اس دفعہ عید الاضحیٰ کے بعد تعطیلات کے تین چار ایام آزاد کشمیر میں سیاکھ اور ڈڈیال کے علاقے میں گزارنے کا ارادہ تھا اس لیے عید کے دوسرے روز سفر کے آغاز کے لیے جہلم میں اپنی چھوٹی ہمشیرہ کے گھر پہنچ چکا تھا۔ لیکن پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی نے موبائل فون پر قابو کرلیا۔ ان کا ارادہ قندھار جانے کا تھا اور چاہتے تھے کہ میں بھی ان کے ساتھ قندھار چلوں۔ مولانا درخواستی اس سے قبل قندھار نہیں گئے تھے اور اپنے ادارہ جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی کی طرف سے کچھ رقم طالبان حکومت کی امداد کے لیے بھی دینا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ اس بہانے قندھار دیکھ لیا جائے اور طالبان حکومت کے ذمہ دار حضرات بالخصوص امیر المومنین ملا محمد عمر سے بھی ملاقات ہو جائے۔ کچھ دوستوں نے تھوڑی بہت رقم مجھے بھی طالبان حکومت تک پہنچانے کے لیے دے رکھی تھی اس لیے ہم دونوں کا پروگرام طے ہوگیا۔
میں ڈڈیال اور سیاکھ کے دوستوں سے فون پر معذرت کر کے گوجرانوالہ واپس آگیا اور جمعہ پڑھا کر دوسرے روز کوئٹہ پہنچ گیا جہاں مولانا فداء الرحمن درخواستی اپنے فرزند مولانا رشید احمد درخواستی کے ہمراہ میرے انتظار میں تھے۔ اتوار کو کوئٹہ میں افغان قونصل خانہ نے ہمیں بطور مہمان وصول کیا اور ہم ظہر کے بعد روانہ ہو کر عشاء تک قندھار پہنچ گئے۔ قندھار کے کور کمانڈر ملا اختر محمد عثمانی ہمارے میزبان تھے، ان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر کے دوران انہوں نے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرسے قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بھی پڑھی ہے۔ ہم تین دن ان کے مہمان خانے میں رہے۔
انہی دنوں قطر اور مصر کے علماء کرام بھی بتوں کو مسمار کرنے کے سوال پر بات چیت کرنے کے لیے قندھار آئے ہوئے تھے اور ان کی آمد کا خاصا چرچا تھا۔ اس سے قبل پاکستان کے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر بھی قندھار جا کر طالبان حکومت کے سربراہ سے بت نہ توڑنے کی سفارش کر چکے تھے جو قبول نہیں ہوئی۔ چنانچہ اس فضا میں جب ہم پہنچے تو ہمارے میزبان نے سوال کیا کہ کیا آپ حضرات بھی بتوں کے بارے میں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ہم بھی اسی سلسلہ میں آئے ہیں لیکن ہماری گزارش ہے کہ یہ کام شروع کر دیا ہے تو اب پیچھے ہٹنا درست نہیں ہے اور اس کام کو جلد از جلد مکمل کر دیں۔ ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ بتوں کو مسمار کرنے کے اس عمل کے شرعاً صحیح اور ضروری ہونے میں تو سرے سے کوئی کلام ہی نہیں ہے لیکن اگر کام شروع کرنے سے قبل ہم سے دریافت کیا جاتا تو ممکن ہے ہم بھی یہ عرض کرتے کہ اس کے مناسب وقت کے لیے زیادہ سے زیادہ اصحاب علم و دانش سے مشورہ کر لیں۔ مگر اب جبکہ اس کار خیر کا آغاز ہو چکا ہے تو ہم اس کو جلد از جلد مکمل کرنے کے حق میں ہیں اور اس میں کسی قسم کی نرمی کو اب درست نہیں سمجھتے۔
امیر المومنین ملا محمد عمر سے ہماری ملاقات منگل کے روز ہوئی۔ ہمارے میزبان ہمیں لے کر ان کی قیام گاہ پر پہنچے تو ان کی رہائش گاہ سے باہر کھلے میدان میں ننگی زمین پر کچھ علماء کرام دائرہ کی شکل میں بیٹھے تھے۔ دور سے دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ شاید گھر کے اندر باری باری حضرات کو ملاقات کے لیے بلایا جا رہا ہے اور یہ حضرات اپنی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ لیکن جب قریب ہوئے تو دیکھا کہ ملا محمد عمر بھی انہی لوگوں کے ساتھ خالی زمین پر آلتی مالتی مارے بیٹھے ہیں اور ان سے گفتگو کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں پہلے بھی دیکھ رکھا تھا اس لیے پہچان لیا لیکن مجھے مولانا درخواستی کو یہ بتانا پڑا کہ یہ صاحب جنہوں نے درمیان سے اٹھ کر ہمارے ساتھ معانقہ کیا ہے یہی طالبان حکومت کے سربراہ امیر المومنین ملا محمد عمر ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر وہ حدیث یاد آگئی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان بے تکلفی کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور بسا اوقات باہر سے آنے والے کو بیٹھنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہ دیکھ کر یہ پوچھنا پڑتا تھا کہ تم میں محمدؐ کون ہیں؟ آج اسی سنت کو اپنی آنکھوں کے سامنے زندہ ہوتے دیکھ کر جو خوشی ہوئی اسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
اس وقت افغانستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مولوی نور محمد ثاقب امیر المومنین کو عرب علماء کے وفد کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے آگاہ کر رہے تھے۔ یہ گفتگو پشتو میں ہو رہی تھی جس کا بیشتر حصہ ہماری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن بعد میں ہمیں اس کا جو خلاصہ بتایا گیا اس کے مطابق ملا محمد عمر نے یہ کہا تھا کہ ان بتوں کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ ان کی عبادت نہیں ہوتی تھی اور یہ صرف نمائش اور یادگار کے طور پر تھے۔ اس لیے کہ عبادت صرف سامنے کھڑے ہو کر سر جھکانے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور ہستی یا چیز کے بارے میں دل میں تعظیم اور محبت کے وہ جذبات رکھنا بھی عبادت کے زمرے میں شامل ہے جو جذبات صرف خالق و مالک حقیقی کے ساتھ مخصوص ہو جاتے ہیں، خواہ یہ تعظیمی جذبات رکھنے والا ہزاروں میل دور کیوں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اختیار حاصل ہونے کے بعد ہم نے ان بتوں کو توڑنے میں اب تک جو تاخیر کی ہے وہ ہماری کوتاہی ہے اور شاید اسی وجہ سے ہم بارش سے بھی مسلسل محروم چلے آرہے ہیں اور پورے افغانستان میں طویل عرصہ کے بعد بارش کا نزول ہوا ہے۔
امیر المومنین کے ساتھ اس مختصر ملاقات کے علاوہ طالبان حکومت کے دیگر ذمہ دار حضرات سے بھی ہماری گفتگو ہوئی۔ ہم بازار گئے، مختلف دکانوں میں گھومے، بہت سے لوگوں سے باتیں کیں، افغان وزارت خارجہ کے دفتر میں گئے، مختلف اہل کاروں سے افغانستان کی موجودہ صورت حال بالخصوص اقوام متحدہ کی پابندیوں کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں اور افغان معاشرہ پر ان پابندیوں کے اثرات کا جائزہ لیا۔ ان کی تفصیلات آئندہ چند کالموں میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔