حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ

   
تاریخ : 
جون ۱۹۹۳ء

حضر ت مولانا غلام غوث ہزارویؒ سے میرا تعلق مختلف نسبتوں اور حوالوں سے ہے اور میں خود کو ان خوش قسمت افراد میں سمجھتا ہوں جنہیں حضرت مرحوم سے مسلسل استفادہ کا موقع ملا۔ زندگی کے کسی مرحلہ میں موقف اور پالیسی کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہو جانا ایک الگ امر ہے جو انسانی فطرت کا لازمی حصہ ہے، لیکن آج بھی اپنے دل کو ٹٹولتا ہوں تو بحمد اللہ تعالیٰ زندگی کے کسی لمحہ میں کوئی ایسا واضح جھول محسوس نہیں ہوتا جو حضر ت مولانا ہزارویؒ کے ساتھ عقیدت ومحبت اور ان کی دیانت وللہیت پر اعتماد کے حوالے سے خدا نخواستہ پیدا ہو گیا ہو، الحمد للہ علیٰ ذالک۔

مولانا ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق علاقائی بھی ہے کہ ہمارا آبائی گاوں کڑمنگ، جہاں ہمارے دادا محترم جناب نور احمد خان مرحوم رہائش پذیر تھے اور جہاں میرے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی ولادت ہوئی، بفہ سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔ اور اپنے خاندان کے بزرگوں سے متعدد بار سنا ہے کہ دادا مرحوم کڑمنگ سے اوپر پہاڑ کی چوٹی پر اپنی قیام گاہ ”چیڑاں ڈھکی“ سے سودا سلف لینے کے لیے پیدل بفہ جایا کرتے تھے۔ بفہ مولانا ہزاروی کا آبائی شہر ہے اور آخری آرام گاہ بھی ہے۔مولانا ہزارویؒ ہمارے خاندانی محسن بھی ہیں کہ دادا محترم جناب نور احمد خان مرحوم کی وفات کے بعد والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر اور عم مکرم مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ابھی نوعمر تھے اور اہل خاندان کی روایتی بے اعتنائی کا شکار تھے تو انہیں زمانہ کے ظلم وستم سے پہلی پناہ حضرت مولانا ہزارویؒ کے بفہ میں قائم کردہ دینی مدرسہ میں ملی جو پناہ گاہ بھی تھی اور دونوں بھائیوں کے روشن اور تابناک مستقبل کا آغاز بھی۔ چنانچہ دونوں بھائیوں نے حضر ت مولانا ہزارویؒ کے زیر سایہ اس دینی مدرسہ میں تعلیم کا آغاز کیا جس کے ثمرات وفیوض سے آج ایک دنیا فیض یاب ہو رہی ہے۔ آج جب ان دونوں بھائیوں کے علمی ودینی فیضان کا سلسلہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا ہوا دیکھتا ہوں تو چشم تصور ماضی کے ان مناظر میں کھو جاتی ہے اور جہاں اس فیضان کے سبب اول کے طور پر حضر ت مولانا ہزاروی قدس اللہ سرہ العزیز کا بابرکت چہرہ سامنے آتا ہے، وہاں خاندان اور علاقہ کے ان بزرگوں کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے جن کے منفی طرز عمل اور روایتی سلوک نے دونوں بھائیوں کو مولانا ہزارویؒ کے پاس پہنچا دیا اور ان کا یہ رویہ بھی اس عمومی فیضان کا تکوینی طور پر سبب ہی ثابت ہوا۔ بہرحال حضر ت مرحوم میرے والد محترم مدظلہ اور عم مکرم مدظلہ کے محسن اول اور استاد بھی ہیں۔

مولانا ہزارویؒ کے ساتھ میرے تعلق کا تیسرا اور عملی پہلو یہ ہے کہ سیاسی فکر اور دینی جدوجہد میں وہ میرے مربی اور استاذ ہیں اور مجھے زندگی میں اس حوالہ سے جن بزرگوں سے استفادہ کا موقع ملا ہے، ان میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ حضرت مولانا ہزارویؒ کا اسم گرامی آتا ہے۔ بالخصوص اپنے موقف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے اور تکلفات سے گریز کا سبق مجھے مولانا ہزارویؒ سے ہی ملا ہے۔ البتہ موقف کے اظہار میں سختی اور شدت کے باب میں ان کی پیروی نہ کر سکا کہ والد محترم مدظلہ شروع سے اس بات کی تلقین کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اپنے موقف اور نظریہ پر پوری دل جمعی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اس کے اظہار میں ہمیشہ نرمی سے کام لیا جائے اور الفاظ کے چناؤ اور انداز بیان میں ملائمت کا پہلو غالب رکھا جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ عملی زندگی میں اس کے مثبت اثرات کا متعدد بار تجربہ کر چکا ہوں۔

مولانا ہزارویؒ ایک سادہ منش اور وضع دار بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کے لیے جس وضع کو جوانی میں اختیار کیا، آخر وقت تک اسے نبھایا اور اس شان سے نبھایا کہ اس باب میں کوئی دوسرا ان کی پیروی نہ کر سکا۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی کی رکنیت کے دور میں بھی ان کا قیام دہلی دروازہ لاہور سے باہر جمعیۃ علماء اسلام کے دفتر میں ہوتا تھا جو بعد میں رنگ محل میں کرایہ کی ایک نئی بلڈنگ میں منتقل ہو گیا۔ وہ اکثر اوقات اپنے کپڑے خود دھویا کرتے تھے، انتہائی سادہ خوراک سے ان کی گذر اوقات ہوتی تھی۔ رنگ محل سے ریلوے اسٹیشن تک اکثر پیدل جایا کرتے تھے۔ ان کے ہاں لیڈرانہ رکھ رکھاؤ اور پروٹوکول کا کوئی تصور نہ تھا۔ جماعتی دوستوں اور کارکنوں کے ہاں کسی قسم کی ترجیحات کے بغیر بے تکلف چلے جایا کرتے تھے اور ان کی یہی ادا ان کے ساتھ اور ان کے حوالہ سے جماعت کے ساتھ کارکنوں کی محبت اور جوش وولولہ میں اضافہ کا باعث بن جاتی تھی۔

سیاست میں جماعت سازی سب سے مشکل فن اور انتہائی صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ بڑی بڑی قدر آور سیاسی شخصیتیں اس گھاٹی میں اتر کر چوکڑی بھول جاتی ہیں۔ یہ فن مولانا ہزارویؒ کے پاس تھا اور فن کے ساتھ حوصلہ اور صبر کا ذخیرہ بھی ان کے پاس وافر مقدار میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لینے والی جماعت، جمعیۃ علماء اسلام کو قیام پاکستان کے آٹھ نو سال بعد جب دوبارہ منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس کٹھن کام کے لیے ارباب بصیرت کی نظر مولانا ہزارویؒ پر پڑی اور انہوں نے اس اعتماد کی لاج رکھتے ہوئے چند سالوں میں شبانہ روز محنت اور بے لوث جدوجہد کے ساتھ جمعیۃ علماءاسلام کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں لا کھڑا کیا۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیۃ علماءاسلام نے متحدہ پاکستان میں ووٹوں کے اعتبار سے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی اور جمعیت کو قومی سیاست میں یہ مقام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی بے لوث محنت اور حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی سیاسی بصیرت وفراست کی بدولت حاصل ہوا۔ جمعیۃ کی سیاسی اہمیت اور وجود کی گاڑی انہوں دو پہیوں پر منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ حوادث زمانہ نے ان دو پہیوں کے درمیان توازن کو قائم نہ رہنے دیا اور جمعیۃ کی گاڑی پھر ایسی لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوئی کہ اس کے بعد بہت سے خوش کن مراحل سے گزرنے کے باوجود ۱۹۷۰ء کی پوزیشن پر واپس نہ جا سکی۔ جمعیۃ علماءاسلام آج بھی مسلسل لڑکھڑاہٹ کا شکار ہے، اسے نہ مولانا ہزارویؒ کا ایثار وحوصلہ مل رہا ہے اور نہ مولانا مفتی محمودؒ کی بصیرت وفراست حاصل ہو رہی ہے اور ہم جماعتی زندگی کو نئی اقدار سے روشناس کرانے کے شوق میں پرانی اور بابرکت وضع داری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین۔

مولانا ہزارویؒ دینی فتنوں کے تعاقب کا خصوصی ذوق اور ملکہ رکھتے تھے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت، علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کی علماء دشمنی اور مودودی صاحب مرحوم کی جدید دینی تعبیرات پر انہوں نے شدت کے ساتھ تنقید کی اور وہ علماءکرام کو مسلسل ان فتنوں کا تعاقب کرنے کے لیے آمادہ کرتے رہے۔ مودودی صاحب تو ان کی بے لاگ تنقید کا آخر وقت تک نشانہ رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرات صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ پر تنقید وطعن کو مودودی صاحب نے جس طرح حقوق اور مشن میں شامل کر لیا تھا، مولانا ہزارویؒ جیسے باحمیت عالم دین کے لیے اسے گوارا کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ چنانچہ لوگوں کی طرف سے زبان کی ترشی اور لہجہ کی تلخی کی شکایات والزامات کے باوجود مولانا ہزارویؒ آخر وقت تک اس محاذ پر پوری شدت کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔

سیاسیات میں مولانا ہزارویؒ بنیادی طور پر ایک سامراج دشمن راہ نما تھے۔ انہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ میں متحرک کردار ادا کیا تھا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ اس لیے عالمی اسٹیج پر برطانوی استعمار کے جانشین اور وارث امریکی استعمار کے لیے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ ممکن ہی نہ تھا۔ استعمار دشمنی میں وہ اس قدر بے لچک تھے کہ امریکی استعمار کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے والے کسی بھی سیاسی لیڈر کے دیگر افکار ونظریات اور معاملات ومعمولات کی طرف نظر ڈالنے کی انہوں نے کبھی ضرورت محسوس نہ کی۔ ان کی ترجیحات میں امریکہ دشمنی سب سے مقدم تھی اور وہ اس کے لیے باقی ہر معاملہ میں مصلحت کا پہلو اختیار کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔

اخلاق واقدار کی کساد بازاری کے اس دور میں سچی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا ہزارویؒ کی یاد بہت آتی ہے لیکن ایثار، دیانت، بے باکی، خلوص، جرأت، سادگی، حق گوئی اور جہد مسلسل کے ایسے پیکر اب کہاں!

آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
   
2016ء سے
Flag Counter