’’عید‘‘ کا لفظ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے آیا ہے۔ سورۃ المائدہ آیت ۱۱۱ تا ۱۱۵ میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰؑ سے ان کے حواریوں نے تقاضا کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ ہم پر تیار کھانے کا دستر خوان آسمان سے اتار سکتے ہیں؟ حضرت عیسیٰؑ نے ان سے کہا کہ خدا سے ڈرو کیونکہ اس قسم کے تقاضے کرنا مناسب نہیں ہے۔ حواریوں نے کہا کہ اگر ہمارے لیے تیار کھانے کا دستر خوان اتارا گیا تو ہم اس سے کھائیں گے اور اس سے آپ کی صداقت پر ہمارا ایمان بھی مزید پختہ ہو جائے گا۔
اس پر حضرت عیسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ ہم پر آسمان سے تیار کھانے کا دستر خوان اتار دیں جو آپ کی قدرت کی نشانی ہوگی اور ہم اس کے نزول کے دن کو اپنے لیے عید کا دن بنا لیں گے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرتے ہوئے دستر خوان اتارا جس میں عمدہ قسم کے تیار کھانے تھے۔ لیکن ساتھ ہی خبردار کر دیا کہ اس نشانی کو دیکھنے کے بعد بھی تم میں سے جو ناشکری کرے گا میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو جہان میں کسی اور کو نہیں دیا ہوگا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات میں بھی قرآن کریم نے یوم الزینۃ (زینت والا دن) کا تذکرہ کیا ہے۔ سورۃ طہ آیت ۵۹ میں ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰؑ کے معجزات کا مقابلہ کرنے کے لیے جادوگروں کو جمع کرنا چاہا تو اس مقابلہ کے لیے زینت والا دن تجویز کیا گیا جو کہ عید کے طور پر منایا جاتا تھا۔
عید خوشی کے اجتماعی اظہار کا نام ہے جس میں سب لوگ شریک ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی مسرت اسی بات میں ہوتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشی نصیب ہو جائے۔ احادیث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد منقول ہے کہ
’’جس دن ہم سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کا کوئی کام سرزد نہ ہو ہمارے لیے وہ عید کا دن ہے۔‘‘
قرآن کریم میں سورۃ ابراہیمؑ کی آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں ان نعمتوں کو تمہارے لیے بڑھا دوں گا۔ اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ اور جو نعمت خود مانگ کر لی جائے اس کی ناشکری پر خدا کا عذاب تو اور بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مائدہ والے واقعہ میں مشہور مفسر حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے ’’تفسیر مظہری‘‘ میں حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس کا کچھ حصہ نقل کیا جا رہا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کے تقاضے پر جب آسمان سے تیار کھانوں کا دستر خوان اترنا شروع ہوا تو چالیس دن تک یہ معمول رہا کہ صبح چاشت کے وقت دسترخوان اترتا جس میں طرح طرح کے کھانے ہوتے۔ امیر، غریب، چھوٹے، بڑے، مرد، عورتیں سب مل کر تناول کرتے۔ چالیس روز کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ سے وحی کے ذریعے فرمایا کہ آج کے بعد یہ دستر خوان صرف غریب اور نادار لوگوں کے لیے مخصوص ہوگا، جبکہ امیر اور صاحب استطاعت لوگ اس کے قریب نہ جائیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے اس حکم خداوندی کا اعلان کیا تو امیر اور صاحب حیثیت لوگوں کو یہ گراں گزرا اور انہوں نے طرح طرح کی باتیں اور حیلے تراشنا شروع کر دیے جس پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم لوگوں کی فرمائش پر جو نعمت میں اتار رہا ہوں اس کی ناشکری کرنے والوں کو ایسی سزا دوں گا جو اس جہان میں اور کسی کو نہیں دوں گا۔ چنانچہ ان میں سے تین سو تینتیس افراد کو یہ سزا ملی کہ رات کو اپنی بیویوں کے پاس آرام کر رہے تھے کہ ان کی شکلیں خنزیروں کی صورت میں تبدیل ہوگئیں۔ صبح ہوئی تو ان کی شکلیں مسخ ہو چکی تھیں اور وہ خنزیروں کی شکل میں بازاروں میں پھر رہے تھے۔ اس پر پوری قوم میں کہرام مچ گیا اور لوگ حضرت عیسیٰؑ کے گرد جمع ہو کر آہ و بکا کرنے لگے۔ وہ تین سو تینتیس خنزیر بھی حضرت عیسیٰؑ کے گرد چکر لگاتے اور روتے تھے مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اسی روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ ان میں سے کسی کو نام لے کر پکارتے تو وہ سر کے اشارے سے ہاں کرتا مگر گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔ اس حالت میں تین دن رہنے کے بعد وہ سب کے سب موت کا شکار ہوگئے۔
یہ روایت پڑھنے کے بعد میرا ذہن اس طرف گھوم گیا کہ ہم نے بھی تو پاکستان جیسی عظیم نعمت خدا تعالیٰ سے مانگ کر لی تھی۔ اور اس وعدہ کے ساتھ لی تھی کہ یا اللہ! ہم جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو ایک الگ سلطنت عطا فرما دے، ہم اس میں تیرے احکام کی پیروی کا اہتمام کریں گے اور آخری پیغمبرؐ پر تیرے نازل کردہ نظام کی عملداری قائم کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت ہمیں عطا فرمائی مگر نصف صدی میں اس کی جو ناقدری ہم نے کی ہے اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین اور اس کے نظام کو پس پشت ڈال دیا ہے اور ملک کے وسائل میں غریب شہریوں کے لیے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں وہ گنتی کے چند افراد نے سلب کر لیے ہیں۔ عام آدمی زندگی کے بنیادی اور ضروری اسباب کو ترس رہا ہے اور اس کے لیے جسم کے ساتھ روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مگر مراعات یافتہ طبقے اور افراد اربوں، کھربوں روپے کی مالیت کے وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور ملک کی دولت کا بہت بڑا حصہ باہر بھجوا دیا گیا ہے۔
اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غیض و غضب کے اظہار میں کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے؟ یہ درست ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کی ایک دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو پہلی امتوں جیسے عذاب سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ اپنے وعدوں کو بہرحال پورا کرنے والا ہے۔ اس لیے شکلیں بدلنے کے تمام اسباب موجود ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ اس عذاب سے بچا ہوا ہے۔ لیکن عذاب کی دیگر صورتیں بھی تو ہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار اور عذاب الٰہی کی تین عملی صورتیں بیان فرمائی ہیں:
- آپس کے جھگڑے اور لڑائیاں ہوں گی۔
- امت کے شر والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ امت پر مسلط کر دے گا۔
- نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
عذاب الٰہی کی ان صورتوں میں سے کون سی شکل باقی رہ گئی ہے جس کا ہمیں انتظار ہے اور نافرمانی اور سرکشی کی اور کون سی حد ہے جس کی طرف ہم مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ عید خوشی کا دن ہے، مسرت کے اجتماعی اظہار کا نام ہے مگر ہمیں اس مرحلہ پر اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم خوشی کس بات پر منا رہے ہیں؟ اخلاقی اور دینی اقدار کی بربادی پر؟ قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ پر؟ عالمی طاقتوں کی غلامی پر؟ بین الاقوامی اداروں کے ہاتھوں یرغمال بننے پر؟ ملی حمیت و غیرت کی موت پر؟ فرقہ وارانہ قتل و غارت پر؟ اور ہر سمت بے حسی کے راج پر؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے ’’مرگ انبوہ جشنے وارد‘‘ کو عید کا نام دے رکھا ہے۔ اور اجتماعی خودکشی کے لیے نئے کپڑے پہن کر، خوب بن سنور کر اور خود اپنے ہاتھوں میں طرح طرح کے آلات قتل لے کر ہم اپنی زندگی کے آخری رقص میں مصروف ہوگئے ہیں۔
میری گزارش کا مقصد یہ نہیں کہ ہم عید نہ منائیں، عید تو سنت رسولؐ ہے اور ہمارے دینی شعائر میں سے ہے۔ مگر عید مناتے ہوئے ہمیں قرآن کریم کی سورۃ الحدید آیت ۱۶ میں اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو بھی ایک بار پڑھ لینا چاہیے کہ
’’کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے نازل کردہ نظام حق کے لیے نرم ہو جائیں۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی مگر ان کی مدت دراز ہوگئی اور ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔‘‘