میں نے گزشتہ عشرہ سعودی عرب میں گزارا۔ ۱۲ جولائی کو جدہ پہنچا تھا اور ۲۲ جولائی کو جدہ سے سفر کر کے ایک روز قبل نیویارک آگیا ہوں۔ اس دوران بیت اللہ شریف کی حاضری، عمرہ اور روضۂ اطہر پر صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ میرے چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمان خان شاہد، میرے ایک برادر نسبتی حافظ عبد العزیز اور میرے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد جدہ میں مقیم ہیں۔ قاری شاہد خان کے بچے ارسلان خان نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے جبکہ حافظ عبد العزیز کی بچی کا نکاح تھا۔ دونوں نے مسجد میں مشترکہ تقریب کا اہتمام کیا۔ میرے ایک اور بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن سلمہ بھی عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے وہ بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ مسجد حرام میں اپنے عزیز بھتیجے ارسلان خان کا حفظِ قرآن کریم کا آخری سبق سنا اور برادر نسبتی حافظ عبد العزیز کی بیٹی کا نکاح پڑھایا۔
مدینہ منورہ میں میرے استاذ حضرت قاری محمد انور صاحب گزشتہ تیس برس سے مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ان سے میں نے قرآن کریم حفظ کیا تھا جب وہ گکھڑ میں حفظ قرآن کریم کے مدرسہ کے بڑے استاذ تھے۔ میں نے حفظ قرآن کریم ۱۹۶۰ء میں مکمل کیا تھا جسے اب نصف صدی ہوگئی ہے۔ قاری صاحب کی خدمت میں حاضری ہوئی اور ان کی شفقتیں اور دعائیں حاصل کیں۔ جدہ میں ہمارے ایک پرانے دوست قاری محمد رفیق صاحب نے بہت سے علماء کرام کو شام کے کھانے پر بلا رکھا تھا ان کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کیں۔ مدرسہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ میں قاری سیف اللہ صاحب نے خواتین کے لیے دینی معلومات کا ’’سمر کورس‘‘ شروع کیا ہوا ہے اس کورس میں شریک طالبات اور خواتین سے خطاب کیا۔
۲۲ جولائی کو نیویارک پہنچا ہوں اور رمضان المبارک کے وسط میں گوجرانوالہ واپسی کا ارادہ ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ امریکہ میں مصروفیات کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں اگلے چند روز میں معروضات پیش کروں گا، سردست جدہ میں قاری محمد رفیق صاحب کی رہائش گاہ پر علماء کرام کی نشست میں پیش کی گئی معروضات کا کچھ حصہ نذرِ قارئین کر رہا ہوں۔
میری علماء کرام سے اکثر یہ گزارش رہتی ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات اور ان کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے تقاضوں پر ہمیشہ نظر رکھا کریں اور ان کے مطابق اپنی گفتگو، لہجہ اور جدوجہد کے انداز پر بھی نظر ثانی کرتے رہا کریں کیونکہ اس کے بغیر ہم دین کی دعوت و تبلیغ اور لوگوں کی صحیح دینی رہنمائی کی ذمہ داری سے پوری طرح سرخرو نہیں ہو سکتے۔ مثال کے طور پر دو تین باتوں کا حوالہ دوں گا:
- ایک یہ کہ اب سے پون صدی قبل تک اردو زبان میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کے اسلوب کا سکہ چلتا تھا۔ اس اسلوب اور لہجے نے جس میں پرشکوہ الفاظ، مشکل تراکیب اور بھاری بھرکم جملوں کی فراوانی ہوتی تھی ایک عرصہ تک ادب، صحافت اور خطابت کی دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ لیکن اب یہ اسلوب متروک ہو چکا ہے اور اس اسلوب میں بات کر کے آپ آج کی نسل تک اپنا پیغام منتقل نہیں کر سکتے۔ آج کا اسلوب یہ ہے کہ آپ کتنے سادہ الفاظ، آسان لہجے اور عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے بات کر سکتے ہیں یا اپنا ما فی الضمیر تحریر میں لا سکتے ہیں۔ آپ مولانا مودودیؒ، جاوید احمد غامدی اور غلام احمد پرویز سے ہزار اختلاف رکھیں، مجھے بھی بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف ہے لیکن آپ اس بات کو بہرحال تسلیم کریں گے کہ ان کے پیغام نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سادہ انداز میں بات کرتے ہیں، کامن سینس میں بات کرتے ہیں اور غیر ضروری مباحث میں الجھے بغیر ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں۔ علماء کرام کو بھی یہی اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور اسی انداز میں بات کر کے وہ نئی نسل تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
- اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اب سے نصف صدی قبل تک دنیائے خطابت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے طرزِ خطابت کی حکمرانی تھی۔ انہیں اردو زبان کا سب سے بڑا عوامی خطیب کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ ان کی خطابت کے دیگر کمالات کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑا کمال شمار ہوتا تھا کہ وہ گھنٹوں اپنے سامعین کو خطابت کے سحر میں جکڑے رکھتے تھے اور لوگ وقت کی رفتار سے بے پروا ہو جایا کرتے تھے۔ بہت سے واقعات ہیں کہ امیر شریعتؒ نے عشاء کی نماز کے بعد بیان شروع کیا اور فجر کی اذانوں نے لوگوں کو چونکا کر احساس دلایا کہ رات بیت چکی ہے۔ غلام محمد خان لوندخوڑ مرحوم معروف مسلم لیگی لیڈر اور شاہ جیؒ کے سیاسی مخالفین میں سے تھے۔ انہوں نے ایک واقعہ لکھا ہے جو میں نے کسی زمانے میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کے ہفت روزہ چٹان میں پڑھا تھا کہ خان صاحب مرحوم ایک بار اپنی گاڑی پر عشاء کے بعد دہلی دروازہ لاہور کے باہر سے گزر رہے تھے اور امیر شریعتؒ وہاں ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ خان صاحب مرحوم اس خیال سے رک گئے کہ ان کی خطابت کا بہت شہرہ ہے تھوڑی دیر سن لیتے ہیں کہ ان کے خطاب کا انداز کیا ہے۔ خان مرحوم کہتے ہیں وہ ایک سائیڈ پر جہاں آواز آرہی تھی، گاڑی کھڑی کر کے اس سے باہر نکلے اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اس کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ خان صاحب مرحوم نے لکھا ہے کہ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوا کہ وہ ساری رات کھڑے رہے ہیں اور صبح کی اذانوں کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔
یہ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت کا سحر اور کمال تھا لیکن آج کا اسلوب یہ نہیں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اسلوب بھی رخصت ہو چکا ہے۔ آج کی خطابت کا کمال یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر وقت میں اپنی بات مکمل کر سکتے ہیں۔ بات بھی مکمل ہو اور وقت بھی کم سے کم صرف ہو۔ آپ اگر کسی بڑی کانفرنس میں اپنی بات دس بارہ منٹ میں پوری طرح بیان کر سکتے ہیں تو آپ کامیاب خطیب ہیں ورنہ لوگوں کے پاس اب اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ گھنٹوں آپ کے سامنے بیٹھے سر دھنتے رہیں۔ وقت بھی لوگوں کے پاس نہیں ہے اور ذوق بھی مصروفیات کے ہجوم میں غائب ہو چکا ہے۔
- تیسری بات جو میں علماء کرام سے عرض کرتا ہوں کہ اب سے ربع صدی قبل تک صورتحال یہ تھی کہ عام لوگ دین کے بارے میں وہی معلومات رکھتے تھے جو علماء کرام انہیں فراہم کر دیتے تھےاور کسی مسئلہ کے حوالے سے ہم جو کچھ ہم بتا دیتے وہی ان کا مبلغ علم ہوتا تھا اس لیے ہماری رائے بھی ان کے لیے حتمی درجہ رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس دینی مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب صورتحال یہ نہیں ہے اس لیے کہ لوگوں کے پاس دینی مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے دیگر ذرائع بھی موجود ہیں۔ اردو اور انگریزی میں دینی لٹریچر کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔ میڈیا چینلز، اخبارات و جرائد اور مطالعاتی حلقوں نے عام لوگوں کے سامنے دینی معلومات کا انبار لگا دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے جسے میں آج کے دور کا المیہ سمجھتا ہوں کہ علم کا دائرہ دن بدن سمٹتا جا رہا ہے اور معلومات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔ اس لیے معلومات صحیح ہوں یا غلط اور معلومات سے صحیح نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کسی میں ہو یا نہیں مگر بہرحال یہ امر واقعہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں لوگوں کا معلومات کا دائرہ صرف ہماری مہیا کردہ معلومات تک محدود نہیں رہا اور وہ دوسرے ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کا ذوق اور سہولت رکھتے ہیں۔
اس ماحول میں ہم اگر اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر بات کریں گے تو وہ مؤثر نہیں ہوگی بلکہ ہماری ثقاہت اور اعتماد بھی مجروح ہوگا۔ اس لیے علماء کرام کو اپنے مطالعہ اور معلومات میں وسعت پیدا کرنا ہوگی اور کسی بھی مسئلہ پر ہمہ پہلو معلومات کے دائرے اور تناظر میں بات کرنا ہوگی ورنہ ہم اپنی دینی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے۔