قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ

   
ستمبر ۱۹۹۵ء

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ آج جب مسلمان دنیا کے کسی خطے میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو حکومت و قانون کی بنیاد بنانے کی بات کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ملک کا سارے کا سارا نظام قرآن کریم اور سنت رسولؐ کے مطابق ہونا چاہیے، وہاں اسلام کی بالادستی ہونی چاہیے، حدودِ شرعیہ نافذ ہونی چاہئیں، خلافت کا نظام نافذ ہونا چاہیے، تو اس کے جواب میں عام طور پر ایک بات کہی جاتی ہے کہ آج کے دور میں تھیاکریسی نہیں چل سکتی، یا آج کے دور میں پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

تھیا کریسی اور پاپائیت

تھیا کریسی اور پاپائیت کسے کہتے ہیں؟ تھیا کریسی اور پاپائیت اسے کہا جاتا ہے کہ وقت کا حکمران خود کو خدا کا نائب اور نمائندہ قرار دے کر جو چاہے فیصلے کرے، لوگ اسے سننے اور ماننے پر مجبور ہوں اور ان فیصلوں پر عمل کے پابند ہوں۔ تھیا کریسی کا مختصر معنیٰ یہ ہے کہ حاکم وقت خود کو قانون سے بالاتر سمجھے، وہ خود کسی قانون کا پابند نہ ہو، جبکہ جو کچھ کہہ دے وہ قانون کی حیثیت رکھتا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکمِ وقت یہ سمجھے کہ میں خدا کا نمائندہ ہوں اس لیے میں جو بھی بات کہتا ہوں وہ خدا ہی کی طرف سے ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں خدا کے نام پر، خدا کے اشارے کے نام پر، یا اِلہام کے نام پر پیغمبر کے سوا کوئی حاکم اپنی بات کو خدا کی بات قرار دے کر لوگوں کو اپنی اطاعت کا پابند بنا لے، اس کا نام تھیا کریسی ہے اس کا نام پاپائیت ہے۔

دنیا پاپائیت اور تھیا کریسی کی ڈسی ہوئی ہے، لوگوں کے ذہنوں میں حکومت کے حوالے سے جب مذہب کا نام آتا ہے تو یورپ کا وہ چار سو سالہ دور ان کے سامنے آجاتا ہے جس میں یورپ کے اندر تھیاکریسی اور پاپائیت کا راج رہا ہے اور یورپ میں پوپ اور اس کی کونسل اپنے فیصلوں کو خدا کا فیصلہ قرار دیتے رہے ہیں، آج بھی وہ اپنے دائرے میں یہی کرتے ہیں۔ یورپ کے لوگوں پر مذہب اور خدا کے نام پر بڑا ظلم ہوا ہے، بادشاہ نے اور کلیسا نے خدا کے نمائندے بن کر جس بات کو اپنے مفاد کے خلاف پایا ہے اس کو مذہب کی مخالفت قرار دے کر لوگوں کے خلاف فیصلے کیے اور لوگوں کو سزائیں دی ہیں۔ اس لیے آج جب مذہب کی بنیاد پر حکومت کا نام آتا ہے تو ان لوگوں کے ذہنوں میں وہ تاریک دور آجاتا ہے جسے یہ ڈارک ایجز (Dark ages) کہتے ہیں۔ اس پس منظر کی بنیاد پر یہ لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر جب بھی حکومت ہوگی تو حکمران خدا کے نام پر اپنی من مانی کرے گا اس لیے کہ مذہب اور خدا کے سامنے لوگ پابند اور مجبور ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آج جب دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ہوتا ہے تو جواب میں یہ رد عمل سامنے آتا ہے کہ آج کے دور میں تھیاکریسی کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ وہ کشمکش ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے مسلمانوں کو درپیش ہے۔

اسلام میں تھیا کریسی کا تصور

حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں تھیا کریسی کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے، اسلام تو خلافت یعنی نیابت کا تصور دیتا ہے۔ ہمارے ہاں جناب رسول اللہؐ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد قیامت تک کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ جس کی بات کو خدا کی بات کہا جا سکے، اور پھرخود نبی کریمؐ کی شخصیت بھی اللہ تعالیٰ کے قانون اور ضابطے سے مستثنیٰ نہیں تھی۔ پاپائیت اس کا نام ہے کہ ایک آدمی کو اس درجہ میں معصوم تصور کر لیا جائے کہ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی اور یہ کہ جو بات وہ کہہ دے وہ دراصل خدا ہی کی بات ہے، اس کے آگے کوئی قانون نہیں ہے کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں دنیا بھر کے اہل سنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہؐ کی ذات گرامی کے بعد قیامت تک امت میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ معصوم ہے، خدا کا نمائندہ ہے اور غلطی سے بالاتر ہے۔

جناب نبی کریمؐ اپنی ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں خود بھی کبھی خدائی قانون سے بالاتر نہیں رہے، آپؐ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ میں یہ کہتا ہوں اس لیے میری بات مانو بلکہ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے جس کا میں بھی پابند ہوں اور تم لوگ بھی پابند ہو۔ رسول اللہؐ نے کسی بات کی نسبت اپنی طرف نہیں کی، حالانکہ جہاں تک ہمارے ایمان کا تعلق ہے رسول اللہؐ دین کے معاملے میں آخری اتھارٹی ہیں، ہمارے سامنے نہ اللہ تعالیٰ ہیں اور نہ جبریل علیہ السلام بلکہ ہمارے سامنے تو حضورؐ کی شخصیت ہے۔ لیکن دین کے معاملے میں، قانون کے معاملے میں اور معاملات کے بارے میں آخری اتھارٹی ہونے کے باوجود خود رسول اللہؐ کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ آپ قانون اور ضابطے کے پابند رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی کریمؐ کو مختلف معاملات میں قانون کا پابند بنا کر یہ بتایا کہ اسلام تھیاکریسی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک قانون اور ضابطے کی پابندی کا نام ہے۔ اس حوالے سے میں جناب نبی کریمؐ ، خلافت راشدہ اور خیر القرون کے حوالے سے چند واقعات کا تذکرہ کروں گا جن سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جناب رسول اللہؐ اور ان کے بعد آنے والے خلفاء اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ضابطے اور دائرے کے پابند رہے ہیں۔

منہ بولے بیٹے کی حیثیت

جناب نبی کریمؐ نے اپنے انتہائی پیارے ساتھی حضرت زید بن حارثہؓ کو جو آپؐ کے آزاد کردہ غلام بھی تھے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، وہ زید بن حارثہؓ جنہوں نے اپنی تلاش میں آنے والے اپنے خاندان کو یہ کہہ کر واپس کر دیا تھا کہ رسول اللہؐ کے دامن سے وابستہ ہونے کے بعد اب میں حضورؐ کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مکہ مکرمہ میں کافی عرصہ تک حضورؐ کی کنیت ابو زید رہی اور زید بن حارثہؓ کو زید بن محمدؐ کہا جاتا رہا۔جاہلیت کے دور میں جب لوگ کسی کو منہ بولا بیٹا بناتے تھے تو وہ پھر حقیقی بیٹا ہی شمار ہوتا تھا، وہ وراثت میں بھی شریک ہو جاتا تھا اور اس کے ساتھ حلال و حرام کے مسائل بھی وابستہ ہو جاتے تھے۔ عرب قبائل کے رواج کے مطابق منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا اور اس کی بیوی بہو سمجھی جاتی تھی اس لیے بیٹا فوت ہوجانے کی صورت میں بہو سے خسر کا نکاح ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ جناب نبی کریمؐ نے زید بن حارثہؓ کو متبنیٰ بنایا تو لوگوں نے انہیں زید بن محمدؓ کہنا شروع کردیا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ضابطہ نازل کیا کہ یہ رواج ٹھیک نہیں ہے اس لیے جو اصل باپ ہے اسی کی طرف نسبت ہوگی اور اپنی طرف سے کسی کو باپ یا بیٹا بنا لینے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس پر نبی کریمؐ نے اعلان فرما دیا کہ آج کے بعد نہ کوئی زید کو زید بن محمدؐ کہے اور نہ کوئی مجھے ابو زید کہے، وہ حارثہؓ کا بیٹا ہے اور میں اپنی اولاد کا باپ ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جناب نبی کریمؐ پر ضابطہ اور قانون نازل کیا اور اس طریقے سے نازل کیا کہ آپؐ کے ذریعے عرب کا یہ رواج توڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے جناب نبی کریمؐ کے ساتھ حضرت زید بن حارثہؓ کی مطلقہ بیوی حضرت زینبؓ کا نکاح کروایا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے ’’فلما قضٰی زید منھا وطرًا زوّجنٰکھا لکیلا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیآءھم‘‘ (سورۃ الاحزاب ۳۷) اور جب زید اس سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے آپؐ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ سمجھا جائے۔ جناب نبی کریمؐ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا کہ محمد اللہ کے رسول اور نمائندے ہیں لیکن وہ بھی ہمارے قانون اور ضابطے کے پابند ہیں۔

اُمراء کے لیے الگ مجلس

ایک مرتبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے، آپؐ کی مجلس میں حضرت بلال، عمار بن یاسر، زید بن حارثہ اور عبد اللہ بن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ مکہ مکرمہ میں قریش کے ساتھ مخالفت کے عروج کا زمانہ تھا، ابو طالب ابھی زندہ تھے۔ کچھ قریشی سردار اکٹھے ہو کر نبی کریمؐ کے پاس آئے، ان میں عتبہ اور شیبہ وغیرہ کا نام بھی آتا ہے، کہنے لگے کہ جناب ہم آپ کی بات سننا چاہتے ہیں لیکن آپ کی مجلس میں یہ جو غریب لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں ہم آپ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ حضورؐ کے ابتدائی ساتھی معاشرے کے یہی کمزور لوگ تھے۔ قریش کے سرداروں نے کہا کہ جناب ہم آپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن آپ کے ان ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنا ہمارے معاشرتی مقام کے خلاف ہے، آپ انہیں اپنی مجلس سے اٹھا دیں اور ہمارے ساتھ الگ مجلس کریں پھر ہم آپ کی بات سن لیں گے۔ جناب نبی کریمؐ نے جواب دیا کہ ہم اس بارے میں مشورہ کر کے آپ کو بتائیں گے، نبی کریمؐ نے اثبات یا نفی میں جواب نہیں دیا۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس بارے میں مشورہ بھی کیا، حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں ان کی اِس شرط کو قبول کر کے بات چیت کر لینی چاہیے، ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی سردار مسلمان ہو جائے تو اس سے ہم مسلمانوں کو فائدہ ہوگا۔ ابھی یہ مشاورت ہو رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرما دیا ’’ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدوٰۃ والعشی یریدون وجھہ ما علیک من حسابھم من شیء وما من حسابک علیھم من شیء فتطردھم فتکون من الظالمین‘‘ (سورۃ الانعام ۵۲) اور جو لوگ اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں انہیں آپ اپنے سے دور نہ کریں جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں، نہ آپ کے ذمے ان کا کوئی حساب ہے اور نہ ان کے ذمے آپ کا کوئی حساب ہے، اگر آپ نے انہیں اپنے سے دور ہٹایا تو آپ بے انصافوں میں سے ہوں گے۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ اگر آپؐ نے اِن بڑوں کی خاطر اپنے کمزور ساتھیوں کو اپنی مجلس سے اٹھا دیا ’’فتکون من الظالمین‘‘ تو ہمارے ہاں آپ کا شمار بھی ظالموں میں ہوگا۔ جناب نبی کریمؐ جو ابھی اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر رہے تھے اور ابھی آپؐ نے اپنا ذہن واضح نہیں کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرما دیا کہ جناب اِن امراء کی معاشرتی امتیاز برقرار رکھنے کی یہ منشا پوری نہیں ہوگی۔ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں ہزاروں حکمتیں ہوتی ہیں، اور اِس فیصلے میں بھی بہت سی حکمتیں ہوں گی۔ اس بارے میں ایک حکمت ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ اگر اس وقت رسول اللہؐ چند لمحوں کے لیے یہ مجلس الگ کر لیتے تو قیامت تک امیروں کی مجلسیں غریبوں کی مجلسوں سے الگ ہو جاتیں، اگرچہ یہ ایک وقتی بات ہوتی لیکن بعد میں آنے والے سرداروں اور امراء کو یہ جواز مل جاتا اور پھر کوئی بڑا کسی غریب کو اپنے پاس نہ بیٹھنے دیتا۔

اللہ تعالیٰ نے ایک ضابطہ نازل فرمایا اور نبی کریمؐ کو اس ضابطے کا پابند کیا، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم نے اپنے پیغمبر کو قانون اور ضابطے کے دائرے میں رکھا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت کی تعلیم کے پیش نظر حضورؐ کے ذہن میں کبھی کوئی ایسی بات آئی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرما دیا کہ جناب معاملہ ویسے نہیں ہوگا جیسے آپ سوچ رہے ہیں بلکہ ہمارے حکم کے مطابق ہوگا، یا پھر اگر اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے کسی ایسے فیصلے کو قبولیت بخشی بھی تو تنبیہ کر دی کہ معاملہ اگر دوسرے طریقے سے ہوتا تو بہتر تھا۔ جیسے جناب نبی کریمؐ نے غزوۂ بدر کے موقع پر فدیہ لے کر قیدیوں کی رہائی کا جو فیصلہ کیا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے تو اس پر عملدرآمد کر لیں لیکن اصل فیصلہ وہ ہوتا جس کے لیے حضرت عمرؓ نے رائے دی تھی۔

حضورؐ کی شہد کے استعمال نہ کرنے کی قسم

اسی طرح شہد کے معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں آج کے بعد شہد استعمال نہیں کروں گا۔ حضورؐ نے امت کے لیے شہد کو حرام قرار نہیں دیا تھا صرف اپنی ذات کے لیے اس کا استعمال منع فرمایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے بارے میں کس انداز سے ذکر فرمایا ’’یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور الرحیم۔ قد فرض اللہ لکم تحلت ایمانکم واللہ مولاکم وھو العلیم الحکیم‘‘ (سورۃ التحریم ۱۔۲) کہ اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ اللہ نے آپ کے لیے اپنی قسموں کا توڑ دینا فرض کر دیا ہے اور اللہ ہی آپ کا مالک ہے اور وہی سب کا جاننے والا ،حکمت والا ہے۔ یعنی اللہ رب العزت نے فرمایا کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا ہمارا کام ہے، آپ ایسی چیز کو اپنے لیے کیوں حرام کر رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے، اس لیے اللہ آپ کے لیے اس بات کو فرض کر رہا ہے کہ آپ قسم توڑیں، شہد کھائیں اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کریں۔ چنانچہ رسول اللہؐ نے قسم توڑی، شہد کھایا، اور قسم توڑنے کا کفارہ ادا کیا۔ اس واقعے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لیے یہ تعلیم ہے کہ اللہ کا رسول کہتے ہی اسے ہیں جو اللہ کے احکامات کا پابند ہو۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ جناب نبی کریمؐ ہمارے رسول ہیں اور دین کے معاملے میں تمہارے لیے آخری اتھارٹی اسی لیے ہیں کہ وہ ہمارے قانون اور ضابطے کے پابند ہیں۔

اس طرح کے اور بھی واقعات ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ان واقعات میں حکمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تکوینی نظام کے تحت اس بات کی تعلیم کا اہتمام فرمایا کہ خود رسول اللہؐ کی ذاتِ گرامی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے اپنے طرزِ عمل سے قانون کی پابندی کا یہ تصور دیا کہ عام آدمی تو ایک طرف، افضل الانبیاء حضرت محمد رسول اللہؐ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کیے گئے قانون اور ضابطے کے پابند ہیں۔

حدودِ شرعیہ کا نفاذ

حدود کہتے ہیں ان سزاؤں کو جو قرآن کریم نے متعین بیان فرما دی ہیں مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے،شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار ہے جبکہ غیر شادی شدہ کی سزا کوڑے مارنا ہے، کسی پر بدکاری کی تہمت لگانے کی سزا قذف ہے، اور شراب کی سزا اِجماع امت سے متعین ہے۔ جو جرائم حدودِ شرعیہ کے دائرے میں آتے ہیں ان کے متعلق عدالت میں قاضی جرم کے ثابت ہونے یا نہ ہونے پر تو بحث کر سکتا ہے لیکن جب جرم ثابت ہو جائے تو پھر قاضی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ سزا معاف کر سکے یا سزا میں کمی بیشی کر سکے۔ حد کا معنٰی ہی یہ ہے کہ یہ معاملہ طے شدہ ہے۔ جج کے سامنے مقدمہ آئے گا تو جج اس بات کی تفتیش تو کرے گا کہ یہ جرم واقع ہوا ہے یا نہیں، لیکن جب جرم ثابت ہو جاتا ہے تو پھر سزا کے دینے میں جج کا کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا، وہ سزا بہرحال وہی دے گا جو قرآن کریم میں متعین کی گئی ہے۔

نسائی شریف میں ہے کہ حضرت صفوان بن امیہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے چوری کی، ہم نے اسے پکڑ کر پہلے تو خود لعن طعن کی اور پھر جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں پیش کیا کہ یا رسول اللہؐ اس نے چوری کی ہے، اس سے پوچھا گیا تو وہ مان گیا کہ ہاں میں نے چوری کی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو، جب ہاتھ کٹنے کا وقت آیا تو جس شخص کی چوری ہوئی تھی اس نے کہا کہ یا رسول اللہؐ میں اسے معاف کرتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ چور کو میرے پاس لانے سے پہلے پہلے معاف ہو سکتا تھا لیکن اب یہ نہیں ہو سکتا۔ حضورؐ کی تعلیم یہی ہے کہ جب کوئی مجرم پکڑا جائے تو قاضی کی عدالت میں پہنچنے سے پہلے پہلے آپس میں معاملہ رفع دفع کر لیا جائے تاکہ اسے اتنی بڑی سزا نہ ملے۔ لیکن اگر مجرم قاضی کی عدالت میں پہنچ جاتا ہے اور اس پر ایسا جرم ثابت ہو جاتا ہے جو حدود اللہ سے متعلق ہے تو پھر اس کے بعد سزا میں کمی بیشی یا سزا کے معاف کر دینے میں کسی کا اختیار نہیں رہتا۔

ایک اور مشہور واقعہ جو تاریخ میں مذکور ہے کہ بنو مخزوم کی فاطمہ نامی ایک خاتون نے چوری کی، اس کا جرم ثابت ہوگیا، رسول اللہؐ کی عدالت میں مقدمہ گیا ۔ بنو مخزوم عرب کے معروف اور باعزت قبائل میں سے تھا، ان کے لیے یہ عزت کا مسئلہ بن گیا کہ ہمارے قبیلے کی خاتون کا ہاتھ کٹے گا تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ یہ خاتون سزا سے بچ جائے، کسی نے مشورہ دیا کہ رسول اللہؐ سے اس کے متعلق سفارش کی جائے، اور سفارش کے لیے نبی کریمؐ کے کسی قریبی ساتھی سے بات کی جائے۔ نبی کریمؐ کے اس وقت سب سے زیادہ چہیتے حضرت اسامہ بن زیدؓتھے، یہ زید بن حارثہؓ کے بیٹے تھے جنہیں کسی وقت حضورؐ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، اس لحاظ سے یہ آپؐ کے پوتے لگتے تھے۔ ان کا لقب ہی حب رسول اللہ تھا یعنی رسول اللہؐ کے محبوب نوجوان۔ مشورہ ہوا کہ اسامہ بن زیدؓ سے بات کی جائے کہ وہ حضورؐ سے سزا کی معافی کے بارے میں سفارش کریں، اس وقت اُسامہ پندرہ سترہ برس کے نو عمر نوجوان تھے، اسامہؓ سے بات ہوئی تو اسامہ اِس کام کے لیے تیار ہوگئے۔ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضورؐ آرام فرما رہے تھے، بیٹھ کر ٹانگیں دبانا شروع کیں اور پھر گفتگو کا آغاز کیا۔ یا رسول اللہؐ ایک گزارش کرنے آیا ہوں بنو مخزوم کی فاطمہ کا مقدمہ آپ کے پاس ہے، آپؐ نے فرمایا، ہاں۔ اسامہؓ نے پوچھا آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ فرمایا ہے؟ فرمایا، ہاں۔ یا رسول اللہؐ وہ عزت والا خاندان ہے اِس سے اس خاندان کی بہت بدنامی ہوگی۔ رسول اللہؐ جو لیٹے ہوئے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اسامہ! ’’أتشفع فی حد من حدود اللّٰہ‘‘ کہ اللہ کے قانون کے بارے میں سفارش کرتے ہو؟ آپؐ مسجد میں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ لوگوں کو بلاؤ، لوگ اکٹھے ہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ تم لوگ سفارشیں تلاش کرتے ہو؟ تمہیں اس کا علم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے اور قانون کیسے ہیں؟ تم لوگ خدا کے قانون اور حدود کو نہیں سمجھتے؟ فرمایا ’’والذی نفس محمد بیدہ‘‘ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے ’’لو سرقت فاطمۃ بنت محمد لقطعت یدھا او کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی اس کا ہاتھ بھی کٹے گا۔

آپ نے اس معاملے کی شدت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹوں گا اس لیے کہ خدا کے ضابطوں میں سفارش نہیں چلتی اور اللہ کے قانون میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ جناب نبی کریمؐ نے قانون اور ضابطے کی پابندی کا یہ تصور دیا کہ جو بات اللہ تعالیٰ نے طے کر دی ہے اسے تبدیل کرنے کا اختیار اللہ کے پیغمبر کے پاس بھی نہیں ہے، جب اللہ کے ضابطوں میں اللہ کے پیغمبر کا اختیار نہیں ہے تو اور کس کو مجال ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت

حضراتِ خلفائے راشدینؓ نے جس انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے قانون کی بالادستی کو اپنے عمل کے ساتھ مستحکم کیا، تاریخ ایسے بے مثال واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا معمول یہ تھا کہ صبح مسجد میں آکر تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے اور پھر فجر کے لیے مسجد میں ہی انتظار کیا کرتے تھے۔ ایک دن حسبِ معمول صبح مسجد کی طرف نکلے، قاتل گھات میں بیٹھا تھا، اس نے موقع تاک کر حضرت علیؓ پر وار کر دیا۔ حضرت علیؓ کو شدید زخمی حالت میں ان کے گھر لے جایا گیا، بڑے بیٹے حضرت حسنؓ جو حضرت علیؓ کے جانشین بھی ہوئے اور پھر جناب نبی کریمؐ کی پیشین گوئی کے مطابق انہوں نے امت کے دو بڑے طبقوں میں صلح کروا کر امت کو متحد بھی کیا۔ ان کے سامنے ان کا باپ زخمی حالت میں پڑا تھا اور موت کے آثار نمایاں تھے۔ ایسی صورت حال میں اولاد سے زیادہ غصہ کس کو ہوگا؟ حضرت حسنؓ نے طیش اور غصے میں یہ بات کہی کہ امیر المؤمنین اِس قاتل کو تو میں اپنے ہاتھ سے قتل کرنے جاتا ہوں۔ حضرت علیؓ جو زخمی حالت میں تھے، موت سامنے نظر آرہی تھی لیکن فرمایا، حسن! جب تک میں زندہ ہوں وہ قاتل نہیں ہے، اس لیے اگر اسے مارو گے تو تم خود قاتل بنو گے، لیکن اگر میں مر گیا تو میرے مرنے کے بعد جو نئے امیرالمؤمنین ہوں گے، یہ ان کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس قاتل کو سزا دیں۔

اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حضرت علیؓ زندگی و موت کی کشمکش میں بھی اِس قدر حاضر دماغی کے ساتھ ضابطے اور قانون کی بات فرما رہے ہیں کہ جب تک میں زندہ ہوں وہ شخص قاتل نہیں ہے اور میرے شہید ہونے کی صورت میں جو نیا امیرالمؤمنین بنے گا، یہ اس کا کام ہے کہ وہ قاتل کو اس کے کیفرِ کردار تک پہنچا دے۔ چنانچہ اپنے بیٹے سے فرمایا کہ تمہیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ تم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس شخص کو قتل کر دو۔ یہ ان مثالوں میں سے ایک مثال ہے جو جناب نبی کریمؐ کے خلفاء نے قائم کیں اور دنیا کو بتایا کہ قانون کی بالادستی کسے کہتے ہیں۔

حضرت عثمان غنیؓ کا محاصرہ

امیر المؤمنین عثمان بن عفانؓ کا باغیوں نے محاصرہ کر رکھا تھا جبکہ اکثر صحابہ کرامؓ حج پر گئے ہوئے تھے، حضرت ابوہریرہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ امیر المؤمنین یہ چند سو باغی ہیں، آپ اپنے لشکر کو حکم دیں، دو تین گھنٹے میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔ حضرت عثمانؓ جن کے تابع پورا عرب تھا، ان کے زمانے میں تو بلوچستان اور کابل تک اسلامی سلطنت آگئی تھی۔ فرمایا، دیکھو ، رسول اللہؐ نے کسی مسلمان کے قتل کی اجازت تین صورتوں میں دی ہے۔ پہلی صورت یہ کہ وہ کسی کو قتل کرے تو قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا، دوسری صورت یہ ہے کہ مرتد ہو جائے تو اسے قتل کیا جائے گا، اور تیسری صورت یہ ہے کہ بغاوت کرے تو اس جرم میں اسے قتل کیا جائے گا۔ ابھی تک ان تین صورتوں میں سے کوئی ایک جرم بھی انہوں نے نہیں کیا اس لیے میں اس وقت تک کوئی اقدام نہیں اٹھاؤں گا اور کسی کو تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دوں گا جب تک میں شوریٰ والوں سے مشورہ کر کے ان کا جرم متعین نہیں کر لیتا۔ صورتحال یہ تھی کہ کھانا اور پانی تک بند تھا، باغی باہر سے کسی کو اندر نہیں آنے دے رہے تھے، چھپ چھپا کر کوئی اکا دکا آدمی اندر آجاتا تھا۔ سوال ہوا کہ حضرت اگر اِن باغیوں کے خلاف آپ نے تلوار نہیں اٹھانی تو پھر ان کا مطالبہ تسلیم کریں۔ فرمایا، یہ بھی نہیں کر سکتا۔ رسول اللہؐ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ عثمان! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائیں گے، لوگ زبردستی اسے اتارنا چاہیں گے، لیکن تم نہ اتارنا۔ فرمایا، میں نہ رسول اللہؐ کی نافرمانی کروں گا اور نہ اپنی زندگی میں کسی مسلمان کے خلاف تلوار اٹھاؤں گا۔

میں عرض کر رہا تھا کہ اسلام کا سیاسی نظام خلافت ہے نہ کہ پاپائیت یا تھیا کریسی۔ جناب نبی کریمؐ اور آپؐ کے خلفاء نے قانون اور ضابطے کو اپنی ذات پر مقدم رکھنے کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ جن کی روشنی میں اسلامی نظام کو تھیا کریسی قرار دینے والوں کو بے انصاف کہے بغیر چارہ نہیں۔

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا احتساب

امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ تابعین میں سے تھے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت عمر فاروقؓ کا پَرتو تھے، انہوں نے واقعی حضرت عمرؓ کی یاد تازہ کر دی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد انہوں نے حکومتی نظام میں بہت سی اصلاحات کیں، مورخین کہتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیزؒ جب مدینہ کے گورنر تھے تب مدینہ سے دمشق جاتے ہوئے ان کا ذاتی سامان ایک سو اونٹوں پر لدا ہوتا تھا، جو لباس صبح کے وقت پہنتے تھے، شام کے وقت نہیں پہنتے تھے، جو خوشبو وہ استعمال کرتے تھے بڑے بڑے امراء کو نصیب نہیں ہوتی تھی۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ایسی شہزادگی کا دور بھی گزارا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا کیسے پلٹی اور امیر المؤمنین بننے کے بعد انہوں نے کیا فیصلے کیے؟ ان کی اہلیہ فاطمہ بنت عبد الملکؒ تھی جو کہ خود بھی ایک بڑے اموی خلیفہ کی بیٹی تھی، اس کا گھر سامان اور زیورات سے بھرا پڑا تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خلیفہ بننے کے بعد گھر آئے اور آکر اپنی اہلیہ سے کہا کہ فاطمہ! بات سنو، مجھ سے پہلے خلیفہ نے مجھے نامزد کیا تھا اور اب لوگوں نے میری بیعت کر لی ہے، میں لوگوں پر امیر بنا دیا گیا ہوں، امیر المؤمنین کی حیثیت سے جو اقدامات مجھے کرنے ہیں، ان کی ابتداء میں اپنے گھر سے کر رہاہوں۔ یہ جو تمہارے گھر میں سامان پڑا ہے، یہ کپڑے، یہ زیورات، یہ فرنیچر، یہ سب تمہارے ذاتی پیسوں سے نہیں آئے، یہ تمہارے باپ اور بھائیوں نے تحفے میں دیا تھا، لیکن یہ سب بیت المال کا سامان ہے، مجھے سب سے پہلے بیت المال کی چیزیں بیت المال کو واپس بھجوانی ہیں۔ اپنی اہلیہ سے کہا کہ فاطمہؓ دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لو، اگر یہ سامان رکھنا ہے تو میں اس گھر میں نہیں رہوں گا، اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو ان میں سے ایک ایک چیز واپس کرنا ہوگی۔

فاطمہ بنت عبد الملکؓ ایک سمجھدار خاتون تھی، اس نے کہا کہ امیر المؤمنین ! میرا زیور بھی آپ ہیں اور میرا لباس بھی آپ ہیں۔ تاریخ نے پہلی بار دیکھا ہوگا کہ کسی شخص نے حکمران بننے کے بعد گھر میں سامان لانے کے بجائے گھر کا سامان باہر نکال دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ فاطمہ بنت عبد الملکؓ کے پاس بدن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ بچا، اس اللہ کی بندی نے بھی باقی کی زندگی اسی طرح گزاری جس طرح عمر بن عبد العزیزؒ نے گزاری، ورنہ جس عورت نے ایک شہزادی کی زندگی گزاری ہو کیا وہ ایک لمحہ بھی ایسی زندگی سے محروم رہ سکتی ہے؟ اس کے بعد امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے سارے خاندان کو اکٹھا کیا کہ میں امیر المؤمنین بنادیا گیا ہوں، جس کسی کے پاس بیت المال کا کوئی بھی سامان ہے اسے وہ بیت المال کو واپس کرنا ہوگا، لیکن اس کی ابتداء انہوں نے اپنے گھر سے کی۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے تقریباً اڑھائی سال حکومت کی تھی کہ انہیں زہر پلا دیا گیا، لیکن انہوں نے ایک بار پھر حضرت عمر فاروقؓ کے دور کی یاد تازہ کر دی تھی کہ انصاف کی حکومت کسے کہتے ہیں اور خلافت کا نظام کیسا ہوتا ہے۔

حضرت معاویہؓ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ

ہم تاریخ میں جب خلفاء کا ذکر کرتے ہیں تو نرمی کے دور کا آغاز حضرت معاویہؓ سے کرتے ہیں۔ خلفاء راشدین کا زمانہ تو بہت اعلیٰ معیار کا زمانہ تھا اس لیے حضرت معاویہؓ کی حکومت کو خلفائے راشدین کے مقابلے میں نرم حکومت کہا جاتا ہے، ایسی حکومت جس کی بنیاد رخصتوں پر تھی۔حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں دو سپر طاقتیں تھیں، ایک دمشق اور دوسری روم۔ ایک طرف قسطنطنیہ کے علاقوں میں قیصرِ روم کی بڑی طاقت تھی، دوسری طرف اسلامی سلطنت تھی جس کا دارالحکومت دمشق تھا۔ حضرت معاویہؓ مسلمانوں کے متفقہ امیر تھے اور بڑے ذہین سیاست دان تھے، انہیں عرب کے چوٹی کے مدبرین میں شمار کیا جاتا ہے، بڑے ٹھنڈے، دھیمے اور سمجھدار آدمی تھے، انہوں نے ہی رومیوں کے خلاف پہلی جنگ لڑی۔

ترمذی شریف کی روایت ہے کہ ایک موقع پر قیصرِ روم کے ساتھ حضرت معاویہؓ کا ایک معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ تھا، جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کا وقت قریب آیا تو حضرت معاویہؓ نے دمشق سے لشکر تیار کیا اور سرحد کی طرف چل دیے، منصوبہ یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے لشکر لے کر سرحد پر پہنچ جائیں اور جیسے ہی مدت ختم ہو رومیوں پر چڑھائی کر دیں۔ اپنے ملک میں تو نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی، چنانچہ حضرت معاویہؓ اپنی کمان میں ہزاروں کا لشکر ساتھ لیے سرحد کی طرف رواں دواں تھے، ابھی چند دن کا سفر طے ہوا تھا کہ دیکھا کہ ایک آدمی دمشق کی طرف سے سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے آرہا تھا۔ اس زمانے میں غیر معمولی طور پر اہم خبریں تیز رفتار گھڑ سواروں کے ذریعے پہنچائی جاتی تھیں۔جب قریب آئے تو وہ عمر وبن عبسۃؓ تھے۔ حضرت عمرو بن عبسۃؓ بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ وہ آواز دیتے آرہے تھے ’’معاویہ وفاء لا غدر، معاویہ وفاء لا غدر‘‘ کہ معاویہ! وفا کرنی چاہیے، غدر نہیں کرنا چاہیے، معاویہ! معاہدہ پورا کرنا چاہیے، توڑنا نہیں چاہیے۔ جب قریب پہنچے تو حضرت معاویہؓ نے پہلے تو حال احوال پوچھا، پھر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ حضرت عمروؓ نے پوچھا کہ کیا آپ کا قیصرِ روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہے؟ جواب ملا، معاہدہ تو ہے۔ پوچھا، کیا مدت ختم ہوگئی ہے؟ بتایا، نہیں ابھی تو مدت ختم نہیں ہوئی۔ حضرت معاویہؓ نے فرمایا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ مدت ختم ہونے سے قبل لڑائی نہیں کروں گا، میرا مقصد تو صرف یہ ہے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے تک لشکر لے کر سرحد پر پہنچ جاؤں۔ حضرت عمروؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے کہ جب تمہارا کسی قوم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہو تو معاہدے کی مدت ختم ہونے تک اپنی فوجوں کو مرکز سے حرکت مت دو۔ حضرت معاویہؓ چونک پڑے اور پوچھا کیا آپ نے خود سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے ان کانوں نے سنا ہے ، میرے دل نے اس بات کو محفوظ رکھا ہے۔ ۔حضرت معاویہؓ نے لشکر کو حکم دیا کہ واپس دمشق چلو کہ اب کسی چال، کسی تدبیر، اور کسی حکمت عملی کی کوئی حیثیت نہیں اس لیے کہ رسول اللہؐ کا حکم سامنے آگیا ہے ، چنانچہ سب انہی قدموں پر دمشق واپس آگئے۔

’’خلافت‘‘ پاپائیت یا تھیا کریسی نہیں ہے

اسلام کے سیاسی نظام کا نام خلافت ہے اور خلافت حکمرانی کا نہیں بلکہ ذمہ داری کا نام ہے، اسلام میں پاپائیت کا تصور نہیں ہے کہ خلیفہ جو بات کہہ دے وہی حرفِ آخر ہے۔ خلافت کے نظام میں خلیفہ آخری اتھارٹی ہے لیکن وہ بھی ضابطے کا پابند ہے اور اس کے گرد بھی قانون کا حصار ہے۔ خلیفہ کا معنٰی کیا ہے؟ خلیفہ کا لفظی معنٰی ’’نائب‘‘ کا ہے اور نائب کے اپنے کوئی اختیارات نہیں ہوتے بلکہ وہ جس کا نائب ہوتا ہے اس کی بات لے کر آگے بڑھتا ہے۔ آج یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام تھیا کریسی ہے اور مسلمان خلافت اور خدا کی نمائندگی کے نام پر دنیا بھر میں مذہب کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ خلیفہ کسے کہتے ہیں؟ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو آپ کا لقب ’’خلیفۃ رسول اللّٰہ‘‘ تھا یعنی اللہ کے رسول کے خلیفہ۔ حضرت عمر فاروقؓ جب خلیفہ بنے تو ان کا لقب ہوا ’’خلیفۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ‘‘ یعنی رسول اللہؐ کے خلیفہ کے خلیفہ۔ ابتدائی چند دن تو یہی کہا جاتا رہا یا خلیفۃ خلیفۃ رسول اللّٰہ لیکن پھر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ یہ کیا بات ہوئی اس طرح تو اگلے خلیفہ کے ساتھ تین دفعہ ’’خلیفہ‘‘ آئے گا۔ ایک دن حضرت عمرؓ کو حضرت عمرو بن العاصؓ نے ’’یا امیر المومنین‘‘ کہہ کر پکارا تو حضرت عمرؓ نے اس خطاب کو پسند کیا چنانچہ اس کے بعد سے اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے امیر المؤمنین کی اصطلاح رائج ہوگئی۔

حضرت صدیق اکبرؓ   جنہیں خلیفۃ رسول اللہ کہا جاتا تھا، ایک دن ایک صحابی نے حضرت صدیق اکبرؓ سے کہہ دیا ’’یا خلیفۃ اللّٰہ‘‘ اے اللہ کے خلیفہ۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا ’’لست بخلیفۃ اللّٰہ انا خلیفۃ رسول اللّٰہ‘‘ میں اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں بلکہ میں رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے تو اس ایک جملے سے تھیاکریسی کا قصہ صاف کر دیا تھا۔ اللہ کے خلیفہ ہونے کا تصور کیا ہے؟ یہی کہ میں خدا کا خلیفہ ہوں میرے ساتھ خدا کا براہ راست تعلق ہے اور میری جو بات بھی ہے در اصل خدا ہی کی بات ہے۔ فرمایا کہ انبیاء خدا کے خلیفہ تھے، حضرات انبیاء علیہم الصلواۃ والتسلیمات خدا کی خلافت کرتے تھے، میں خدا کا نہیں بلکہ رسول اللہ کا خلیفہ ہوں۔ رسول اللہؐ جو متعین حدود و قوانین اور ضوابط دے کر گئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں اور ایسا کوئی معاملہ نہیں بچا کہ جس کے متعلق خلیفہ خدا سے پوچھ کر بتائے، اس لیے ہم یہ گنجائش نہیں رکھنا چاہتے کہ کوئی خلیفہ یہ بات کہہ سکے میں خدا کا نائب اور خلیفہ ہوں۔

چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ نے ایک جملے کے ساتھ ساری بات صاف کر دی کہ اسلام تھیا کریسی کا نام نہیں ہے اوراسلام کے حکومتی نظام خلافت میں پاپائیت کا اور خدا کی نیابت میں حکومت کرنے کا تصور نہیں ہے، اسلام میں خلافت قانون کی بالادستی کا نام ہے، جس طرح ایک عام آدمی قانون کا پابند ہے اسی طرح ایک خلیفہ بھی قانون کا پابند ہے۔ عام آدمی خلاف ورزی کرے گا تو خلیفہ پکڑے گا جبکہ خلیفہ خلاف ورزی کرے گا تو ایک عام آدمی پکڑے گا، دونوں ایک دوسرے کے محتسب ہیں۔ جناب رسول اللہؐ نے خود بھی قانون کی بالادستی کی حکومت قائم کی اور قانون کی بالادستی کا ایک نظام دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس لیے اسلام کے بارے میں یہ بات کہنا نا انصافی ہے کہ اسلام پاپائیت ہے۔اسلام میں جس طرح ایک عام آدمی ضابطے اور قانون کا پابند ہے اسی طرح ایک حکمران حتیٰ کہ اللہ کے رسول بھی ضابطے کے پابند ہیں۔

2016ء سے
Flag Counter