حضرت مولانا شاہ احمدؒ نورانی

   
۱۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

مولانا شاہ احمد نورانی بھی ہم سے رخصت ہو گئے، انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ نوابزادہ نصر اﷲ خان مرحوم کی وفات کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ ہے جو سال رواں کی آخری سہ ماہی میں قومی سیاست کو برداشت کرنا پڑا۔ وہ دینی جماعتوں کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے صدر اور جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ تھے۔ ایک سینئر پالیمنٹیرین، بزرگ عالم دین، تجربہ کار سیاستدان اور با اصول رہنما کے طور پر ان کا احترام تمام دینی و سیاسی حلقوں میں یکساں طور پر پایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے تمام طبقات اور سیاسی و دینی حلقوں میں ان کی اچانک وفات کا غم شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں جدا ہوئے ہیں جب ان کی قیادت میں دینی جماعتوں کا اتحاد اپنے سیاسی کردار کے حوالے سے ایک انتہائی حساس اور نازک موڑ کی طرف بڑھ رہا تھا اور ان کی مدبرانہ قیادت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی تھی، مگر تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ وہ متحدہ مجلس عمل اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھے کہ بلاوا آگیا۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے آخرت کے طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔

مولانا نورانی کا تعلق میرٹھ کے ایک دینی گھرانے سے تھا، ان کے والد محترم مولانا عبد العلیم صدیقی کا شمار بریلوی مکتب فکر کے بڑے علماء اور مشائخ میں ہوتا تھا، ان کی پیری مریدی کا سلسلہ کئی ملکوں بلکہ بر اعظموں تک وسیع ہے اور عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ والد محترم کے بعد یہ وسیع حلقۂ ارادت مولانا نورانی کو ورثے میں ملا اور انہوں نے نہ صرف اسے برقرار رکھا بلکہ اپنی محنت اور سعیٔ پیہم کے ساتھ اس میں مسلسل اضافہ کرتے چلے گئے۔ مولانا مرحوم قیام پاکستان کے بعد میرٹھ سے پاکستان آگئے اور کراچی صدر کی کچھی میمن مسجد ان کا مرکز بنی۔ مسجد کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں ان کی رہائش تھی۔ مسجد میں وہ رمضان المبارک کے دوران تراویح اور نوافل میں قرآن کریم سنایا کرتے تھے۔ سال کا بیشتر حصہ مختلف ملکوں میں اپنے ارادت مندوں کے درمیان گزارنے کا معمول تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں جمعیۃ علماء پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر اپنی ذہانت، شرافت اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے ہی بڑھتے گئے۔ جمعیۃ علماء پاکستان کی صدارت سنبھالی، پاکستان قومی اتحاد کی قیادت میں صف اول میں جگہ پائی، قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، ملی یک جہتی کونسل کی سربراہی کے منصب پر فائز ہوئے اور بالآخر تمام دینی مکاتب فکر کے مشترکہ محاذ ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے قائد کی حیثیت سے قومی خود مختاری، جمہوری اقدار اور دستور کی بالادستی کی جدوجہد کرتے ہوئے دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف سدھار گئے۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں سات نشستیں حاصل کیں، وہ اس کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر بنے اور دستور ساز اسمبلی میں دستور کی تیاری میں سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ اپوزیشن کا متحرک حصہ تھے، مولانا مفتی محمودؒ، خان عبد الولی خان، پروفیسر غفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری اور چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کی رفاقت میں انہوں نے قوم کو متفقہ دستور دینے اور دستور میں بنیادی اسلامی دفعات کی شمولیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے دستوری تحفظ میں اہم رول ادا کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے عظیم سانحہ کے بعد بچے کھچے پاکستان کی قومی اسمبلی میں خان عبد الولی خان اور پھر مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں بننے والی اپوزیشن اگرچہ تعداد کے لحاظ سے مختصر تھی لیکن جن بھاری بھر کم شخصیات نے اس اپوزیشن کو اس قدر مضبوط بنا دیا تھا کہ ان کے بغیر دستور کو منظور کرانا حکومت کے بس میں نہ رہا، ان میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ بھی ایک قدآور شخصیت کے طور پر شامل تھے۔ وہ قومی اسمبلی اور پھر سینٹ کے متحرک ممبر رہے ہیں جو نہ صرف یہ کہ حق کی آواز اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے بلکہ قانون کی ترتیب اور تدوین میں ان کا کردار عملی اور موثر ہوتا تھا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کی جدوجہد میں ان کا کردار انتہائی نمایاں تھا۔ نہ صرف قومی اسمبلی میں بلکہ ملک کے عوامی، سیاسی محاذ اور عالمی فورم پر بھی انہوں نے مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوتؐ کی وضاحت اور قادیانیوں کے مکر و فریب کو بے نقاب کرنے میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔

مولانا نورانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ء میں قومی سیاست کے فورم پر آنے کے بعد سے اپنی وفات تک وہ اپوزیشن ہی کے کردار پر قائم رہے، کسی حکومت کا حصہ بننا ان کے مزاج کو موافق نہ آیا، حتٰی کہ اس مسئلے میں اپنی جماعت میں تفریق اور مولانا عبد الستار نیازی جیسے مضبوط رفیق کی جدائی کو بھی برداشت کر لیا، اس معاملے میں انہیں نواب زادہ نصر اﷲ مرحوم کا ہم ذوق کہا جا سکتا ہے ۔

مولانا نورانی ذاتی طور پر ہیروں کے بیوپاری تھے، ایک بار میں نے خود ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں ہیرا شناس ہوں اور اس کا کاروبار کرتا ہوں جس سے میرے اخراجات چلتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اس میں آپ کا کوئی شاگرد بھی بن سکتا ہے تو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ وہ بہت بڑے پیر تھے، قومی اسمبلی اور سینٹ کے رکن کی حیثیت سے بہت سی مراعات حاصل کر سکتے تھے اور ہیروں کے بیوپاری بھی تھے لیکن ان تمام مواقع کے باوجود انہوں نے سادہ زندگی بسر کی اور کرائے کے فلیٹ میں مقیم رہے۔ میں نے متعدد بار اس فلیٹ میں ان سے ملاقات کی۔ یہ ایک سادہ سی رہائش گاہ تھی اور پرانی، وضع دار اور باوقار علماء کی طرز زندگی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ مجھے پاکستان قومی اتحاد میں ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اس دوران عمومی اور خصوصی بیسیوں محافل میں ان کے ساتھ شرکت ہوئی، اپنے مسلک کے حوالے سے وہ بہت مضبوط اور متصلب تھے اور کبھی اس معاملے میں لچک نہیں دکھاتے تھے لیکن مشترکہ دینی اور سیاسی معاملات میں انہوں نے کبھی اس کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ تحریک نظام مصطفیؐ اور تحریک ختم نبوتؐ میں وہ قیادت کی صف میں ایک نمایاں شخصیت تھے، انہوں نے باہمی اشتراک و تعاون کے تقاضوں کی ہر جگہ پاسداری کی اور اپنی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو اس کے لیے ہمیشہ تیار کرتے رہے۔

بذلہ سنجی اور خوش کلامی ان کا طرہ امتیاز تھی، ہلکے پھلکے جملوں کے ساتھ محفل کا رنگ بدل دینے کا فن انہیں خوب آتا تھا۔ شرافت اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے خوبصورت چوٹ کرتے تھے اور جس پر فقرہ کستے تھے وہ بھی اگر باذوق ہوتا تو چیں بجیں ہونے کی بجائے حظ اٹھاتا تھا۔ ایک دور میں ان کا زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزرنے لگا حتیٰ کہ ان کے بارے میں یہ لطیفہ عام ہوگیا کہ جب وہ پاکستان کے کسی حصے میں ہوتے تو یہ کہا جاتا کہ مولانا نورانی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میری بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہو گئی تھی کہ سال کے کئی مہینے ملک سے باہر گزرنے لگے۔ اس پس منظر میں کافی مدت کے بعد میری ان سے ملاقات اس موقع پر ہوئی جب وہ مولانا سمیع الحق کی دعوت پر ’’دفاع افغانستان و پاکستان کونسل‘‘ کی تشکیل کے سلسلے میں اکوڑہ خٹک تشریف لے گئے تھے۔ میں وہاں پہنچا تو وہ مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ میں علماء کے جھرمٹ میں بیٹھے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو اٹھ کھڑے ہوئے، بڑے تپاک سے معانقہ کیا اور میرے کان کے قریب منہ کر کے پوچھنے لگے ’’مولانا آپ پاکستان کے دورے پر کب آئے ہیں؟‘‘ میں نے جواب میں کہا کہ یہی بات میں آپ سے پوچھنے والا تھا اس پر ایک ہلکا سے قہقہہ لگایا اور حال احوال پوچھنے لگے۔

میں نے ان کو پاکستان کی محافل میں بھی دیکھا اور لندن کی محافل میں بھی ان کے ساتھ شرکت کی اور ہر جگہ ان کی بذلہ سنجی اور خوش طبعی کا لطف اٹھایا ہے۔ وہ گفتگو اور ملاقات میں جس قدر نرم خو تھے، اپنے اصولوں کے معاملے میں اسی طرح بے لچک اور سخت تھے۔ ایک دور میں کراچی اور حیدرآباد کی سیاست میں ان کی جمعیۃ علماء پاکستان اور جماعت اسلامی پاکستان کا غلبہ تھا اور جے یو پی ان دو شہروں سے اچھی خاصی پارلیمانی نشستیں حاصل کیا کرتی تھی۔ پھر ارباب حل و عقد نے ان جماعتوں کا زور توڑنے کے لیے کراچی کو لسانی تفریق کی نذر کر دیا اور مہاجر غیر مہاجر کے نام سے وہ اودھم مچا کہ کراچی کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا۔ مولانا نورانی مہاجر تھے، اگر وہ اس تقسیم کے لیے تھوڑی سی ذہنی لچک دکھا دیتے تو بہت کچھ بچا سکتے تھے بلکہ بہت کچھ حاصل بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر اپنی جماعت کی پارلیمانی قوت قربان کر دی اور مہاجر غیر مہاجر کی تفریق کے خلاف مسلسل کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔

انہوں نے جس بلند آہنگی کے ساتھ عالم اسلام کے بارے میں امریکی عزائم اور جارحیت کے خلاف کلمۂ حق بلند کیا، طالبان کی اسلامی حکومت کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان اور عراق میں امریکہ کی مسلح مداخلت اور قبضے کے خلاف رائے عامہ کی رہنمائی کی، اور بڑھاپے اور علالت کے باوجود مسلسل اور متحرک کردار ادا کیا، وہ علماء کی نئی نسل کے لیے مشعل راہ اور دینی و سیاسی رہنماؤں کے لیے لائق رشک اور قابل تقلید ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، حسنات کو قبولیت سے نوازیں، سیئات سے درگزر کریں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور جملہ پسماندگان اور متوسلین کو صبر و حوصلہ کے ساتھ یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین!

   
2016ء سے
Flag Counter