مشرق وسطیٰ میں مسلکی کشمکش

   
۳۱ جولائی ۲۰۱۵ء

مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان سالہا سال سے جاری کشمکش بلکہ خانہ جنگی کے بارے میں جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ سنی شیعہ کشمکش نہیں ہے یا اسے سنی شیعہ کشمکش کا عنوان نہیں دینا چاہیے تو دل کی بات یہ ہے کہ خود میرا بھی جی چاہتا ہے کہ یہی بات کہوں اور مسلسل کہتا چلا جاؤں۔ لیکن معروضی حال کو دیکھتا ہوں تو کھلی آنکھوں سے نظر آنے والا منظر اس معصوم سی خواہش کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔

کسی شخص کو کینسر جیسی مہلک بیماری کا سامنا ہو تو بہت سے معالجین اور خاندان کوشش کرتے ہیں کہ اسے اس بیماری کے بارے میں نہ بتایا جائے اور اسے بے حوصلہ کرنے کی بجائے خاموشی کے ساتھ اس کا علاج کیا جاتا رہے۔ لیکن اسے نہ بتانے کے باوجود وہ اس کا علاج ضرور کرتے ہیں اور اسی بیماری کا علاج کرتے ہیں جو اسے لاحق ہے۔

مجھے اس حکمت عملی کی افادیت و ضرورت سے انکار نہیں ہے اور میرا موقف بھی یہی ہے کہ اس کشمکش کو پھیلانے کی بجائے سمیٹنے کی کوشش کی جائے اور اس کا بار بار ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے خاموشی کے ساتھ اس کا حل تلاش کیا جائے، حتیٰ کہ میں یہ تجویز بھی رکھتا ہوں کہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے سنجیدہ دانشوروں کو مل بیٹھ کر اس کا حل نکالنا چاہیے اور امت کو اس گرداب سے نکالنے کی صورتیں تلاش کرنی چاہئیں۔ میں اس حقیقت سے بحمد اللہ پوری طرح باخبر ہوں کہ عالم اسلام میں سنی شیعہ کشیدگی کا مسلسل فروغ اور اسے ’’نو ٹرن‘‘ پوائنٹ تک لے جانا استعماری ایجنڈا ہے اور اس خانہ جنگی کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے سمیٹنے کے لیے اس کے پھیلاؤ کی حدود کو جاننا ضروری نہیں ہے؟ اور کیا امت کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے اس گرداب اور دلدل کی گہرائی کا جائزہ لینا اس کا اولین تقاضہ نہیں ہے؟

میری کمزوری بلکہ مجبوری یہ ہے کہ خبریں آنکھیں بند کر کے نہیں پڑھتا بلکہ کوئی خبر پڑھتے ہوئے اس کا سیاق و سباق نہ چاہتے ہوئے بھی ذہن کی سکرین پر نمودار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور بعض خبروں پر جذبات و احساسات میں جو تلاطم بپا ہوتا ہے اس کے اظہار کے لیے الفاظ کی تلاش میرے لیے سب سے مشکل کام بن جاتا ہے۔ اس وقت کراچی سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت اردو ہفت روزہ ’’اخبار جہاں‘‘ کا ۲۰ تا ۲۶ جولائی ۲۰۱۵ء کا شمارہ میرے سامنے ہے۔ اس کے ایک صفحہ پر عالم اسلام کے بارے میں اہم خبریں شائع کی گئی ہیں، ان میں سے مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے چند خبریں ایک نظر دیکھ لیں:

  • کویت کے اخبار ’’الوطن‘‘ کے مطابق سنی اور شیعہ آبادی نے باہمی یکجہتی کے اظہار کے لیے اہل سنت کی سب سے بڑی مسجد میں جمعہ کی نماز اکٹھے ادا کی ہے اور اس میں کویت کے حکمران الشیخ صباح احمد الجابر الصباح بھی شریک ہوئے ہیں۔ کویت کی آبادی تیرہ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جس میں ایک تہائی آبادی اہل تشیع کی ہے۔ کویت میں اسے مذہبی یکجہتی کا ایک اچھا مظاہرہ سمجھا جا رہا ہے۔
  • لبنان کے ممتاز سیاستدان اور دروز فرقے کے سربراہ ولید جنبلاط نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی حکومت اسرائیل کے ساتھ مل کر لبنان، شام اور اسرائیل میں موجود دروز آبادی اور اہل سنت کے درمیان موجود مفاہمت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شام کے صوبہ السویدا میں ’’درع الوطن‘‘ نامی گروہ کے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جنہوں نے تین بدوؤں کو تشدد کر کے قتل کیا تھا۔ تفتیش کے بعد ان لوگوں کا شامی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ ثابت ہوا ہے۔
  • ایران نے شورش زدہ پڑوسی ملک شام میں اپنے اتحادی بشار الاسد کی حکومت کے لیے ایک ارب ڈالر کی مالی مدد کی منظوری دی ہے جبکہ اس سے قبل ایران اپنے اس حلیف کو ۲۰۱۳ء میں بھی تین ارب ڈالر سے زائد مدد فراہم کر چکا ہے۔
  • بحرینی پولیس نے اپنے ملک اور سعودی عرب میں دہشت گردی کی ایک بڑی سازش ناکام بنا دی ہے۔ بحرین کے محکمہ امن عامہ کے سربراہ میجر جنرل طارق الحسن نے بتایا ہے کہ اس سلسلہ میں جو ساز و سامان اور دھماکہ خیز مواد پکڑا گیا ہے وہ ایرانی پاسداران انقلاب سے وابستہ گروہ بم دھماکوں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ بحرین کے اندرونی امور میں مداخلت کر رہا ہے۔
  • ایرانی رہبر انقلاب جناب خامنہ ای کے عسکری مشیر جنرل یحییٰ رحیم صفوی نے کہا ہے کہ انہوں نے عراق میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش تک یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر وہ شیعوں کے مقدس مقامات کی طرف بڑھے تو ایران کو ان مقامات کے دفاع کے لیے خود آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

یہ چند خبریں وہ ہیں جو ایک جریدہ کی ایک ہی اشاعت میں شائع ہوئی ہیں۔ اس پس منظر میں ۲۳ جولائی کو پاکستان کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر کو بھی دیکھ لیا جائے کہ وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف کے سیاسی امور کے معاون خصوصی جناب طارق فاطمی نے امریکہ کا دورہ کر کے وہاں کے سرکردہ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ان ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ پاکستان میں ’’داعش‘‘ پر قابو پانے کے لیے امریکہ اور پاکستان کی حکومتیں مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گی۔ عراق داعش کو صفوی صاحب کے انتباہ اور پاکستان میں مبینہ طور پر موجود داعش سے نمٹنے کے لیے فاطمی صاحب کے امریکی حکام کے مذاکرات سے مستقبل کا جو منظر دکھائی دینے لگا ہے وہ خاصا غور طلب ہے۔ ہمیں داعش سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور عالم عرب کے جمہور علماء کرام کی طرح سے ہم بھی اسے ’’خوارج‘‘ کا جدید ایڈیشن ہی سمجھتے ہیں، لیکن داعش کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے جا رہا ہے وہ ضرور تشویشناک ہے۔ بالخصوص میاں شہباز شریف کے سابقہ دور کی طرح ’’پولیس مقابلوں‘‘ کا نیا راؤنڈ بہرحال ایک لمحہ فکریہ ہے جس کو نظر انداز کر دینا شاید پاکستان کی دینی دانش کے لیے زیادہ دیر تک ممکن نہ رہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter