افغانستان پر متوقع امریکی حملہ اور عالمی منظر نامہ

   
تاریخ : 
۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء

افغانستان پر امریکہ کے فوری حملہ کا خطرہ ٹل جانے کے بعد عالمی میڈیا کا رخ ان اسباب و عوامل کی نشاندہی اور ان پر بحث و تمحیص کی طرف بتدریج مڑ رہا ہے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے ۱۱ ستمبر کے المناک واقعات کے باعث بنے۔ اور اس وقت بھارت اور اسرائیل دونوں کی وہ کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں جو انہوں نے ۱۱ ستمبر کے حادثات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امارت اسلامی افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو امریکی حملوں اور مداخلت کی زد میں لانے کے لیے شروع کی تھیں۔ بھارت اور اسرائیل نے اسامہ بن لادن، افغانستان اور پاکستان کے خلاف جس نفرت انگیز مہم کا آغاز کیا تھا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ اشتعال میں اضافہ ہو، کشیدگی بڑھے اور اس اشتعال کی فضا میں امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑے جس کے نتائج سے پاکستان کسی صورت بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ لیکن پاکستان کی دینی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد، رائے عامہ کی بیداری، جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی اور اعتدال پسندی، عالمی راہنماؤں اور حلقوں کی مسلسل کوششوں کے باعث اس کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے اور جوش و اشتعال کی بجائے ہوش و حکمت عملی کا پہلو لمحہ بہ لمحہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔

البتہ بعض سنجیدہ حلقے ہوش اور حکمت عملی کے تحت مستقبل میں متوقع امریکی حملوں کو زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی امریکی کارروائیاں نہ صرف افغانستان کے لیے زیادہ نقصانات کا ذریعہ بنیں گی بلکہ پاکستان کے لیے بھی زیادہ خطرناک ہوں گی۔ لیکن اس کے باوجود فوری کارروائی کے ٹل جانے کے امکان کو اس حوالے سے غنیمت سمجھا جا رہا ہے کہ اس سے ہر فریق کو اپنی مرضی کے مطابق صف بندی کرنے کا موقع ملے گا اور عالمی برادری کو بھی اپنی ترجیحات نسبتاً زیادہ پرسکون ماحول میں ازسرنو طے کرنے کی سہولت حاصل ہوگی۔

جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وہ ناگزیر ہو چکی ہے۔ مغرب کے راہنماؤں میں اس جنگ کے لیبل کے بارے میں تو اختلاف پایا جاتا ہے مگر جنگ اور لمبی مدت کی جنگ کے ناگزیر ہونے پر مغرب کے تمام لیڈر متفق ہیں اور اس کے لیے سب تیاریاں کر رہے ہیں۔ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے پہلے اسے ’’صلیبی جنگ‘‘ قرار دیا مگر بعد میں اس پر معذرت کر دی ۔پینٹاگون نے افغانستان کے لیے اپنے فوجی آپریشن کا نام ’’آپریشن انفینٹ جسٹس‘‘ رکھا تھا جس کا معنٰی حتمی انصاف ہے۔ مگر اس پر اعتراض کیا گیا کہ حتمی انصاف تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں، چنانچہ یہ نام تبدیل کر کے اب اسے ’’آپریشن اینڈیورنگ فریڈم‘‘ کا عنوان د یا گیا ہے- برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اپنے بیانات اور مسلمان رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ صرف دہشت گردی کے خلاف ہوگی۔ مگر اٹلی کے وزیراعظم نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ہماری جنگ اسلام کے خلاف ہے۔ بعض مغربی دانشور اسے ’’سولائزیشن وار‘‘ کہہ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی تہذیب اپنی مخالف تہذیبوں سے آخری جنگ کرنے جا رہی ہے۔ جبکہ مخالف تہذیبوں میں اسلام اور چینی تہذیب کو سرفہرست سمجھا جا رہا ہے۔

الغرض اس میں تو اختلاف موجود ہے کہ اس جنگ کو کس عنوان سے تعبیر کیا جائے مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ جنگ ہوگی اور وقتی کارروائی کی بجائے طویل جنگ ہوگی جس کے لیے مغرب پوری طرح تیاری میں ہے اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ نئی صف بندی کر رہا ہے۔

اس جنگ کا منظر نامہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی رائے عامہ اور دینی حلقے ایک طرف ہیں جو امریکہ کی دھمکیوں اور جنگی عزائم کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تصور کرتے ہیں اور اس کے خلاف محاذ آراء ہو رہے ہیں۔ مگر افغانستان اور ایران کو چھوڑ کر باقی کم و بیش تمام مسلمان ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر امریکہ کی حمایت میں بلکہ اس کے کیمپ میں کھڑی ہیں۔ صرف ایران واحد ملک ہے جو امریکی کیمپ کی مسلسل کوششوں کے باوجود افغانستان کے خلاف امریکی پروگرام میں شریک ہونے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہوا، غالب امکان یہ ہے کہ اسے امریکی کیمپ میں لانے کی کوشش آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ جبکہ باقی مسلم حکومتوں میں اس بات کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ان میں سے کون امریکہ کا زیادہ وفادار ہے اور کون اس جنگ میں امریکہ اور اس کے مغربی کیمپ کو زیادہ سہولتیں فراہم کر سکتا ہے۔

ان مسلمان حکومتوں کو یہ خطرہ ہے کہ عالم اسلام میں تیزی سے ابھرتے اور پھیلتے ہوئے جن رجحانات کو وہ امریکہ اور مغربی کیمپ کی پیروی میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے رجحانات قرار دے رہے ہیں وہ مسلم ممالک کے موجودہ سیاسی ڈھانچوں اور نوآبادیاتی نظاموں کے خاتمہ کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور یہ رجحانات افغانستان کی طرح دیگر مسلم ممالک میں بھی مروجہ ریاستی ڈھانچوں کی توڑ پھوڑ اور اسلامی تعلیمات پر مبنی نئے انقلابی نظام کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ مسلم حکومتیں اپنے سیاسی وجود اور نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچوں کے تحفظ کے لیے خود کو اس بات پر مجبور پا رہی ہیں کہ وہ امریکہ کا ساتھ دیں اور یہ حکومتیں اپنے ملکوں کے عوام کے جذبات و احساسات کو کچلتے ہوئے انہی کے خلاف امریکی کیمپ میں کھڑی ہیں۔ حالانکہ یہ مجبوری ان کی خود ساختہ ہے جو انہوں نے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں سے مفادات حاصل کر کے اور بین الاقوامی قرضوں کے جال میں پھنس کر خود پیدا کی ہے۔ اور اگر وہ اپنے ملکوں کی رائے عامہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اور عوامی رجحانات کا ساتھ دے کر اس جال اور مجبوری کو توڑنا چاہیں تو یہ بات ان کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہے۔

اس کشمکش میں ایک اور بات مزید نکھر کر سامنے آئی ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں جمہوریت اور رائے عامہ کے جن اصولوں کا مسلسل پرچار کر رہی ہیں وہ محض ڈھونگ ہیں۔ انہیں مسلم ممالک کی رائے عامہ، مسلم عوام کے شہری حقوق، اور ان ممالک میں جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم ایک عرصہ سے یہ بات کہتے آرہے ہیں کہ جمہوریت، رائے عامہ اور شہری حقوق کے نعرے صرف ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں۔ جبکہ اس کے کھانے کے دانت اور ہیں جنہیں وہ صرف ضرورت کے وقت ظاہر کرتا ہے اور اپنا کام نکال لیتا ہے۔

چند روز قبل جب امریکہ کی طرف سے پاکستان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ اس بات کا ہاں یا ناں میں فوری جواب دے کہ وہ افغانستان کے خلاف حملوں میں امریکہ کا ساتھ دے گا یا نہیں تو ایک امریکی رہنما کو اس کے ٹیلی ویژن انٹرویو میں اس طرف توجہ دلائی گئی کہ پاکستان کی رائے عامہ اس بات کی حمایت نہیں کر رہی کہ حکومت پاکستان افغانستان کے خلاف امریکی حملوں میں افغانستان کے خلاف فریق بنے۔ اس پر اس امریکی لیڈر نے بلاتامل جواب دیا کہ ’’ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے‘‘۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ امریکی لیڈروں کی نظر میں یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ پاکستان کی حکومت کسی بنیادی فیصلے کے موقع پر اس کا بھی لحاظ کرے۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے ایسا نہیں کیا اور مشرف حکومت نے اپنی حکمت عملی طے کرتے وقت امریکی دباؤ اور پاکستانی رائے عامہ کے رجحانات دونوں کا لحاظ رکھا ہے۔ لیکن اس سے مغربی ممالک کے اس طرز عمل کی ایک بار پھر نشاندہی ہوگئی ہے کہ ان کے نزدیک جمہوریت، رائے عامہ اور شہری حقوق کے نعروں کی حیثیت اصولوں کی نہیں ہے کہ وہ ہر جگہ یکساں لاگو ہوں بلکہ یہ صرف ہتھیار ہیں جنہیں ضرورت کے وقت اور ضرورت کے مطابق کسی بھی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس بحران میں سب سے زیادہ مایوسی اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے بارے میں ہوئی۔ اس کے سیکرٹریٹ نے اپنے طرز عمل سے عام مسلمانوں کے ان تاثرات کی تصدیق کر دی کہ اس تنظیم کا رول بین الاقوامی برادری میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا نہیں ہے بلکہ مسلمان ممالک میں بین الاقوامی قوتوں اور خاص طور پر امریکی مفادات کی نمائندگی اور تحفظ کا ہے۔ ورنہ اس قدر سنگین بحران میں بھی اس کی خاموشی کسی طرح سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ اب سنا ہے کہ پاکستان کی کوششوں سے مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے کے لیے تحریک ہو رہی ہے۔ مگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کے سانحات کے فورًا بعد عالمی سطح کے بحران کے آغاز اور شدت کے دور میں او آئی سی کو باہمی مشاورت اور عالم اسلام کی راہنمائی کےلیے جس طرح متحرک ہونا چاہیے تھا اس کے فقدان نے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں اس تنظیم کی افادیت کو اور زیادہ مشکوک بنا دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ او آئی سی متحرک کردار ادا کر کے عالم اسلام کی مشکلات میں کمی کر سکتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ امریکہ کی چھتری سے نکل کر یہ تنظیم آزاد اور خودمختار ادارہ کی حیثیت سے اپنے کردار کا تعین کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter