حامد میر سے کچھ زیادہ تعارف نہیں رہا، البتہ ان کے والد مرحوم پروفیسر وارث میر کا پرانا قاری اور کسی حد تک ناقد بھی رہا ہوں۔ وارث میر مرحوم واضح سوچ رکھنے، جرأت سے بات کرنے اور منطق و استدلال کے سہارے آگے بڑھنے والے دانشور تھے۔ اس لیے بہت سی باتوں میں اختلاف کے باوجود ان کے مضامین اہتمام سے پڑھتا تھا۔ حامد میر اس کوچے میں آئے تو تعارف اتنا ہی تھا کہ نوجوان صحافی ہیں اور پروفیسر وارث میر کے بیٹے ہیں۔ لیکن ’’قلم کمان‘‘ اور ’’پاکستان‘‘ میں ان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی گئیں اور ایک نیا، با ہمت اور با صلاحیت دانشور ہمارے سامنے آکھڑا ہوا۔
حامد میر کی ہر بات سے اتفاق ضروری نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے، مگر اس نوجوان کی یہ عادت مجھے پسند ہے کہ کسی بھی موضوع پر غور و فکر اور مطالعہ و تحقیق کے بعد قلم اٹھاتا ہے اور جو بات ایک بار طے کر لیتا ہے اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حامد میر نے مجھے روزنامہ پاکستان میں لکھنے کے لیے کہا تو انکار نہ کر سکا۔ اور متنوع مصروفیات کے باوجود کم و بیش سال بھر مختلف عنوانات پر مضامین کا سلسلہ چلتا رہا۔ اور پھر جب حامد میر ’’پاکستان‘‘ سے ’’اوصاف‘‘ میں منتقل ہوگئے تو میرا بھی جی چاہا کہ اس نوجوان کے ساتھ ہی رہوں، مگر تالی کے لیے دوسرے ہاتھ کی حرکت کے انتظار میں کچھ وقت گزر گیا۔ اور اب یہ شرط پوری ہونے پر ’’نوائے قلم‘‘ کے مستقل عنوان کے ساتھ قلم ہاتھ میں لے رہا ہوں۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ ہفتہ میں دو یا کم از کم ایک بار قارئین سے ضرور ملاقات ہوتی رہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ابتدا میں بطور تمہید ایک دو وضاحتیں ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ میں ’’صحافت برائے صحافت‘‘ کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی اس معنٰی میں خود کو صحافی سمجھتا ہوں۔ صحافت میرے نزدیک محض ایک ذریعہ ہے لوگوں کے ذہنوں تک رسائی کا، اور اس ذریعے کو صحیح مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہی اس کے ساتھ انصاف کا اصل تقاضہ ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا کہ اسلام، ملت اسلامیہ اور پاکستان کے ساتھ میری کمٹمنٹ دو ٹوک اور بے لچک ہے۔ اور ان تین میں سے کسی ایک حوالہ سے بھی ’’غیر جانبداری‘‘ کا قائل بلکہ متحمل نہیں ہوں۔
دوسری بات یہ کہ میں خود اپنے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ میرا ذوق ’’حذیفی ذوق‘‘ ہے۔ یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معروف صحابی حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کا ذوق، جو رسول اللہؐ کے ’’رازدار‘‘ صحابی کہلواتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہؐ کی زندگی کا ایک راز ایسا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں تھا۔ وہ یہ کہ ایک بار چند منافقین نے نقاب پہن کر نبی اکرمؐ پر قاتلانہ حملہ کیا جو ناکام رہا۔ رسول اللہؐ نے ان منافقین کو پہچان لیا اور ان کے نام اس شرط پر حذیفہ بن الیمانؓ کو بتا دیے کہ یہ راز صرف ان کے سینے میں دفن رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کوئی بھی شخص حضرت حذیفہؓ سے کبھی یہ راز حاصل نہ کر سکا۔
حضرت حذیفہؓ اپنے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ دوسرے صحابہؓ رسول اللہؐ سے خیر کی باتیں پوچھا کرتے تھے مگر میں شر کی باتیں پوچھتا تھا۔ شر کی بات پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرمؐ سے فتنوں اور امت میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہتے تھے، اور فتنوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا ان کا خصوصی شغف بن گیا تھا۔ کم و بیش اسی طرح کا ذوق میرا بھی بن گیا ہے اور شر کے ساتھ اس ’’دوستی‘‘ کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دوست حیران ہو کر مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ اخبار ہم بھی پورے اہتمام سے پڑھتے ہیں لیکن ہمیں کوئی بات محسوس نہیں ہوتی لیکن تم اخبار پر ایک نظر ڈال کر اس میں سے تبصرے کے لیے دو تین خبریں نکال لیتے ہو کہ فلاں ملک نے ہمارے خلاف یہ کر دیا، فلاں لابی نے یہ کر دیا اور فلاں ادارے نے یہ کر دیا۔ میں اسے خدا کی دین اور عطیہ سمجھتے ہوئے اس پر اس ذات اقدس کا بے حد و حساب شکر گزار ہوں۔ اور شکر گزاری کا سب سے بہتر طریقہ یہی سمجھتا ہوں کہ اس ذوق کو خود تک محدود رکھنے کی بجائے اپنے قارئین کو بھی اس میں شریک کروں تاکہ وہ شر سے واقف ہوں، اس کے سرچشموں سے آگاہی حاصل کریں، اور اس کے اہداف کو پہچانیں۔ کیونکہ شر اور اذیت سے بچنے کے لیے سب سے پہلا اور سب سے ضروری مرحلہ یہی ہوتا ہے۔
اس تمہید کے بعد آج کی دنیا میں شر کے سب سے بڑے نمائندہ اور شر کی قوتوں کے سب سے بڑے لیڈر کے نام سے ’’نوائے قلم‘‘ کے سلسلہ کا آغاز کر رہا ہوں، اور میرے اگلے اور پہلے باضابطہ کالم کا عنوان ہوگا ’’امریکی جرائم اور شہر سدوم‘‘۔