ٹیکساس (امریکہ) سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نے ۶ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی ہے کہ جمہوریہ ترکی کے نومنتخب صدر عبد اللہ گل نے ۵۵۰ رکنی ترک پارلیمنٹ میں ۳۳۹ ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد اپنے اسلامی ایجنڈے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ:
’’ان کا کوئی اسلامی ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ کمال اتاترک کی تعلیمات کے مطابق سیکولر روایات سے مخلص رہیں گے۔ بی بی سی کے مطابق عبد اللہ گل نے کہا کہ انہوں نے سیاسی اسلام سے اپنے تمام رشتے توڑ لیے ہیں۔‘‘
’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے اسی شمارے میں شائع ہونے والی ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود:
’’ترکی کے نومنتخب صدر عبد اللہ گل کو فوج کی طرف سے سردمہری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز جب فوج کی گریجویشن کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے عبد اللہ گل گئے تو فوج کے چیف آف اسٹاف اور دیگر اعلیٰ جرنیلوں نے انہیں سلیوٹ نہیں کیا حالانکہ وہ صدر ہونے کے ناطے سے ترک افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔‘‘
ترکی کے موجودہ صدر عبد اللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردگان کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ترکی کی قومی سیاست میں اسلامی رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں اور عام انتخابات میں سیکولر عناصر کے ساتھ شدید معرکہ آرائی کے بعد ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں فیصلہ کن حیثیت حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں طیب اردگان کو وزیر اعظم اور عبد اللہ گل کو صدارت کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا ہے لیکن انتخابات میں ترک عوام کی زبردست حمایت اور اکثریتی ووٹ حاصل ہونے کے باوجود وہ ترکی کے سیکولر دستور اور روایات کے سامنے اس قدر بے بس نظر آتے ہیں کہ انہیں اپنے اقتدار کو تسلیم کرانے کے لیے اسلامی ایجنڈے سے دستبرداری اور سیاسی اسلام سے اپنے تمام رشتے توڑ لینے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ سیاسی اسلام سے ظاہر ہے کہ ان کی مراد یہی ہو سکتی ہے کہ اسلام کے جن احکام کا ریاست اور حکومت کے ساتھ تعلق ہے، وہ ان کے عملی پروگرام کا حصہ نہیں ہوں گے اور وہ ملک میں ان کی عملداری کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔
یہ سیاسی اسلام کی اصطلاح بھی عجیب ہے اور اس اصطلاح کے پردے میں جس طرح اسلام کے معاشرتی، قانونی، حکومتی اور ریاستی احکام کی نفی کی جا رہی ہے، وہ بھی حالات کے جبر کی پیدا کردہ ایک افسوسناک ستم ظریفی ہے کیونکہ یہ بات درست ہے کہ اسلام محض سیاست نہیں ہے مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سیاست اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے جس کو اسلام سے الگ کر دیا جائے تو بقول اقبالؒ ؎
مگر آج کا عالمی نظام اس بات پر بضد ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اسلام کے سیاسی اور ریاستی احکام سے دستبردار ہو کر مغرب کی مسیحیت کی طرح صرف عقیدہ و عبادت اور شخصی اخلاقیات تک اپنے اسلام کو محدود رکھیں، حتیٰ کہ اگر کسی مسلمان ملک کے عوام جمہوری ذریعہ سے اکثریتی فیصلہ کے ساتھ اسلام کے اجتماعی، عدالتی اور ریاستی احکام کو اپنے ہی ملک میں نافذ کرنا چاہیں تو انہیں اس کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس سے قبل الجزائر میں بھی ایسا ہو چکا ہے کہ اسلام کے ریاستی کردار کے داعی سیاسی حلقوں نے جمہوری عمل کے ذریعے اکثریتی ووٹ حاصل کر لیے اور ان کے برسر اقتدار آنے کا امکان پیدا ہو گیا تو نہ صرف یہ کہ فوجی جبر کے ذریعے ان کے تمام راستے مسدود کر دیے گئے بلکہ شب و روز جمہوریت، آزادئ رائے اور انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے عالمی نظام کے سائے تلے الجزائر کو خوفناک خانہ جنگی سے دوچار کر دیا گیا۔
ہمارے خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی یہی تجربہ دہرایا جانے والا ہے اور اس کے لیے تمام ابتدائی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، یہ فرق ملحوظ رکھے بغیر کہ ترکی اور الجزائر کے دستور سیکولر ہیں جن کو بہانہ بنا کر اسلامی قوتوں کا زبردستی راستہ روکا گیا ہے جبکہ پاکستان کا دستور اسلام کو اپنی بنیاد تسلیم کرتا ہے اور فوج سمیت تمام اداروں نے پاکستان میں اس کی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ مگر اس کے باوجود عالمی نظام کے بزرجمہروں نے پاکستان کی قومی سیاست میں دینی عناصر کو کارنر کرنے اور پاکستان کو زبردستی سیکولر ملک بنانے کے لیے جو منصوبہ بندی کی ہے، ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرنے کی جو سازش کی جا رہی ہے، اور دینی سیاست کے نمائندوں کی جس بے دردی کے ساتھ کردارکشی کی جا رہی ہے، وہ عالمی نظام کی منافقت اور دوغلے پن کی بدترین مثال ہے۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ مغرب کو نہ تو کسی ملک کے دستور سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی اسے کسی ملک کے عوام کے ووٹوں اور اکثریتی رائے سے کوئی دلچسپی ہے۔ اس کا ایجنڈا صرف اور صرف یہ ہے کہ جس طرح مغرب اپنے مذہب کے ریاستی، عدالتی اور حکومتی کردار سے دستبردار ہو گیا ہے، اسی طرح عالم اسلام کو بھی قرآن و سنت کے ان احکام سے زبردستی دستبردار کرا دیا جائے جن کا تعلق سیاست، حکومت، ریاست، قانون اور معیشت سے ہے تاکہ کوئی مسلم ملک اسلامی بنیادوں پر اپنا نظام تشکیل نہ دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ ترک حکومت کی آخر کیا مجبوری ہے کہ صدر اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے حضرات کو عوامی مینڈیٹ اور توقعات سے ہٹ کر اور اپنی سابقہ روایات سے دستبردار ہو کر ’’سیاسی اسلام‘‘ سے رشتے توڑنا پڑے ہیں؟ وہ مجبوری یورپی یونین اور یورپی برادری میں شامل ہونے کی خواہش ہے جس کے لیے ترک حکمرانوں کو گزشتہ پون صدی سے طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں، لیکن یورپی یونین کی قیادت کی ہر شرط اور خواہش کی نت نئی چوٹی عبور کرنے کے بعد ترک حکمرانوں کے سامنے اس سے بھی بلند چوٹی ان کے صبر و حوصلہ کو آزمانے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ اس کھیل کو شروع ہوئے آٹھ عشرے گزرنے کو ہیں مگر ’’ہنوز دلّی دور است‘‘ والا معاملہ ہے اور یورپی یونین میں ترکی کو شامل کیے جانے کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
یہ صورتحال ہمارے ان حکمران طبقوں اور دانشوروں کے لیے یقیناً لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے جو ہر حال میں مغرب کے ساتھ دوستی اور عالمی برادری کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کو ہی پاکستان اور مسلمانوں کے بہتر مستقبل کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں اور اس کے لیے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ مغرب کے ساتھ ہر معاملے میں محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا جائے اور بہرصورت تصادم ہی کا بگل بجا دیا جائے، لیکن خودسپردگی کی یہ کیفیت بھی عقل و دانش اور حمیت و غیرت سے مطابقت نہیں رکھتی کہ اپنے نظریاتی تشخص، تہذیبی امتیاز اور دینی پہچان سے دستبرداری تک سے گریز نہ کیا جائے۔
ہمیں طیب اردگان اور عبد اللہ گل کی قیادت میں سامنے آنے والی نئی عوامی ترک قیادت سے ہمدردی ہے۔ ہم ان کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں اور ہمیں اس دلدل کی گہرائی کا پوری طرح اندازہ ہے جس میں وہ بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے ہم ان کو کوئی الزام دینے کی بجائے ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ترک قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے ہمت و حوصلہ اور جرأت و تدبر عطا فرمائے۔ البتہ اس ساری صورتحال کو کھلی آنکھوں دیکھتے ہوئے اسی دلدل کی طرف بگٹٹ دوڑے چلے جانے والے پاکستان کے حکمران طبقات اور ارباب دانش سے ہم یہ ضرور گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ ایک بار پھر حالات کا ازسرنو جائزہ لے لیں اور مغرب کے ہر مطالبہ اور خواہش کے سامنے خاموشی کے ساتھ سر جھکا دینے کی بجائے اعتدال اور توازن کا باوقار راستہ اختیار کریں، ورنہ دینی حلقے تو جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار اور وسطی ایشیا میں روسی استعمار کے ہاتھوں جبر و استبداد کے سخت سے سخت وار سہہ کر بھی زندہ و موجود ہیں، وہ موجودہ عالمی استعمار کے جبر کا بھی ان شاء اللہ تعالیٰ صبر و حوصلہ اور توفیق خداوندی کے ساتھ سامنا کر لیں گے، مگر قوم کو اس طرح لے جانے والے مقتدر طبقات اور دانشور اپنا مستقبل سوچ لیں کہ تاریخ ان کے نام کون سے خانے میں محفوظ کرے گی اور آنے والی نسلیں انہیں کس عنوان سے یاد کریں گی۔