یورپی یونین سے نکل جانے کے بارے میں برطانوی عوام کے فیصلے نے عالمی سیاست اور معیشت میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے جو اس فیصلے پر عملدرآمد تک کسی نہ کسی سطح پر جاری رہے گی۔ ۲۳ جون کو ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے والے ۷۲ فیصد برطانوی شہریوں کی ۵۲ فیصد اکثریت نے برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کے دائرہ سے برطانیہ کو نکالنے کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنی رائے کے خلاف فیصلہ آنے پر وزارت عظمیٰ چھوڑ دینے کا اعلان کیا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم میں کم و بیش ۷۲ فیصد شہریوں کا ووٹ ڈالنا بھی اس سلسلہ میں برطانوی عوام کے جوش و خروش کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے تناسب سے زیادہ بتایا جاتا ہے۔
اس فیصلے پر عملدرآمد میں کم و بیش دو سال لگ سکتے ہیں۔ اس دوران اتار چڑھاؤ کے مختلف مراحل ہوں گے، اس کے سیاسی و معاشی نتائج کے متعدد نئے پہلو سامنے آئیں گے اور عالمی سیاست و معیشت بالخصوص اس کا یورپی دائرہ متنوع تبدیلیوں کا سامنا کرے گا۔ اس لیے برطانوی عوام کے اس تاریخی فیصلہ کے حتمی نتائج و ثمرات کے بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ اس کے اسباب و عوامل میں جن باتوں کا بطور خاص ذکر کیا جا رہا ہے وہ بہرحال قابل توجہ ہیں اور انہی میں سے ایک پہلو پر ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یورپین یونین سے علیحدگی کو برطانوی عوام برطانیہ کی خودمختاری اور آزادی کی بحالی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے خیال میں یورپی یونین کے قوانین اور معاہدات کی وجہ سے برطانیہ کی اپنی خودمختاری محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اس کے لیے اپنے بہت سے قوانین پر چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ چنانچہ برطانوی عوام اپنے ملکی قوانین و نظام پر ایسے بین الاقوامی معاہدات کی بالادستی کو پسند نہیں کرتے اور آزادی و خودمختاری کا ماحول بحال کرنے کے لیے اس کے دائرے سے باہر نکل جانا چاہتے ہیں۔
ہم ایک عرصہ سے یہ عرض کرتے آرہے ہیں کہ اس وقت دنیا کے اڑھائی سو سے زائد ممالک میں عملی حکومت وہاں کی حکومتوں کی بجائے ان بین الاقوامی معاہدات کی ہے جو موجودہ دور میں ’’سکہ رائج الوقت‘‘ کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور جو دنیا بھر کی حکومتوں کو نہ صرف ان بین الاقوامی معاہدات سے ہٹ کر اپنے ملک کے لیے کوئی قانون بنانے اور کسی معاملہ میں پالیسی طے کرنے سے روکتے ہیں بلکہ پہلے سے موجود قوانین اور پالیسیوں کو بھی ان معاہدات کے مطابق تبدیل کر دینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس سے عملاً یہ صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ کسی بھی ملک کی جائز اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت اپنے ہی ملک میں اپنے ووٹروں کی خواہشات کو پورا کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ وہ نمائندگی تو اپنے عوام کی کرتی ہے لیکن اسے قانون سازی اور پالیسی سازی میں بین الاقوامی معاہدات کا پابند رہنا پڑتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ کرے تو اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے صادر کی جانے والی سزا بھگتنا پڑ جاتی ہے جہاں بڑی طاقتیں کہلانے والے پانچ ممالک ویٹو پاور کا آہنی ڈنڈا ہاتھ میں لیے ایسے ممالک کی سرکوبی کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں۔
بین الاقوامی معاہدات کا ایک دائرہ اقوام متحدہ کا ہے جبکہ یورپی یونین کا ایک اپنا دائرہ بھی ہے جس کی پابندی کے لیے یورپی یونین مسلسل سرگرم رہتی ہے۔ اس سلسلہ میں یورپی یونین کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دنیا کے دوسرے خطوں کے ممالک بھی اس کی پالیسیوں کی بالادستی قبول کریں جس کا سامنا ہمیں پاکستان میں بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال نومبر کے دوران اسلام آباد کے ایک سیمینار میں یورپی یونین کے سفیر فرانکوئس کاٹین نے کہا تھا کہ یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدہ ’’جی ایس پی پلس‘‘ میں شامل ہو کر تجارتی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو تمام ۲۷ عالمی انسانی حقوق کنونشنز کو اپنے ملک میں عملاً لاگو کرنا ہوگا، اس کے بغیر وہ یورپ میں مطلوبہ تجارتی سہولتیں حاصل نہیں کر سکے گا۔ اور یہ بات بھی قارئین سے مخفی نہیں ہوگی کہ ان بین الاقوامی معاہدات کے حوالہ سے یورپی یونین ہم سے سزائے موت کے مکمل خاتمہ، توہین رسالتؐ پر سزا کے قانون میں تبدیلی، اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے کی واپسی کا بھی مسلسل تقاضہ کرتی آرہی ہے۔
بین الاقوامی معاہدات کی پابندی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن انہیں یہ درجہ دے دینا کہ تمام اقوام و ممالک اس کے لیے اپنے عوام کی رائے، منتخب اسمبلیوں کے فیصلوں، اور قومی و ریاستی تشخص حتیٰ کہ اپنے مذہبی عقائد و احکام اور تہذیبی اقدار و روایات سے بھی دستبردار ہو جائیں، بلاشبہ ایک ایسے عالمی جبر کے مترادف ہے جس کے سامنے اقوام و ممالک کی خودمختاری اور آزادی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، نیویارک کی ایک محفل میں انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالہ سے مغربی ممالک کی پالیسیوں اور طرز عمل پر بحث ہو رہی تھی۔ میں بھی بحث میں شریک تھا، مجھ سے سوال کیا گیا کہ انسانی حقوق کے بارے میں مغربی حکومتوں کے طرز عمل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ افراد کے حقوق کی پاسداری تو مغربی ممالک میں بخوبی ہو رہی ہے اور مغربی حکومتوں کا رویہ مجموعی طور پر لائق تحسین ہے لیکن اقوام و ممالک کی خودمختاری، آزادی اور ان کے حقوق آج کے دور میں جس بری طرح پامال ہو رہے ہیں اس کی ذمہ دار بھی مغربی حکومتیں ہی ہیں۔
چنانچہ ’’بین الاقوامی معاہدات کا جبر‘‘ جس طرح اقوام و ممالک کی داخلی خودمختاری کو محدود کرتا جا رہا ہے، ہمارے خیال میں برطانوی عوام کا یہ فیصلہ اس کے خلاف صدائے احتجاج کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اس پہلو سے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ یورپی یونین سے تعلق کے بارے میں برطانوی عوام کے حالیہ فیصلے پر یہ ہمارا پہلا تاثر ہے، جوں جوں معاملات آگے بڑھیں گے، ان شاء اللہ ہم بھی اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ معروضات پیش کرتے رہیں گے۔