گلگت کے فسادات اور حکومت کی ذمہ داری

   
جون ۱۹۸۸ء ۔ جلد ۳۱ شمارہ ۲۲

گلگت میں رمضان المبارک کے آخر میں سنی شیعہ کشیدگی میں جو اچانک اضافہ ہوا تھا وہ بالآخر خونریز فسادات پر منتج ہوا اور سینکڑوں افراد کی جانیں ان فسادات کی نذر ہوگئیں۔ سینکڑوں جانوں کی بھینٹ وصول کرنے والے ان فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب کیا ہیں اور کون عناصر ان کے ذمہ دار ہیں؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے متحدہ سنی محاذ کا ایک وفد اس ہفتہ کے دوران گلگت جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں حتمی بات اس وفد کی رپورٹ کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔ تاہم اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق واقعات کی ترتیب کچھ اس طرح بنتی ہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے آغاز میں گلگت کے بعض اہم راستوں میں سڑکوں پر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی کچھ ایسی بدزبانی اور مغلظات کے ساتھ لکھا ہوا پایا گیا کہ دیکھنے والے ہر باغیرت مسلمان کا خون کھول اٹھا۔ ام المؤمنین کے اسم گرامی کے ساتھ بے ہودہ کلمات کے علاوہ سڑک پر پاؤں تلے روندے جانے کے تصور نے ہر مسلمان کو لرزہ براندام کر دیا۔ اہل سنت کی طرف سے حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس قسم کی شرمناک حرکت کرنے والوں کے خلاف تحفظ ناموس صحابہؓ آرڈیننس کے تحت فوری کارروائی کی جائے اور ان ناموں کو فی الفور مٹایا جائے مگر انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی اور عام روایت یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات سے وزیراعظم جونیجو کے مشیر احمد علی شاہ اس بارے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔

جمعۃ الوداع کے موقع پر مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب مولانا عنایت اللہ نے مجبور ہو کر الٹی میٹم دیا کہ اگر عید کے روز تک اہل سنت کے مطالبات منظور نہ کیے گئے تو عید کے دن اہل سنت خود کارروائی کریں گے اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ناموس کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ انتظامیہ نے اس الٹی میٹم کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا جس نے باغیر مسلمانوں کے سینوں میں سلگنے والی اضطراب کی آگ کو انتقامی شعلوں میں بدل دیا۔

اہل تشیع نے عید الفطر اہل سنت سے ایک روز قبل ادا کی اور نماز پڑھنے کے بعد گلگت ایئرپورٹ کے قریب گزرنے والی نہر کے ساتھ مورچہ بند ہو کر بیٹھ گئے اور مرکزی جامع مسجد اور ایئرپورٹ کے درمیان سنی آبادی کے ایک محلہ پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ایک سنی مسلمان شہید ہوا اور اس کے ساتھ ہی اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مسلح تصادم کا آغاز ہوگیا۔ شاہ ٹوٹ نامی ایک بستی جو سنی آبادی کے پندرہ بیس گھروں پر مشتمل تھی اہل تشیع نے اس کا مکمل محاصرہ کر کے اسے جلا دیا اور پوری بستی صاف کر دی۔ گلگت میں اہل سنت کے خلاف دہشت گرد فرقہ پرستوں کی ان مسلح ظالمانہ کارروائیوں کو دیکھ کر اردگرد علاقوں کے سنی مسلمانوں نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا اور مناور، سکھواڑ، ٹکور، جلال آباد، بھونجی، سسی، کھلتارو، داتو اور دیگر دیہات میں جوابی کارروائیاں کیں جس سے فسادات کا دائرہ گلگت کی حدود سے دیہات علاقوں تک پھیل گیا۔

اس قضیہ کا شرمناک ترین پہلو یہ ہے کہ عید کے دوسرے روز جبکہ فسادات زوروں پر تھے اہل تشیع کے بعض علماء نے مبینہ طور پر یہ چیلنج دے دیا کہ حضرت عائشہؓ کے خلاف جو کچھ سڑکوں پر لکھا گیا ہے وہ اس کا ثبوت کتابوں سے دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس چیلنج کے اعلان کے بعد وہ حضرات گلگت سے ہنزہ جانے والے راستے پر واقع چائنہ پل پر کتابیں لے کر پہنچ گئے۔ یہ اعلان بھڑکتی ہوئی آگ پر مزید پٹرول ڈالنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ چائنہ پل پر بھی خونریز تصادم ہوا اور متعدد جانیں اس میں ضائع ہوگئیں۔

اگر واقعات کی ترتیب فی الواقع انہی اطلاعات کے مطابق ہے تو یہ صورتحال انتہائی اذیت ناک، تکلیف دہ اور اضطراب انگیز ہے اور اس کی ذمہ داری ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے نام نامی کو بدزبانی اور خبث باطن کا نشانہ بنانے والے عناصر اور اس شرمناک کارروائی کو معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کرنے والی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گلگت جیسے حساس علاقہ میں ہونے والے شیعہ سنی فسادات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرا کے ان کے اسباب و عوامل اور محرکات کو منظر عام پر لائے اور اس المناک خونریزی کے لیے اشتعال انگیزی کا ایندھن مہیا کرنے والے شرپسند عناصر کو قرارواقعی سزا دے کر آئندہ کے لیے ایسے افسوسناک واقعات کا سدباب کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter