکھنی ہو تو جیل خانوں میں بند قیدیوں اور اچھا کردار رکھنے والے قیدیوں کو پیرول پر مختلف خاندانوں میں نیم قیدیوں کی صورت میں تقسیم کیے جانے والے قیدیوں کا موازنہ کر لیا جائے۔ یہ بات واضح ہو جائے گی کہ خود ان قیدیوں کے لیے بہتر صورت کون سی ہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ اعتراض قیدی خواتین کے ساتھ جنسی تعلق کو روا قرار دیے جانے پر کیا جاتا ہے، لیکن اس حوالے سے دیکھا جائے کہ ایک ایسی خاتون جس کی واپسی کے اس دور میں تمام راستے مسدود تھے اور اس نے عمر بھر قیدی ہی رہنا تھا، اس کے لیے ایک عورت کے طور پر کیا صورت مناسب اور بہتر تھی۔ اسلام نے اس زمانے کے عالمی عرف کے مطابق اس کو ایک آپشن کے طور پر قبول کیا، لیکن اس کے ساتھ حقوق و مفادات کا ایک ایسا نظام بھی قانونی طور پر قائم کر دیا کہ اس جنسی تعلق اور اولاد کی صورت میں وہ عورت آزادی اور دیگر حقوق کی مستحق بھی قرار پاتی ہے۔
چنانچہ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اسلام نے غلام اور لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا بلکہ اس دور کے عالمی عرف کے مطابق اسے جنگی قیدیوں کے لیے ایک آپشن کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے احکام و قوانین کا ایک پورا نظام فراہم کر دیا جیسا کہ آج کے عالمی عرف کے مطابق جنگی قیدیوں کے بارے میں جنیوا کنونشن کو عالم اسلام نے بھی قبول کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان و فلسطین سمیت جن مقامات پر جہاد کے عنوان سے جنگیں ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں، وہاں مجاہدین نے کسی قیدی کو غلام یا لونڈی کا درجہ نہیں دیا اور انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جانے والے مجاہدین نے بھی جنگی قیدیوں کے بارے میں عالمی عرف اور قوانین کا عملاً احترام کیا ہے۔ البتہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی دور میں یہ عالمی عرف بھی تبدیل ہو گیا اور پہلے کی طرح کے حالات دوبارہ پیدا ہو گئے تو اسلام کا یہ آپشن بطور آپشن کے باقی رہے گا اور اس سلسلے میں قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے احکام دوبارہ نافذ العمل ہو جائیں گے۔
اس لیے محترم آصف محمود ایڈووکیٹ اور دیگر دوستوں سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ اسلام کے کسی حکم یا قانون کے بارے میں مغربی پراپیگنڈے متاثر ہو کر استہزا اور طنز کا لہجہ اختیار کرنے کے بجائے اس کے پس منظر سے واقفیت حاصل کریں اور اسلامی احکام کو مغربی فلسفہ و ثقافت اور مغربی معاشرہ کے معروضی تناظر پر پرکھنے کے بجائے ان کے حقیقی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ویسٹرن سوسائٹی کو تہذیب و ثقافت اور سولائزیشن کا حتمی معیار تصور نہ کیا جائے اور اسلامی قوانین و احکام کو انسانی سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور ضروریات کے حوالے سے دیکھا جائے تو قرآن و سنت کا کوئی بھی حکم ناقابل فہم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا صحیح شعور عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔