جس روز محترمہ ہیلری کلنٹن لاہور تشریف لائیں، میں بھی اس روز لاہور میں تھا۔ ظہر کی نماز مسجد خضراء سمن آباد میں پڑھی، جہاں مجھے ورلڈ اسلامک فورم کے احباب کے ساتھ ایک مشاورت میں شریک ہونا تھا۔ پروفیسر عبد الماجد پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں استاد ہیں، ملتان کے معروف علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، حضرت سید نفیس شاہؒ کے خصوصی متعلقین میں سے ہیں، اچھے علمی و فکری ذوق سے بہرہ ور ہیں۔ گزشتہ سال لندن سے ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ لاہور تشریف لائے، جو حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ کے خلیفہ مجاز بھی ہیں، تو انہوں نے پاکستان میں ورلڈ اسلامک فورم کے حلقے کے قیام کا اعلان کیا اور پروفیسر عبد الماجد صاحب کو اس کا سیکرٹری بنا دیا۔
”ورلڈ اسلامک فورم“ ایک علمی و فکری فورم ہے، جس کا مقصد مسلمانوں میں فکری بیداری پیدا کرنا، خاص طور پر دینی حلقوں کو ملی و دینی جدوجہد کے حوالے سے آج کے حالات اور تقاضوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔ یہ فورم راقم الحروف نے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ اور دیگر دوستوں کے تعاون سے کم و بیش دو عشرے قبل لندن میں قائم کیا تھا، جس کے تحت برطانیہ، بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر ملکوں میں علمی و فکری سرگرمیوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ہم اپنی بساط کی حد تک اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ ایک عرصے تک راقم الحروف اس کا چیئرمین رہا اور مولانا محمد عیسیٰ منصوری سیکرٹری جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اب چند سال سے مولانا منصوری چیئرمین ہیں، مفتی برکت اللہ سیکرٹری جنرل ہیں اور مجھے انہوں نے سرپرست کا درجہ دے رکھا ہے۔
مفتی برکت اللہ کا تعلق بھارت سے ہے، ایک عرصے سے لندن میں قیام پذیر ہیں، اسلامی معیشت اور بینکاری کے ماہرین میں سے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، اسلامی فقہ پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں اور اس حیثیت سے اسلامی بینکاری کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ایک کالم میں اسلامی بینکاری کے حوالے سے لندن اور پیرس کے درمیان جاری کشمکش کا ذکر کیا گیا تھا، اس کی تفصیل مجھے مفتی برکت اللہ نے بتائی تھی، جو گزشتہ ہفتے اسی سلسلے میں ایک کانفرنس کے لیے پیرس گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ فرانس کی حکومت اسلامی بینکاری کے پروگرام کو آگے بڑھانے اور پیرس کو اس کا مرکز بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے، اس مقصد کے لیے فرانس کی حکومت نے اپنے بعض قوانین میں ترامیم کی منظوری بھی دی ہے۔
۲۹ اکتوبر کو لاہور اسی مشاورت کے سلسلے میں حاضری ہوئی اور طے پایا کہ پاکستان میں بھی ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں شروع کی جائیں گی۔ ان کا آغاز لاہور میں ماہانہ فکری نشست کی صورت میں کیا جائے گا اور پہلی نشست ۲۲ نومبر کو ہو گی، جس میں ”برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد معروضی حالات کی روشنی میں“ کے عنوان پر مقالہ پڑھنے کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی ہے۔
محترمہ ہیلری کلنٹن کا تذکرہ ان گزارشات کے آغاز میں اس لیے کرنا پڑا کہ میں تو جامع مسجد خضراء کے خطیب مولانا عبد الرؤف فاروقی کے ہمراہ جامعہ اسلامیہ کامونکی میں موٹر وے کے راستے ظہر تک مسجد خضراء میں پہنچ گیا، مگر پروفیسر عبد الماجد کو پہنچنے میں بہت دیر ہو گئی۔ ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہرایکسی لینس تشریف لائی ہوئی ہیں، لاہور کے بڑے راستے ان کے احترام میں بند ہیں اور وہ ایک جگہ ٹریفک کے ہجوم میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خاصے انتظار کے بعد خدا خدا کر کے وہ پہنچے تو ہم باہمی مشاورت کا کام شروع کر سکے۔ یہی تجربہ شام کو ایک اور محفل کے حوالے سے ہوا۔ گڑھی شاہو میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی کے دفتر میں مغرب کے بعد ”ملی مجلس شرعی“ کا اجلاس تھا، بہت سے حضرات تھوڑے تھوڑے وقفے سے پہنچ گئے، مگر اجلاس کے داعی پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کو پہنچنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ ان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ ٹریفک کے ہجوم میں پھنسے رہے۔
”ملی مجلس شرعی“ کا قیام گزشتہ سال ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ، مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور راقم الحروف کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ ملی مسائل و مشکلات میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام اور اربابِ دانش کی طرف سے اجتماعی موقف کا اظہار کیا جائے اور رائے عامہ کی رہنمائی کے لیے مشتر کہ علمی و فکری کاوشوں کا اہتمام ہو۔ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ اس کے کنوینر تھے، جس روز وہ شہادت سے ہمکنار ہوئے اس روز بھی انہوں نے شام کو اس کا اجلاس بلا رکھا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی جگہ نئے کنوینر کا انتخاب ہونا تھا اور معروضی صورت حال میں دینی حلقوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے باہمی مشاورت کی بھی ضرورت تھی، چنانچہ ۲۹ اکتوبر کو مغرب کے بعد تنظیم اسلامی کے دفتر میں سرکردہ علمائے کرام جمع ہوئے، جن میں مولانا مفتی محمد خان قادری، جناب خلیل الرحمٰن قادری، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، مولانا مفتی عبید اللہ عفیف، مولانا عبد الوہاب روپڑی اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں، جبکہ تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید اس مجلس کے میزبان اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اس کے داعی تھے۔
مجلس کا آغاز محترمہ ہیلری کلنٹن کے دورۂ لاہور کے تذکرہ سے ہوا اور مختلف احباب نے اپنے مشاہدات اور تاثرات کا ذکر کیا۔ اس دوران یہ بھی بتایا گیا کہ امریکی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں بری امامؒ کے مزار پر حاضری دی ہے اور لاہور میں داتا دربار پر حاضری دینے کا پروگرام بھی تھا، مگر عین وقت پر سیکیورٹی کے حوالے سے اسے ملتوی کر دیا گیا، اس پر مولانا مفتی محمد خان قادری نے دلچسپ تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیلری کلنٹن درباروں پر حاضری دے کر یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ امریکیوں کو ”صوفی اسلام“ سے کوئی پرخاش نہیں ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں، لیکن انہیں یہ مغالطہ ہے، اس لیے کہ وہ صوفیائے کرامؒ سے واقف نہیں ہیں۔ صوفیائے کرامؒ تو اسلامی تعلیمات کے فروغ اور ظلم و جبر کے مقابلے میں ایک پوری تاریخ رکھتے ہیں، اسلام دشمنوں کو ان سے کسی نرمی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
مجلس میں اگرچہ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ ملک میں اسلامائزیشن کے حوالے سے موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور عملی پیشرفت کے امکانات تلاش کیے جائیں، مگر مجموعی طور پر مجلس میں ہونے والی گفتگو پر قومی خود مختاری کے تحفظ، کیری لوگر بل اور ملکی معاملات میں روز افزوں امریکی مداخلت کے مسائل حاوی رہے۔ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے کہا، جس سے پوری مجلس نے اتفاق کیا، کہ پہلے امریکی غلامی سے نجات کا کوئی راستہ نکالیں اور اس سلسلے میں قوم کی رہنمائی کریں، نفاذِ شریعت کے مسائل بعد میں حل ہوتے رہیں گے۔ چنانچہ ملی مجلس شرعی کے اس اجلاس میں جو امور طے پائے، وہ درج ذیل ہیں:
- ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہیدؒ کی جگہ ملی مجلس شرعی کے کنوینر مولانا مفتی محمد خان قادری ہوں گے، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین بدستور سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔
- دستورِ پاکستان کا ازسرنو جائزہ لے کر اس میں ترامیم تجویز کرنے والی آئینی کمیٹی کو ملی مجلس شرعی کے موقف سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا جائے گا، جس کے اہم نکات یہ ہوں گے:
- دستور میں قرارداد مقاصد کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے۔
- اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کو مکمل کرنے کے لیے وقت متعین کیا جائے اور اس کی دستوری ضمانت دی جائے۔
- دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے قوانین سے کوئی تعرض نہ کیا جائے، اور
- پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانے کے لیے مؤثر دستوری اقدامات تجویز کیے جائیں۔
- دستور سازی اور نفاذِ شریعت کے لیے قیامِ پاکستان سے اب تک مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے بائیس دستوری نکات سمیت جو مشترکہ دستاویزات مختلف اوقات میں قوم کے سامنے پیش کی ہیں، ان سب کو جمع کر کے ان کا ایک جامع خلاصہ دینی مکاتب فکر کے متفقہ موقف کی صورت میں سامنے لایا جائے۔
- قومی خود مختاری کی بحالی اور غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے لیے سول سوسائٹی کو متحرک کرنے کی کوشش کی جائے اور مختلف طبقات کے حضرات سے رابطہ قائم کر کے امریکی غلامی سے نجات کی جدوجہد کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پیشرفت کی جائے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس سلسلے میں مختلف طبقات کے سرکردہ حضرات سے رابطہ کر کے ایک مشترکہ مشاورتی اجلاس کا اہتمام کریں، تاکہ باہمی مشاورت کے ساتھ اس مقصد کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔