صوبہ سرحد میں شرعی قوانین کے نفاذ میں درپیش مشکلات

   
تاریخ : 
۳۰ مارچ ۲۰۰۳ء

صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اسلامی اصلاحات کے عمل کا آغاز کر دیا ہے اور وزیر اعلیٰ محمد اکرم خان درانی نے گزشتہ روز صوبائی کابینہ کے طویل اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مولانا مفتی غلام الرحمان کی سربراہی میں جو نفاذ شریعت کونسل صوبہ میں نفاذ اسلام کے سلسلہ میں سفارشات اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی اس نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے، اور اس رپورٹ کی روشنی میں سرحد اسمبلی میں شریعت ایکٹ لایا جا رہا ہے جس میں صوبائی دائرہ اختیار کی حدود میں تمام اسلامی قوانین اور اقدامات کو شامل کیا جائے گا۔

نفاذ شریعت کونسل کی سفارشات کا گزشتہ کئی دنوں سے اخبارات میں تذکرہ ہو رہا ہے اور جناب اکرم خان درانی نے پریس کانفرنس میں اس سلسلہ میں کونسل کی جن تجاویز کا ذکر کیا ہے ان میں درج ذیل امور بطور خاص قابل ذکر ہیں:

  • صوبہ میں قائم عدالتیں صوبائی دائرہ اختیار میں آنے والے قوانین کی تشریح و تعبیر شریعت کے مطابق کرنے کی پابند ہوں گی۔
  • احتساب کے لیے ادارہ قائم کیا جائے گا جس کے تحت صوبائی و ضلعی سطح پر محتسب مقرر ہوں گے۔
  • صوبہ میں نظام صلاۃ قائم ہوگا۔
  • میٹرک کی سطح تک تعلیم مفت ہونے کے علاوہ مڈل تک تعلیم لازمی ہوگی۔
  • خواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج قائم کیا جائے گا۔
  • میٹرک کی سطح پر آرٹس اور سائنس کے ساتھ اسلامیات (درس نظامی) کا گروپ بھی قائم کیا جائے گا۔
  • مرکزی حکومت سے ادویات پر ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
  • غیرت کے نام پر قتل، خواتین کو میراث سے محروم رکھنے اور یکبارگی تین طلاقیں قابل تعزیر جرم ہوں گی۔
  • خواتین کی ماڈلنگ اور فحش و عریاں تصاویر پر مکمل پابندی ہوگی۔
  • اقلیتوں کے حقوق کا مکمل تحفظ اور ان کو پوری مذہبی آزادی دی جائے گی۔

یہ ان اقدامات کی ایک سرسری فہرست ہے جو صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے اسلامائزیشن کے حوالہ سے تجویز کیے ہیں اور چند روز تک اس کی کوئی نہ کوئی عملی شکل سامنے آجائے گی۔

صوبہ سرحد اس سے قبل دو مرتبہ اسی نوعیت کی اصلاحات کے عمل سے گزر چکا ہے۔ ایک بار ۱۸۳۰ء میں جب خانوادہ ولی اللٰہی کے مجاہدین نے حضرت سید احمد شہیدؒ اور حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں سکھوں کے ساتھ جہاد کے ذریعے پشاور کی حکومت پر قبضہ کیا تھا اور اس خطہ میں نفاذ شریعت کے آغاز کے ساتھ ساتھ اسے جنوبی ایشیا میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جنگ آزادی کا بیس کیمپ بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن انہیں اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی تھی اور وہ صرف چھ ماہ حکومت کرنے کے بعد ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ امیر المؤمنین حضرت سید احمد شہیدؒ کو نفاذ اسلام کے اقدامات کے حوالہ سے اس خطہ میں بعض طبقات کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ جناب اکرم خان درانی اور ان کے رفقاء کی ٹیم کو اپنی ذاتی معلومات کے لیے شہدائے بالاکوٹ کی پشاور پر حکومت اور پھر اس کی ناکامی پر ضروری لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس تجربہ کے مثبت او رمنفی دونوں پہلوؤں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ خطہ وہی ہے، عوام کا مزاج اور نفسیات وہی ہیں اور ایجنڈا بھی وہی ہے۔ اس لیے سابقہ تجربہ کا مطالعہ کرنا اور اچھی طرح سے اس کی اسٹڈی کرکے نئے تجربہ کی تیاری کرنا ضروری ہے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ عرض کرنے میں بھی کوئی باک نہیں ہے کہ پشاور کے پڑوس میں کابل اور افغانستان میں ماضی قریب میں طالبان کی اسلامی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کے عوامل و نتائج کو جانچنا بھی اس نئے تجربے کا ناگزیر تقاضہ ہے۔ یہ درست ہے کہ طالبان حکومت کی ناکامی کے زیادہ تر عوامل خارجی ہیں لیکن یہ کہہ کر ہم ان داخلی عوامل کی نفی نہیں کر سکتے جن کی وجہ سے خارجی عوامل کو آگے بڑھنے اور منفی کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ اور عقل و دانش کا تقاضہ ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کے المناک سقوط کے داخلی اور خارجی دونوں طرح کے اسباب و عوامل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور کسی بھی نئے تجربے میں ان سے سبق اور راہنمائی حاصل کی جائے۔

پشاور میں اسلامی اصلاحات کا دوسرا مرحلہ ۱۹۷۲ء کے دوران اس وقت آیا تھا جب حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے صوبہ سرحد میں جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی کی کولیشن سے قائم ہونے والی صوبائی حکومت میں وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالا تھا اور شراب پر پابندی کا اعلان کے ساتھ حکومت کا آغاز کیا تھا۔ حضرت مفتی صاحبؒ کو تقریباً دس ماہ تک حکومت کرنے کا موقع ملا تھا اور اس کے بعد صوبہ بلوچستان میں جمعیۃ اور نیپ کی کولیشن حکومت کے وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل کی برطرفی پر احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس دس ماہ کے دوران اگرچہ مفتی صاحبؒ چند اقدامات ہی کر سکے تھے اور باقی اصلاحات کے لیے تیاریاں جاری تھیں کہ حکومت ختم ہوگئی لیکن ان چند اقدامات مثلاً شراب پر مکمل پابندی، اردو کو سرکاری زبان قرار دینا، سکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم لازمی قرار دینے اور تقاویٰ قرضوں پر سود کی معافی جیسے اقدامات کے حوالہ سے انہیں بیوروکریسی اور دیگر حلقوں کی طرف سے جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا جائزہ لینا اور نئے تجربہ کے موقع پر انہیں سامنے رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اصل مسئلہ اقدامات و اصلاحات کا نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔ اور ہمارے ہاں سول سروس کا جو نظام فرنگی استعمار سے ہمیں ورثہ میں ملا ہے اس کی موجودگی میں کسی اچھے سے اچھے اقدام کی کامیابی کے امکانات بھی مخدوش ہو جاتے ہیں۔

اس سلسلہ میں خود بیوروکریسی سے ہی ایک شہادت پیش کرنا چاہوں گا۔ جن دنوں مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف کی طرف سے سینٹ میں پیش کردہ شریعت بل زیربحث تھا اور پورے ملک میں جدوجہد ہو رہی تھی، گوجرانوالہ ڈویژن کے کمشنر غلام مرتضیٰ پراچہ نے، جو پرانے اور تجربہ کار بیوروکریٹ تھے، مجھ سے ایک ملاقات میں پوچھا کہ یہ آپ حضرات کیا کر رہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ہم شریعت بل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ بل منظور ہوگا اور قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء تسلیم کیا جائے گا تو ملک میں تمام قوانین کی اسلام کے مطابق تعبیر و تشریح ضروری ہو جائے گی اور بتدریج ملک کا نظام اسلامی ہو جائے گا۔ یہ سن کر پراچہ صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ مولوی صاحب! آپ بڑے بھولے ہیں۔ آپ ملک میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھ رہے کہ یہ کام آپ کونسی مشینری کے ذریعے کرنا چاہ رہے ہیں۔ ارے بھائی! عملدرآمد تو ہم لوگوں نے کرانا ہے، یہاں تو ہم لوگ بیٹھے ہیں، آپ اگر خود بھی اقتدار میں آجائیں تو آپ کے احکامات کا نفاذ تو ہمارے ذریعہ سے ہونا ہے۔ اگر آپ ہم سے اس سلسلہ میں کوئی توقع رکھتے ہیں تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ پہلے ہماری جگہ اپنا آدمی بٹھانے کی کوئی صورت نکالیں اس کے بعد اسلام کے نفاذ کی بات کریں۔ پراچہ صاحب کی یہ بات سو فیصد درست نہ ہو تو سو فیصد غلط بھی نہیں ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ کی موجودہ مشینری تعلیم اور تربیت کے جن مراحل سے گزر کر آئی ہے ان کے پیش نظر اگر وہ خود چاہے تو بھی شاید نفاذ اسلام کے عملی اقدامات اس کے لیے آسان نہیں ہوں گے۔

ان گزارشات کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے مجوزہ اور مذکورہ اقدامات سے اختلاف کر رہے ہیں۔ نہیں اور ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ہماری خواہش اور جذبات نفاذِ اسلام کے جذبہ کا آئینہ دار ہیں اور صوبہ سرحد کے عوام کی دیرینہ خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک اصلاحات کی طرف قدم بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان خفیہ اور اعلانیہ رکاوٹوں کو پیش نظر رکھنا اور ان سے عوام کو مرحلہ وار آگاہ کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔ نیز اس سے قبل اس سلسلہ میں ہونے والے تجربات کی ناکامی کے اسباب کا مطالعہ بھی لازمی ہے کیونکہ ان رکاوٹوں اور اسباب کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں پس پردہ رکھنے کی بجائے بے نقاب کر کے اس سلسلہ میں عوام کو اعتماد میں لینا اسلامائزیشن کی جدوجہد کا ناگزیر تقاضہ ہے۔

ان معروضات کے ساتھ ہم جناب محمد اکرم خان درانی اور ان کے رفقاء کو اس اہم پیش رفت پر مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت اس مشن میں انہیں مکمل کامیابی سے نوازیں، راستہ کی رکاوٹیں عبور کرنے کی ہمت عطا فرمائیں اور ان کی اس کاوش کو پورے پاکستان بلکہ دیگر مسلم ممالک کے لیے بھی ایک لائق تقلید نمونہ بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter