قادیانیوں کی نظارت امور عامہ صدر انجمن احمدیہ کے پریس سیکشن کی طرف سے ۲۰۱۴ء کے حوالہ سے شائع کی جانے والی ایک رپورٹ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل جناب عبد اللطیف چیمہ کی طرف سے موصول ہوئی ہے۔ دو درجن سے زائد صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں سال گزشتہ کے دوران پاکستان کے اردو اخبارات میں قادیانیوں کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں، بیانات اور رپورٹوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کے اخبارات قادیانیوں کے خلاف بہت زیادہ خبریں شائع کرتے ہیں جو ان کے بقول اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔ اور ان کے خیال میں ایسا اس مذہبی دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے جو پاکستانی معاشرہ میں قادیانیوں کے خلاف مسلسل موجود رہتا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رپورٹ شائع کرنے کا مقصد اس خود ساختہ مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا روپ قادیانی جماعت نے عالمی سطح پر ایک عرصہ سے دھار رکھا ہے اور جس کے ذریعہ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور پاکستان کے خلاف سرگرم عمل بین الاقوامی اداروں کی توجہ اور ان سے مفادات حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ورنہ ملک کی کوئی بھی سیاسی یا دینی جماعت اس قسم کا سروے کر کے اپنے خلاف شائع ہونے والی خبروں اور بیانات کے اعداد و شمار پیش کر سکتی ہے بلکہ بہت سی جماعتیں ایسی موجود ہیں جو اپنے وجود کا احساس دلانے اور توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ طرز اختیار کر لیں تو ان کی سالانہ رپورٹ اس رپورٹ سے کئی گنا بڑی بھی ہو سکتی ہے۔
ویسے عمومی تناظر میں بھی دیکھا جائے تو اس شکایت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے خلاف اخبارات میں خبریں کیوں شائع ہوتی ہیں اور ہمارے خلاف بیانات اخبارات کی زینت کیوں بنتے ہیں؟ جب کوئی شخص یا گروہ پبلک کے سامنے آئے گا تو اسے تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑے گا اور اعتراضات بھی سننا پڑیں گے۔ اگر کسی جماعت کے نزدیک اس کی باتیں اور حرکات وحی الٰہی پر مبنی ہیں اور تنقید سے بالاتر ہیں تو اس کا تعلق اس کے داخلی ماحول سے ہے۔ اگر باہر کے لوگ بھی ان کی یہ حیثیت تسلیم کر لیں تو سرے سے کوئی جھگڑا ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ جبکہ قادیانیوں کے ساتھ مسلمانوں کا تنازعہ ہی اس بات پر ہے کہ قادیانی حضرات اپنی بہت سی باتوں اور کاروائیوں کی بنیاد وحی الٰہی کو قرار دیتے ہیں جسے دنیا کا کوئی بھی مسلمان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملت اسلامیہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ اور جو شخص بھی نبوت و وحی کا دعویٰ کرے یا اس کے اس دعوے کو قابل قبول سمجھے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر یہ کہنا کہ ہمارے خلاف خبریں اور بیانات کیوں شائع ہوتے ہیں، اسے باقاعدہ رپورٹ کی صورت میں تقسیم کرنا اور بین الاقوامی اداروں کو اس کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کرنا بجائے خود اخبارات پر منفی دباؤ ڈالنے اور ان پر اثر انداز ہونے کی بھونڈی صورت ہے جو پریس کی آزادی کے عالمی تصور کے بھی منافی ہے۔ جہاں تک خبروں اور بیانات کے سچے یا جھوٹے ہونے کی بات ہے، اپنے خلاف شائع ہونے والی کسی خبر یا بیان کو صحیح تسلیم کا عام طور پر رجحان موجود نہیں ہے۔ جس شخص یا جماعت کے خلاف کوئی خبر یا بیان شائع ہوتا ہے وہ اسے غلط ہی کہتا ہے اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اسی طرح کی تاویلیں کرتا ہے جس قسم کی تاویلوں کا قادیانی جماعت سہارا لیا کرتی ہے۔ البتہ قادیانی گروہ کا یہ امتیاز واضح ہے کہ دور از کار تاویلوں اور تحریفات میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور موجودہ دور میں اسے ان معاملات میں سب پر سبقت حاصل ہے۔
رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کے بارے میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے جو متفقہ فیصلہ کیا تھا اور پوری ملت اسلامیہ کے اس اجماعی فیصلے کو دستور پاکستان کا حصہ بنا دیا تھا کہ قادیانی گروہ دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کے وہ فوائد سامنے نہیں آئے جو رپورٹ مرتب کرنے والوں کے خیال میں حاصل ہونے چاہئیں تھے۔ ہمارے خیال میں بات ایسی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے اس تاریخی فیصلے نے پوری دنیا کو قادیانیوں کی اصل حیثیت سے متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ قادیانی جماعت پاکستان میں وہی حیثیت حاصل کرنا چاہتی ہے جو امریکہ میں یہودیوں نے حاصل کر رکھی ہے، اس کی راہ میں بھٹو مرحوم ہی کی زیر قیادت ۱۹۷۴ء کے اس تاریخی دستوری فیصلے نے ناقابل عبور دیوار کھڑی کر دی ہے اور اسی پر قادیانی گروہ اور اس کے عالمی سرپرستوں کی تلملاہٹ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
قادیانیوں کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے اجماعی عقائد اور متفقہ موقف سے صریح انحراف کرتے ہوئے بھی زبردستی مسلمان کہلانے پر بضد ہیں اور پاکستان کے دستور کے واضح فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے بلکہ اس کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم جوئی کے باوجود اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ انہیں ملک کا باغی نہ کہا جائے اور انہیں وہ تمام خود ساختہ حقوق اور مراعات غیر مشروط پر دی جائیں جو وہ دستور و قانون اور اصول و اخلاق کے علی الرغم طلب کر رہے ہیں، اور ظاہر بات ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
امریکہ کے شہریوں کا کوئی گروہ امریکی دستور کو ماننے سے انکار کر کے اس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مورچہ بندی کا ماحول قائم کر لے اور پھر اس بات کا بھی تقاضہ کرے کہ اسے امریکہ میں وہ تمام مراعات حاصل ہوں جو محب وطن امریکیوں اور دستور و قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں کو میسر ہیں تو یہ آخر کیسے ہو سکتا ہے؟
قادیانی گروہ کے ارباب حل و عقد کو مسلمانوں سے اس طرح کی شکایتیں کرنے کی بجائے اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی اس ہٹ دھرمی پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو وہ مسلمانوں کے اجماعی عقائد سے منحرف ہو کر مسلمان کہلانے اور پاکستان کے دستور کو چیلنج کر کے خود ساختہ حقوق حاصل کرنے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل نہیں ہے اور قادیانیوں کو جلد یا بدیر بہرحال اسی بات پر آنا ہوگا۔