حالیہ اسفار کے دوران مختلف مجالس میں کرونا وائرس اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالہ سے گفتگو کا موقع ملا، اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
کرونا فلو طرز کی ایک وبائی بیماری کو کہا جاتا ہے جس کے وائرس کچھ دنوں قبل چائنہ میں پھیلنا شروع ہوئے اور ان کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک مہلک بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وبائی بیماریاں دنیا میں مختلف مواقع پر رونما ہوتی آئی ہیں جن کا دائرہ اس سے قبل عام طور پر علاقائی ہوتا تھا، لیکن جوں جوں انسانی سوسائٹی گلوبل ہوتی جا رہی ہے یہ وبائیں بھی گلوبل رخ اختیار کرنے لگی ہیں۔ چنانچہ چائنہ سے شروع ہونے والے کرونا وائرس نے امریکہ، یورپ، مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور پاکستان میں بھی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اس کے کیسز میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
جہاں تک اس کے اسباب کا تعلق ہے مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں۔ مثلاً یہ امکان بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ جراثیمی جنگ (وائرس وار) کی صورت بھی ہو سکتی ہے اور اب تک ہونے والی جنگوں کے پس منظر میں اس امکان کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ کے کیمیاوی ہتھیاروں کے بعض جنگوں میں استعمال اور بین الاقوامی سطح پر ان ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی کے بعد دفاعی سائنس کے ماحول میں جراثیم کے ذریعے حیاتیاتی جنگ اور وائرس وار کے امکانات کا ذکر سننے میں آرہا ہے اور اس کی تیاری کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔ اس لیے کوئی بعید بات نہیں ہے کہ کرونا وائرس بھی اسی کے تجربہ کی کوئی صورت ہو، مگر یہ صرف امکان کے درجہ کی بات ہے جس کی نہ تو تصدیق کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔
اسباب میں ایک بات موسمیاتی تبدیلی بھی ذکر کی جاتی ہے کہ موسموں کا دائرہ اور دورانیہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، اس کی وجہ کچھ بھی ہو مگر یہ ایک معروضی حقیقت ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں آگے بڑھ رہی ہیں اور ان کے مختلف النوع اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح خوراک میں بے احتیاطی کو بھی ایک سبب بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے جانور اور چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب انسان کے کھانے کی نہیں ہیں، اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں حلال و حرام اور طیب و خبیث کا فرق واضح کیا ہے۔ مگر جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا ہے وہاں حلال و حرام اور طیب و خبیث کا کوئی فرق موجود نہیں ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ خوراک میں بے احتیاطی اور بے پروائی بھی کرونا وائرس کا سبب ہو سکتی ہے۔
بہرحال اسباب کچھ بھی ہوں کرونا وائرس ایک زندہ حقیقت کے طور پر انسانی معاشرہ میں اپنا وجود اور اثرات منوا رہا ہے اور کرہ ارضی کے ہر خطہ کے لوگ اس سے احتیاط کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ ایک محفل میں موسمیاتی تبدیلیوں اور کرونا وائرس کے بارے میں مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے ازراہ تفنن عرض کیا کہ اللہ تعالٰی فرما رہے ہیں کہ ’’میری زمین میری مرضی‘‘ جس سے دوست بہت محظوظ ہوئے۔ مگر سنجیدگی کے ماحول میں قرآن و سنت کی روشنی میں دو تین باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
- ایک یہ کہ اللہ تعالٰی وقتاً فوقتاً اس قسم کی صورتحال پیدا کر کے انسانوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ بے شک آپ لوگ اسباب کی دنیا میں رہتے ہیں اور ان اسباب کو اختیار بھی کرتے ہیں مگر اصل قوت یہ اسباب نہیں ہیں، ان کے پیچھے ’’مسبب الاسباب‘‘ اصل قوت ہے جو اسباب کو غیر موثر بھی کر سکتا ہے اور ان کے اثرات کو غیر محدود بھی کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس قسم کی صورتحال کو تنبیہ کے انداز میں بیان کیا گیا ہے مثلاً ایک مقام پر بنی اسرائیل کے حوالہ سے ذکر کیا کہ ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون کو عذاب کے طور پر مسلط کر دیا جس پر وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی خدمت میں آ کر درخواست گزار ہوئے کہ دعا کریں اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ قرآن کریم میں ہے کہ حضرت موسٰیؑ کی دعا سے عذاب کی کیفیت تو ختم ہو گئی مگر وہ لوگ ایمان لانے کے وعدہ سے منحرف ہو گئے۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی قدرت اور طاقت پر اپنے ایمان کو پختہ کریں اور اس کی طرف رجوع اور توبہ کریں۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں وبائی صورتحال تھی حتٰی کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ بھی بیمار پڑ گئے اور بے چینی میں وطن کو یاد کرنے لگے۔ اس پر آنحضرتؐ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! مدینہ منورہ سے وبا کی کیفیت کو ختم فرما دے جس پر مدینہ منورہ اس وبائی صورتحال سے محفوظ ہوگیا۔ اس لیے دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ دعاؤں کا اہتمام کریں اور انفرادی و اجتماعی سطح پر دعا، استغفار اور توبہ کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں۔
- جبکہ تیسری گزارش یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس کی فتح کے موقع پر فلسطین تشریف لے گئے تو سرحد پر انہیں بتایا گیا کہ آگے علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے، آپ بہت سی اہم شخصیات کے ہمراہ وہاں جا رہے ہیں جو خطرہ اور رسک کی بات ہے۔ حضرت عمرؓ نے صحابہ کرامؓ کے مختلف طبقات کے ساتھ مشورہ کے بعد وہاں نہ جانے اور واپسی کا فیصلہ کر لیا جسے سن کر حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے فرمایا کہ میں نے جناب نبی اکرمؐ سے سنا ہے کہ جس علاقے میں کوئی وبائی مرض پھیلا ہوا ہو، باہر سے اس علاقہ میں نہ جائیں، اور نہ ہی وہاں سے باہر آئیں، اس لیے حضرت عمرؓ کا وبائی علاقہ میں نہ جانے کا فیصلہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وبائی امراض سے خود بچنے اور لوگوں کو بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ اور سنت نبویؐ ہے جسے پوری طرح اختیار کرنا چاہیے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں حکومت پاکستان اور دینی مدارس کے وفاقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعلانات ہماری قومی ضرورت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات کا بھی تقاضہ ہے اور ہم سب کو اس میں تعاون کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر میں نے مختلف شہروں میں رمضان المبارک تک حاضری کے لیے کیے گئے وعدوں کی تکمیل سے معذرت کر لی ہے اور اسفار کا سلسلہ موقوف کر دیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس عالمی وبا سے نسل انسانی، امت مسلمہ اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندوں کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو اپنی بارگاہ میں رجوع اور توبہ و استغفار کی توفیق دیتے ہوئے اصلاح اعمال و احوال کی انفرادی و اجتماعی سطح پر توفیق دیں، آمین یا الٰہ العالمین۔