کراچی میں تین دن

   
۶ مئی ۲۰۱۵ء

تین دن کراچی میں گزار کر آج ۵ مئی کو سکھر، لاڑکانہ اور خیرپور کے لئے روانہ ہو رہا ہوں۔ جامعہ اسلامیہ کلفٹن، جامعہ انوار القرآن، آدم ٹاؤن میں ختم بخاری شریف اور دستار بندی کی سالانہ تقریبات میں شرکت کے لئے حاضری ہوئی تھی۔ ۲ مئی کو جامعہ اسلامیہ کی تقریب ہوئی جو نماز مغرب کے بعد شروع ہو کر کم و بیش نصف شب تک جاری رہی۔ حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد آف کندیاں شریف مہمان خصوصی تھے جبکہ جامعہ کے اساتذہ کے علاوہ مولانا عبدالقیوم حقانی اور راقم الحروف نے تفصیلی خطابات کئے۔ ۳ مئی کو جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن کی تقریب عصر کے بعد شروع ہوئی اور نصف شب کے لگ بھگ اختتام پذیر ہوئی۔ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے دورۂ حدیث کے طلبہ کو بخاری شریف کا آخری سبق پڑھایا اور راقم الحروف نے دینی علوم کی اہمیت اور تقاضوں کے حوالے سے گفتگو کی۔

دونوں تقریباً رات کو ہوئیں، کافی عرصہ کے بعد کراچی میں رات کی بارونق تقریبات دیکھ کر خوشی ہوئی اور اطمینان ہوا کہ کراچی میں امن اور اعتماد کی بحالی کا عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ ۴ مئی کو مولانا فداء الرحمن درخواستی نے جامعہ انوار القرآن میں صدر مملکت کی طرف سے راقم الحروف کو ملنے والے ’’تمغہ امتیاز‘‘ کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں مولانا قاری اللہ داد صدیقی، مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا عبید اللہ احرار اور مولانا خطیب عبدالرحمن نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ اس قسم کی تقریبات میرے لئے آزمائشیں بنتی جا رہی ہیں۔ مخلص دوستوں سے انکار بھی نہیں کرسکتا اور جو کچھ ان کے درمیان بیٹھ کر سننا پڑتا ہے وہ بھی ابتلا سے کم نہیں ہے۔ اس سے قبل چنیوٹ میں بزم خدام فکر اسلاف کی طرف سے، فیصل آباد میں ادارہ النور ٹرسٹ کے زیراہتمام اور سیالکوٹ کے ایک شادی ہال میں مولانا قاری عبداللطیف صدیقی اور ان کے فرزندان کی طرف سے ایسی تقریبات منعقد ہوئی ہیں جبکہ اپنے شہر گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہلسنّت کے صدر حاجی عثمانی عمر ہاشمی اور ان کے رفقاء کی اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کو مسلسل ٹالتا جا رہا ہوں بلکہ بہت سے دیگر شہروں کے احباب سے بھی معذرت کرنا پڑی ہے۔ دراصل مدح و ذم کے باب میں جس قسم کی مبالغہ آرائی کا ہمارے ہاں عام طور پر مزاج بن گیا ہے اس سے ڈر لگتا ہے اور بقول مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ اب دونوں الفاظ کا کوئی مفہوم بھی باقی نہیں رہ گیا، ویسے بھی دوستوں کے تقاضوں کو پورا کرنا میرے بس میں نہیں ہے اس لئے کہ نصف مئی تک کے اوقات کی ترتیب پہلے سے طے ہے اور ۲۵ مئی سے ’’الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ‘‘ میں دورۂ تفسیر قرآن کریم اور دیگر متعلقہ محاضرات کا کورس شروع ہو رہا ہے جو نصف رمضان تک جاری رہے گا اور اس میں مجھے بھی تدریس کی خدمات مسلسل سرانجام دینا ہوں گی، ان شاء اللہ۔ اس دوران شہر سے باہر دور کا سفر میرے لئے ممکن نہیں ہوگا اس لئے دوستوں سے یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ میرے خیال میں جو کچھ ہو چکا ہے وہ کافی ہے اور اسے مزید بڑھانا مناسب نہیں ہے۔اس دوران مختلف محافل میں بزرگوں اور دوستوں سے بہت کچھ سننا پڑا جس کے جواب میں دو گزارشات میں نے کیں۔ ایک یہ کہ دوستوں کو اگر خیر کا کوئی پہلو دکھائی دے رہا ہے تو اس میں ہمارا کچھ نہیں ہے اور یہ سب کچھ ان بزرگوں کا فیض ہے جن کی صحبت و رفاقت کا شرف بحمد اللہ تعالیٰ نصف صدی تک حاصل رہا ہے، ہماری مثال اس پائپ لائن جیسی ہے جس میں سے کچھ بھی نکلتا نظر آتا ہے اس میں اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا جو بھی ہوتا ہے وہ کہیں اور سے گرتا ہے۔ ہم اگر پائپ لائن کا کام ہی مناسب طور پر کرلیں تو یہی ہمارے لئے سعادت اور نیک بختی کی بات ہے یا زیادہ سے زیادہ ریگستان میں دوپہر کے وقت سورج کی روشنی سے چمکنے والی ریت کے ان ذرات کی مثال دی جا سکتی ہے جو چمکتے ضرور ہیں لیکن یہ چمک ان کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی کا پرتو ہوتی ہے۔

دوسری بات میں نے ایک واقعہ کی صورت میں عرض کی کہ ایک دفعہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کو بھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا میرے سامنے کرنا پڑ گیا تھا، بہت سے دوست ان کی موجودگی میں ان کے بارے میں ایک اعزازی تقریب میں تعریف اور عقیدت کے جذبات کا اظہار کر رہے تھے اور میں وہاں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ مفتی صاحب ان باتوں پر کیا تبصرہ کریں گے؟ وہ تو فی الواقع ایسی مدح و تعریف کا صحیح محل بھی تھے لیکن سب سے آخر میں وہ جب کھڑے ہوئے تو انہوں نے دوچار جملوں میں ساری بات نمٹا دی۔ ان کا ارشاد تھا کہ آپ حضرات نے میرے بارے میں جن جذبات و تاثرات کا اظہار کیا ہے وہ دراصل آپ دوستوں کی توقعات ہیں جو ہم سے وابستہ ہوگئی ہیں، یہ آپ احباب کا حسن ظن ہے اور امیدیں ہیں اس لئے جہاں آپ حضرات اس حسن ظن اور توقعات کا اظہار کر رہے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں کا اہتمام بھی کریں کہ اللہ رب العزت ہمیں ویسا کردیں جیسا ہمارے دوست چاہتے ہیں۔ میں جن بزرگوں کا خوشہ چیں ہوں ان میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، اس لئے انہی کی زبانی میں احباب سے عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے ساتھ ساتھ نہیں بلکہ ان کی بجائے دعاؤں کی طرف توجہ دیں کہ اللہ رب العزت ہمیں مخلص دوستوں کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق دیں اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

اس موقع پر اپنی ایک محرومی کا تذکرہ بھی کرنا چاہوں گا کہ ۳ مئی کو اسی وقت جامعۃ الرشید کا سالانہ عظیم الشان اجتماع بھی ہوا رہا تھا جب میں جامعہ انوار القرآن کے پروگرام میں شریک تھا، اس کا مجھے کراچی پہنچ کر علم ہوا اور دعوت بھی موصول ہوئی بلکہ جامعۃ الرشید کی طرف سے ایک دوست لینے کے لئے بھی آئے مگر جامعہ انوار القرآن کا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا اور کسی طے شدہ پروگرام میں اچانک ردّوبدل میرے مزاج اور معمول کے خلاف ہے اس لئے دل پر پتھر رکھ کر معذرت کرنا پڑی البتہ جامعۃ الرشید کے سالانہ اجتماع کی شاندار کامیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ کے منتظمین، اساتذہ اور طلبہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ جامعہ کو مسلسل ترقیات و ثمرات سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter