ڈیلی ٹیلی گراف اور دیوبندی مکتبِ فکر

   
تاریخ : 
ستمبر ۱۹۹۷ء

برطانیہ کے مذہبی حلقوں میں ان دنوں ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کی ایک رپورٹ کا بہت چرچا ہے جو انگلش کے اس معروف اخبار نے دو ہفتے قبل مذہبی حلقوں کے تجزیے کے حوالے سے شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں خاص طور پر دیوبندی مکتبِ فکر کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے فروغ میں اس جماعت کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ رپورٹ میں طالبان کی تحریک کا بطورِ خاص حوالہ دیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں آباد مسلمانوں کا کم و بیش بیس فیصد حصہ دیوبندیوں پر مشتمل ہے اور یہ مذہبیت اور بنیاد پرستی کو پھیلانے میں سب سے پیش پیش ہیں۔ رپورٹ میں تبلیغی جماعت اور دیوبندی مدارس کا تذکرہ بھی اسی پس منظر میں کیا گیا ہے۔

اصل قصہ یہ ہے کہ افغانستان میں شکست کے بعد سوویت یونین کے بکھر جانے اور کمیونزم کی پسپائی کے نتیجے میں امریکہ واحد سپرپاور کے نعرے کے ساتھ سامنے آیا ہے، مغربی ممالک کم و بیش سب کے سب اس کے ساتھ ہیں، اور کمیونزم کے بعد مغربی قوتوں نے اسلام کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دے کر اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ چنانچہ کمیونزم کے خلاف قائم ہونے والے مغربی ممالک کے فوجی اتحاد ’’نیٹو‘‘ کو باقی رکھنے کا جواز اس کے ایک سابق سیکرٹری جنرل نے یہی پیش کیا ہے کہ ’’ابھی اسلام باقی ہے‘‘۔

عالمِ اسلام کے ساتھ اس محاذ آرائی میں مغرب اپنی ترجیحات واضح کرتا جا رہا ہے۔ پہلے یہ کہا گیا کہ عالمِ اسلام کے مذہبی حلقے، عسکری تحریکات، اور نفاذِ اسلام کی داعی جماعتیں ہماری حریف ہیں۔ پھر یہ تاثر دیا گیا کہ جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش) کے دینی مدارس و مراکز اس بنیاد پرستی کا سرچشمہ ہیں۔ اور اب بات اس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے کہ مغرب کے بقول ’’فساد‘‘ کی اصل جڑ دیوبندی مکتبِ فکر ہے، اور اسلامی تحریکات اور مذہبی جوش و خروش پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے دیوبندیوں سے نمٹنا ہو گا۔ اور ہمارے نزدیک ڈیلی ٹیلی گراف کی مذکورہ رپورٹ اسی مہم کا ایک حصہ ہے۔

راقم الحروف نے ۱۰ اگست ۱۹۹۷ء کو مرکزی جامع مسجد برمنگھم میں عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کی بارہویں سالانہ عالمی ختمِ نبوت کانفرنس سے خطاب کے دوران اس رپورٹ کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے یہ عرض کیا ہے کہ اس رپورٹ کا مطالعہ اسلام اور مغرب کی عالمی کشمکش کے تناظر میں کیا جائے، اور اس کی روشنی میں اپنے اہداف اور ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک یہ رپورٹ دیوبندی جماعت کے لیے ایک تمغہ اور کریڈٹ ہے جو اسلام اور کفر کے معرکے میں دیوبندیوں کے اصل مقام کا تعین کرتی ہے، اور انہیں ان کا یہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے کہ امام ولی اللہ دہلویؒ، امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے نام لیواؤں کی اس جماعت کا اصل ہدف اسلام کا غلبہ و نفاذ اور عالمی استعمار کا مقابلہ ہے۔ اس لیے اس قسم کی رپورٹوں سے مرعوب یا محجوب ہونے کی بجائے حوصلہ اور جرأت کے ساتھ ان کا سامنا کرنا ہو گا اور ہوشمندی اور تدبر کے ساتھ اپنی ترجیحات کا ازسرِنو جائزہ لینا ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter