مجھے وطنِ عزیز سے روانہ ہوئے پانچ ہفتے ہونے کو ہیں جبکہ ایک ہفتے تک واپسی کا پروگرام ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دینی مدارس میں شعبان اور رمضان المبارک کے دوران تعطیلات ہوتی ہیں اور میرے پاس اسی دوران بیرونی سفر کی گنجائش ہوتی ہے۔ بیرون ملک بھی سرگرمیاں وہی ہوتی ہیں جو ملک میں باقی سارا سال رہتی ہیں۔ دینی مدارس کے پروگراموں میں حاضری، تعلیمی مشاورت کی مجالس میں شرکت اور مساجد میں جمعۃ المبارک کے خطبات اور دروس وغیرہ۔ البتہ حاضری کا دائرہ کچھ وسیع ہو جاتا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ انڈیا اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے وہ حضرات بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں جو اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اس طرح قدرے وسیع ماحول میں بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
۱۲ جولائی کو لاہور سے روانہ ہوا تھا، دس روز سعودی عرب میں رہا اور ۲۲ جولائی کو نیویارک پہنچا جبکہ اپنے سفر کے آخری مرحلے میں اس وقت بروکلین کی معروف و مشہور ’’مکی مسجد‘‘ میں ہوں۔ ۱۹۸۷ء میں جب پہلی بار امریکہ آیا تو اسی مسجد سے دینی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا، کئی روز تک عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے تقاضوں پر نمازیوں کے سامنے گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد جب بھی امریکہ آنا ہوا مکی مسجد میں دو تین روز کے لیے حاضری لازم ٹھہری۔ عام طور پر سفر کے آخری تین چار روز یہاں گزارتا ہوں پھر وطن واپس روانہ ہو جاتا ہوں۔ یہ مسجد ۱۹۵۲ء میں ایک مکان خرید کر شروع کی گئی تھی اب اردگرد کے کئی مکان شامل کر کے وسیع مسجد تعمیر کی جا رہی ہے، چھت ڈالی جا چکی ہے اور باقی مراحل کا کام جاری ہے۔ میرپور آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد صابر صاحب مسجد کے خطیب و منتظم ہیں جو ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ اور صرف امام و خطب نہیں بلکہ کمیونٹی لیڈر بھی ہیں اور سرکاری حلقوں میں ان کی اس حیثیت کو تسلیم اور اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ مسلم کانفرنس سے خاندانی تعلق ہے اور مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت اور دیگر امور کے لیے بطور خاص سرگرم عمل رہتے ہیں۔
اس سے قبل ہیوسٹن، ڈیلس، بالٹیمور اور ڈیٹرائٹ کے علاوہ ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں مختلف دینی اداروں میں حاضری ہوئی اور مسلمانوں کے متعدد اجتماعات میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔ خطابات اور گفتگو متنوع عنوانات پر ہوتی رہی مگر ایک بات ہر جگہ مشترک تھی اور وہ سیلاب کے حوالے سے پاکستان کی غمناک صورتحال، جس کے بارے میں کم و بیش ہر ملنے والے نے دریافت کیا اور بے چینی اور اضطراب کا اظہار کیا۔ پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کی بے چینی اور کرب تو ظاہر ہے کہ ان کا وطن سیلاب اور طوفانی بارشوں کی زد میں ہے مگر انسانی ہمدردی اور مسلم بھائی چارے کے ناتے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تشویش و اضطراب بھی کم نہیں ہے۔ ہمدردی اور دکھ کے اظہار کے ساتھ ساتھ متاثرین کی امداد میں بھی سب لوگ اپنی اپنی استعداد اور توفیق کے مطابق حصہ لے رہے ہیں۔
گزشتہ روز حافظ صابر صاحب کے ہاں افطاری میں کچھ دوست شریک تھے، ایک صاحب نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اہلیہ سمیت عمرے کا پروگرام بنا رہے ہیں، مجلس میں شریک ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس عمرے پر خرچ آنے والی رقم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بھیج دیں اس کا ثواب انہیں زیادہ ملے گا۔ حافظ صاحب اور راقم الحروف نے بھی اس کی تائید کی نفلی عبادت پر مصیبت زدگان کی امداد مقدم ہے اور اس کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہے۔ اور آج کی خبروں میں یہ سن کر خوشی ہوئی کہ کراچی سے مولانا مفتی منیب الرحمان، مفتی ولی خان المظفر اور دیگر علماء کرام نے بھی یہ کہا ہے کہ نفلی عمرہ اور نفلی حج کی بجائے سیلاب زدگان کی امداد کو ترجیح دی جائے، ان کا حق زیادہ ہے اور اس میں اجر و ثواب بھی زیادہ ہے۔
ریاست الاباما کے شہر برمنگھم میں میرے پرانے دوست اور بچپن کے ساتھی افتخار رانا قیام پذیر ہیں، میں جب بھی امریکہ آتا ہوں مجھے ٹکٹ بھیج کر اپنے ہاں بلاتے ہیں، دو چار روز مہمان نوازی کرتے ہیں، گھماتے پھراتے ہیں اور خدمت بھی کرتے ہیں۔ اس بار انہوں نے فون پر بتایا کہ وہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور اس کو ترجیح دے رہے ہیں، مجھے اس پر بے حد خوشی ہوئی اور میں نے اس جذبے کو سراہا، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مگر امداد کے لیے سرگرم حضرات میں جذبے اور ذوق کے ساتھ ساتھ اس بات پر تشویش اور پریشانی بھی موجود ہے کہ کیا ان کی امداد مستحقین تک پہنچ پائے گی؟ نیویارک میں ہی ایک مسجد میں درس کے بعد ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ کا کوئی نیٹ ورک موجود ہے جس کے ذریعے امدادی رقوم متاثرین کو بھجوائی جا سکیں؟ میں نے عرض کیا کہ میرا براہ راست کسی ایسے نیٹ ورک سے تعلق نہیں ہے اس لیے میں یہ ذمہ داری قبول نہیں کر سکوں گا۔ آپ کسی بھی ذمہ دار ادارے کے ذریعے جو اس سلسلہ میں کام کر رہا ہے اور آپ کو اس پر اعتماد ہے رقوم بھیج دیں، امید ہے کہ مستحقین تک پہنچ جائیں گی۔ مستحقین تک امداد کی رقوم صحیح طور پرپہنچنے کے بارے میں اعتماد کی کمی بہت سے لوگوں میں تذبذب کا باعث بنی ہوئی ہے اور وہ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ اپنی امداد کو کس طرح صحیح لوگوں تک پہنچائیں۔
یہ صورتحال بین الاقوام سطح پر بھی موجود ہے۔ برطانوی ڈپٹی پرائم منسٹر نک کلیگ کا یہ بیان عالمی پریس کی زینت بنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کے حوالے سے عالمی برادری کا ردعمل مایوس کن ہے جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ شاید عالمی برادری کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا پوری طرح اندازہ نہیں ہے۔ مگر جنیوا سے اقوام متحدہ کی ایک اہل کار الزبتھ ہائرس کے اس بیان نے بات کا رخ دوسری طرف پھیر دیا ہے کہ ہم یہ بات نوٹ کر رہے ہیں کہ امدادی رقوم اور سامان کے مستحقین تک پہنچنے کے بارے میں پاکستان کا خراب تشخص عالمی سطح پر ضرورت کے مطابق امداد کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
بہرحال اس سلسلہ میں ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں مگر اس کے باوجود امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور مختلف اطراف میں پاکستانی کمیونٹی کے افراد اس سلسلہ میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ سیلاب جسے گزشتہ صدی کے دوران بدترین سیلاب سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کے ذرائع نے اس سے ہونی والی تباہی اور نقصانات کو سونامی سے ہونے والی تباہی سے بھی زیادہ بتایا ہے، اس کے اسباب پر بھی بحث ہو رہی ہے اور مختلف زاویوں سے لوگ اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات کا سامنا کرنا آج کے سائنٹیفک اور ترقی یافتہ دور میں بھی کسی ملک اور قوم کے بس میں نہیں ہے مگر زندہ قومیں اور منظم حکومتیں ان کے نقصانات کو کم سے کم کے دائرے میں رکھنے اور تباہی کے بعد جلد از جلد سنبھلنے کے لیے بہت کچھ کرتی ہیں اور کر سکتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے میں واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں تھا جہاں شام کو ایک دوست کے ہاں دعوت تھی مگر دن کو طوفان اور بارش نے ان کے علاقے میں بجلی کا نظام درہم برہم کر دیا۔ ان کا فون آیا کہ چار بجے سے پورے علاقے میں بجلی بند ہے اور بارش مسلسل ہو رہی ہے اس لیے یہ دعوت اب ان کے گھر میں نہیں بلکہ ریاسست میری لینڈ کے علاقے میں ان کے والد محترم کے گھر میں ہوگی۔ مجھے اس پر کوئی تعجب نہ ہوا اس لیے کہ آٹھ دس برس پہلے بھی واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں واقع دارالہدٰی میں دو روز تک موم بتیوں کی روشنی میں تراویح کی نماز پڑھ چکا ہوں، ان دنوں بھی شمالی ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی ہوائی طوفان کی زد میں تھے اور بعض علاقے مسلسل تین روز تک بجلی سے محروم رہے تھے۔ امریکہ میں طوفان بھی آتے ہیں، سیلاب بھی آتے ہیں اور زندگی کا نظام بھی بسا اوقات درہم برہم ہوجاتا ہے لیکن ذمہ دار حکومتیں اور منظم ادارے فورًا متحرک ہو جاتے ہیں اور نظام کی بحالی اور نقصانات کی تلافی میں چند روز سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔
سیلاب زدگان کی امداد کے لیے مختلف محکموں، اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اور سوال بھی یہاں کے مسلمانوں اور پاکستانیوں میں زیربحث ہے کہ متاثرہ علاقوں میں عملاً امدادی کام کرنے والے گروپوں میں وہ گروپ زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں جنہیں انتہاپسند سمجھا جاتا ہے اور کسی بھی حوالے سے ان کی معاشرتی سرگرمیوں کو عالمی سطح پر پسند نہیں کیا جاتا۔ ہزارہ اور کشمیر کے زلزلے کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ مذہبی جذبے سے کام کریں گے اور دنیا سے کسی ستائش کی طلب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصد قرار دیں گے ان کا کام بے لوث بھی ہوگا اور عملی طور پر زیادہ اور مؤثر بھی ہوگا۔ پاکستان میں امریکہ کی سفیر محترم نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ انتہا پسند گروپوں کی امدادی سرگرمیوں پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے البتہ اس بات پر تشویش ہے کہ انہیں نمایاں زیادہ کیا جا رہا ہے۔ گویا محترمہ کی خواہش یہ ہے کہ انتہا پسند گروپ کام تو کریں، خرچ بھی کریں، وقت بھی صرف کریں اور شب و روز محنت بھی کریں مگر ان کا میڈیا پر تذکرہ نہ ہو اور انہیں نمایاں نہ کیا جائے، خدا جانے اور اعتراض کسے کہتے ہیں؟
بہرحال امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی اپنے وطن عزیز میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاری پر تشویش و اضطراب سے دوچار ہے اور اپنے مظلوم بھائیوں کی امداد کے لیے بہت سے پاکستانی مسلسل کوشاں دکھائی دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ مزید ہمت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اس سلسلہ میں ایک اور گزارش بھی کرنا چاہتا ہوں کہ سیلاب زدہ بھائیوں کی مدد کرنا ہماری دینی و قومی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے مگر اس حوالہ سے اپنے معمول کی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہونا چاہیے،خصوصی طور پر مدارس دینیہ کے بارے میں توجہ کی ضرورت ہے۔ مدارس دینیہ آج کے حالات میں بین الاقوامی اور ملکی سطح پر جس دباؤ کا شکار ہیں اور مالی حالات کے حوالہ سے بھی بحران میں ہیں،اصحاب خیر اور اصحاب فکر و دانش کو اسے پیش نظر رکھنا چاہیے اور سیلاب زدگان کی مدد میں دینی مدارس کی ضروریات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے،دینی مدارس کا سال بھر کے اخراجات کا مدار رمضان المبارک کے دوران اصحاب خیر کی توجہات پر ہوتا ہے اس موقع پر اسے خدانخواستہ نظر انداز کر دیا گیا تو مدارس کے لیے پورے سال کا نظام چلانا مشکل ہو جائے گا اس لیے اصحاب خیر سے گزارش ہے کہ وہ دینی مدارس کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو اس موقع پر ضرور سامنے رکھیں۔