نومبر ۱۹۲۷ء کے دوران پشاور میں جمعیۃ علماء ہند کی کانفرنس میں خطبۂ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے امام المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے صوبہ خیبر پختون خواہ کی اس وقت کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبصرہ فرمایا تھا۔ یہ صوبہ اس وقت ’’شمال مغربی سرحدی صوبہ‘‘ کہلاتا تھا اور اسے عام طور پر صوبہ سرحد یا سرحدی صوبہ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ کم و بیش ایک صدی قبل کی سیاسی صورتحال پر یہ وقیع تبصرہ اگرچہ مجموعی طور پر اس دور کے تناظر میں ہے لیکن آج بھی بہت سے معاملات میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے موقع پر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے خطبۂ صدارت کا یہ حصہ ہم ’’قند مکرر‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ تمام متعلقہ ادارے اور دینی و سیاسی حلقے اسے رہنمائی کا ذریعہ بنائیں گے۔
’’اس مرتبہ جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس اس شہر (پشاور) میں خاص طور پر اس لئے کیا گیا ہے کہ انگریزی حکومت کی اس سرد مہری کے خلاف نہ صرف اہل سرحد بلکہ تمام مسلمانان ہند کی متفقہ آواز بلند کی جائے جو وہ سرحد ہند کی نصف کروڑ آبادی کے ساتھ روا رکھ رہی ہے۔ یہ پچاس لاکھ انسان جو باستثناء چند سب کے سب مسلمان ہیں، بلحاظ اپنی بہت سی اخلاقی و ایمانی خصوصیات کے دنیا کے بہترین مسلمانوں میں سے ہیں۔ ان کی شجاعت و بسالت، ان کی پابندیٔ عہد، ان کی غیرت و حمیت، ان کی بلند حوصلگی و فراخ دلی اور سب سے زیادہ ان کی وہ ایمانی قوت جو انہیں اسلام کی حرمت پر دنیا کی ہر چیز کو قربان کر دینے کے لئے ہر وقت مستعد رکھتی ہے، ایسی معروف اور مسلم ہے کہ ان کا کوئی دشمن بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ ان اعلیٰ اوصاف کے علاوہ ذہنی و دماغی قابلیتوں کے لحاظ سے بھی وہ اپنے بقیہ اہل وطن سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ ان میں انضباط و انتظام کی طبعی صلاحیت موجود ہے، جمہوریت کا فطری نظام ان کے اندر غیر معلوم زمانہ سے رائج ہے، اپنے معاملات کو خود طے کرنے کی قابلیت ان میں بدرجہ اتم موجود ہے اور اگر بیرونی مداخلت ان کے سدِ راہ نہ ہو تو یقیناً وہ زمانہ کی عمرانی و سیاسی ترقی کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ قدرت نے انہیں دو ملکوں کی سرحد پر پیدا کیا ہے اور ایک ایسی حکومت کے زیر اثر کر دیا ہے جس کی سیاسی خودغرضی ان کو ہر وقت شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتی اور اپنی آہنی بندشوں میں جکڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ آج محض اس جغرافیائی اور سیاسی موقف کی بدولت اسلامی ہند کے یہ پچاس لاکھ افراد اور براعظم ہند کے قدرتی محافظ اس قسم کے استبداد کا تختہ مشق بنائے جا رہے ہیں جن کی مثال ہم کو عہد تاریک کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتی۔ ہندوستان کی دوسری قومیں تعصب یا فریب خوردگی کے باعث اپنے ان ہم وطن بھائیوں کی مصیبت سے چاہے کتنی ہی بے اعتنائی برتیں لیکن ہم مسلمان ان کی ہمدردی اور ان کے استخلاص کی سعی سے ہرگز باز نہیں رہ سکتے کیونکہ وہ ہماری اسلامی برادری کے ایسے لاینفک جزو ہیں جس پر ہمیں بجا فخر و ناز ہے۔
حضرات! اس شمالی مغربی علاقہ کو انگریزی اثر کے ماتحت آئے ہوئے تقریباً ۷۸ برس گزر چکے ہیں۔ حکومت انگلشیہ نے سب سے پہلے ۱۸۴۹ء میں یہاں قدم رکھا ہے اور اسی زمانے سے اس المناک سرحدی سیاست کی ابتداء ہوتی ہے جس کی تاریخ کا کوئی ورق بھی جنگ و پیکار کے سیاہ داغوں سے خالی نہیں ہے۔ انگریزی حکومت کی یہ مستقل پالیسی ہے کہ وہ اپنی قدرتی حدود پر کبھی قانع نہیں رہتی اور ہمیشہ اپنے اندرونی امن و سکون کی حفاظت کے لیے دوسری ہمسایہ قوموں کے امن و سکون کو متزلزل رکھتی ہے۔ اس کی قوت واہمہ کو ہندوستان سے کئی کئی ہزار میل کے فاصلہ تک تحفظ ہند کے لئے خطرات ہی خطرات نظر آتے ہیں اور ان کا سدباب کرنے کے لئے وہ کبھی مصر پر قبضہ کرتی ہے، کبھی سواحل عرب پر اثر قائم کرتی ہے، کبھی خلیج فارس اور عراق و موصل کو مسخر کرتی ہے۔ گویا اس کے نزدیک ایک ہندوستان کی حفاظت کے لئے گردوپیش کے تمام ممالک کو تابع کرنا ضروری ہے۔ اور اگر وہ سب تابع ہو جائیں تو پھر ان کی حدود کا تحفظ بھی بغیر اس کے نہیں ہو سکتا کہ ان سب کے گرد جو ملک واقع ہوں ان کو مسخر کیا جائے اور اس طرح شاید تحفظ اور ملک گیری کا متلازم سلسلہ اسی وقت ختم ہو جب تمام دنیا پر انگریزی حکومت قائم ہو جائے۔
ظاہر ہے کہ جب انگریزوں کا طریق تحفظ مملکت ہی یہ ہے تو وہ قومیں کیونکر اس کی زد سے بچ سکتی تھیں جو ہزاروں میل دور نہیں بلکہ عین سرحدِ ہند پر آباد ہیں۔ ابھی سرحد پر انگریزی تسلط کو ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ اسے ان قوموں کو مسخر کرنے یا جدید اصطلاح میں مہذب بنانے کی ضرورت لاحق ہوگئی اور اس نے ۱۸۵۰ء سے تسخیری اور تعزیری مہموں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ چنانچہ پہلے دس سال میں دس دفعہ لڑائی ہوئی، پھر ۱۸۶۰ء سے ۱۸۷۰ء تک چھ دفعہ جنگ ہوئی۔ اس کے بعد ۱۸۷۰ء سے ۱۸۸۰ء تک سات مرتبہ، ۱۸۸۰ء سے ۱۸۹۰ء تک چار مرتبہ، ۱۸۹۰ء سے ۱۹۰۰ء تک گیارہ مرتبہ اور ۱۹۰۰ء سے ۱۹۱۰ء تک پانچ مرتبہ ان علاقوں پر چڑھائی کی گئی۔ پھر تھوڑے عرصہ بعد وزیرستان میں جنگ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو تھوڑے تھوڑے وقفہ سے تقریباً سات سال تک جاری رہا۔ ۱۹۱۹ء میں افغانستان کی جنگ نے پھر سرحدی علاقوں میں آگ لگا دی اور افغانستان سے صلح ہونے کے بعد بھی وہ فرو نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ گورنمنٹ نے اپنا اثر قائم کرنے کے لئے بعض آزاد علاقوں میں اپنی زبردستی فوجی چوکیاں قائم کر دیں جو ہر وقت قبائل کی سرکوبی کے لئے مستعد رہتی ہیں۔
یہ ماورائے سرحد کا علاقہ تقریباً چھبیس ہزار مربع میل ہے جس میں اٹھائیس لاکھ پٹھان آباد ہیں۔ انگریزی حکومت ان کے نصف سے زائد حصہ کو اپنے زیرِ اثر لا چکی ہے۔ دیر، سوات، امب اور چترال کی ریاستیں جن کی مجموعی آبادی سولہ لاکھ بائیس ہزار ہے، ایک حد تک ریاستہائے ہند کی طرح حکومت ہند کی تابع فرمان ہیں۔ بقیہ حصہ میں بھی آفریدی اور اورک زئی قبائل عملاً انگریزی اثر قبول کر چکے ہیں۔ اب وزیرستان خصوصیت کے ساتھ حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور اس کی حریت پسند آزادی کو خواہ مخواہ مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنی اس آزادی کو انگریزی روپے اور انگریزی طاقت کے مقابلے میں تسلیم (سرنڈر) کر دے جو ہزارہا برس سے اس کو حاصل رہی ہے۔ ان آزاد علاقوں پر انگریزی اخباروں اور سرکاری بیانات میں اکثر وحشت و بہمیت اور جرائم پیشگی کے شدید الزام عائد کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کی بربریت ہمیں اپنے علاقے کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ان کو وحشیانہ عادات اختیار کرنے پر خود انگریزی حکومت نے مجبور کیا ہے اور ایک پوری قوم کو وحوش و بہائم کی جماعت بنا دینے کی ساری ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ جو قوم پوری تین ربع صدی سے مسلسل حالت جنگ میں زندگی بسر کر رہی ہو، جس کو ایک لمحہ بھی امن و سکون کے ساتھ رہنے کا موقع نہ دیا جائے، جس کو متواتر جنگ و پیکار سے اتنی فرصت ہی نہ ملے کہ کسب معاش کے پر امن طریقے اختیار کر سکے، جس کو پیٹ بھرنے اور اپنے ملک کی آزادی محفوظ رکھنے کے لئے لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے سوا کوئی اور وسیلہ استعمال کرنے کی مہلت ہی نہ دی جائے، کیا وہ قوم تہذیب و تمدن میں کوئی ترقی کر سکتی ہے؟ کیا اس سے امن پسند زندگی بسر کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا اس کا جنگجو، وحشی اور خونخوار ہوجانا کسی حیثیت سے بھی محلِ تعجب ہے؟ تھوڑی دیر کے لئے ایسے حالات میں دنیا کی کسی مہذب سے مہذب قوم کو رکھ دیجئے آپ دیکھیں گے کہ ۷۸ سال پیہم جنگ میں مصروف رہنے کے بعد اس میں بھی لازمی طور پر وہی خصائل پیدا ہوں گے جن کی سرحدیوں سے انگریزی گورنمنٹ کو شکایت ہے۔
انگریزی مدبرین میں ابتداء سے ایک دانشمندانہ طبقہ ایسا رہا ہے جو اقدام کی پالیسی کا مخالف ہے، اس کی رائے میں سرحد افغانستان تک پیش قدمی کرنے کی بجائے تحفظ مملکت کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہندوستان کی قدرتی سرحد کے اندر رہ کر ایسے استحکامات تیار کئے جائیں جن سے بیرونی علاقے کی کسی طاقت کو ملک کے امن و سکون میں خلل ڈالنے کا موقعہ نہ ملے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت ہند میں ہمیشہ ان لوگوں کا غلبہ رہا ہے جو اقدام کی طرف زیادہ مائل ہیں اور یہ ان ہی لوگوں کا اثر ہے کہ ایک طرف ہندوستان کا کروڑوں روپیہ سرحد کی تعزیری یا تسخیری مہموں میں فضول برباد کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف آزاد سرحدی قبائل کو دائمی حالت جنگ میں رکھ کر اخلاقی، اقتصادی، تمدنی، سیاسی، غرض ہر حیثیت سے ان کی زندگی برباد کی جا رہی ہے۔
اس معاملہ میں ہمارا مطالبہ بالکل صاف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ گورنمنٹ اقدام کو چھوڑ کر داخلی تحفظ کی پالیسی اختیار کرے اور آزاد قبائل کو امن و سکون کے ساتھ ترقی کرنے کا موقع دے دے۔ اگر توپیں اور ہوئی جہاز بھیجنے کی بجائے انگریزی علاقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ پٹھانوں کو امن کی فضا میں ماورائے سرحد کی اصلاح کا موقعہ دے دیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ایک قلیل عرصہ ہی میں وہاں تہذیب و مدنیت کی روشنی پھیل جائے گی اور موجودہ وحشت و بربریت کی جگہ ایک ایسی متمدن زندگی شروع ہو جائے گی جو حقیقتاً سرحد ہند کے لئے امن و تحفظ کی بہترین ضمانت ہوگی۔
حضرات! اب میں سرحدی علاقہ کے اس حصہ کی طرف توجہ کرتا ہوں جو حدود ہند کے اندر واقع ہے اور باضابطہ انگریزی حکومت کے زیرانتظام ہے۔ یہ علاقہ پانچ اضلاع پر مشتمل ہے جس کی مجموعی آبادی بائیس لاکھ اکاون ہزار ہے۔ ۱۸۴۹ء سے لے کر ۱۹۰۱ء تک وہ صوبہ پنجاب سے ملحق رہا اور ان فوائد سے متمتع ہوتا رہا جو ایک آئینی حکومت سے بہرحال حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن ۱۹۰۱ء میں لارڈ کرزن نے، جن کی مخصوص پالیسی ہندوستان اور دنیائے اسلام کو بہت سی مشکلات میں مبتلا کر گئی ہے، اس پر امن علاقے کو بھی جنگی سیاست کی آماجگاہ بنانے کا فیصلہ کر لیا اور اسے ایک مستقل صوبہ قرار دے کر بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کر کے ایک غیر آئینی نظام حکومت کا ماتحت بنا دیا۔ اس وقت سے یہاں کا آسمان و زمین بالکل ہی بدل گیا ہے۔ ہندوستان میں آئینی حیثیت سے خواہ کتنا ہی تغیر و تبدل ہو اور سیاسی و انتظامی حیثیات سے وہ ترقی کے کتنے ہی مدارج طے کر لے لیکن اس بدنصیب صوبے کو اس میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ فوجی خدمات میں یہاں کے باشندے سب سے بڑھ کر رہیں، جنگ میں فداکاری و جاں نثاری کے لئے سب سے پہلے تیار ہوں، جنوبی افریقہ سے لے کر چین تک اور فرانس کے میدانوں سے لے کر فلسطینوں و عراق تک ہر جگہ انگریزی حکومت کی جہانگیرانہ تشنگی بجھانے کے لئے سب سے زیادہ ان کا خون کام آئے، لیکن متمدن زندگی کے فوائد، آئینی نظام حکومت کے منافع اور سیاسی و عدالتی امور کی ترقی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اور اس معاملہ میں وہ سب سے پیچھے رکھے جاتے ہیں۔ یہاں کے قوانین بالکل الگ، یہاں کا طرز حکومت بالکل مختلف، یہاں کا طریق عدل و انصاف بالکل جداگانہ، غرض یہاں کی ہر چیز ہندوستان کے بقیہ علاقوں سے بالکل متبائن ہے۔
ہندوستان میں منٹومارلے اصلاحات نافذ ہوئیں، مانٹیگو چیمسفورڈ کی اصلاحی اسکیم رائج کی گئی، کونسلیں بنیں، لوکل سیلف گورنمنٹ کے اصول پر میونسپل کمیٹیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کو وسیع اختیارات دیئے گئے، مطابع اور مجالس کی آزادی کو ایک خاص حد تک تسلیم کیا گیا، چھبیس سال تک یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ مگر غریب صوبہ سرحد کو ان تغیرات کی ہوا بھی نہ لگنے پائی اور وہ بالکل الگ تھلگ ایک تاریک فضا میں زندگی بسر کرتا رہا۔ حقیقی معنوں میں یہاں کوئی آئینی حکومت ہی نہیں ہے۔ آئینی حکومت تو اس کو کہتے ہیں جس میں عمال و حکام کسی مخصوص و متعین قاعدہ کی پابندی پر مجبور ہوں اور اس کے خلاف کوئی عمل نہ کر سکیں۔ لیکن یہاں اس کے برعکس چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنروں کو اپنی رائے اور مرضی پر ہر عمل کرنے کی اتنی وسیع آزادی حاصل ہے جتنی شاید نادر شاہ کو اپنی حکومت میں حاصل (نہ) تھی۔ ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ہے، کوئی کونسل یا مجلس مستشار نہیں ہے جو انہیں مشورہ دے یا ان کے اعمال کی نگرانی کرے، کوئی نمائندہ جماعت نہیں ہے جو اہل سرحد کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرے، مطابع اور مجالس کسی قسم کی آزادی بھی نہیں کہ عام رائے اور پبلک کی شکایات کا اظہار کیا جا سکے۔ کوئی ایسی بالاتر انتظامی قوت بھی نہیں ہے جو ان کے اعمال کی نگرانی کرے، لے دے کے ایک حکومت ہند کا محکمۂ سیاسیات ہے جو صوبے کی حکمرانی پر نگرانی رکھتا ہے مگر اس کو اپنی جنگی و سیاسی اغراض کے سوا عملاً کسی انتظامی مسئلہ سے واسطہ نہیں ہے اور مقامی حکومت کو اس نے رعایا سے معاملے کرنے میں بالکل مطلق العنان چھوڑ رکھا ہے۔ یہ مطلق العنانی بھی شاید اتنی مہلک نہ ہوتی اگر حکومت کی باگیں اعلیٰ تربیت یافتہ ملکی شرفاء کے ہاتھ میں دی گئی ہوتیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ حکومت اور عدالت کے سارے اختیارات آنریری سب ججوں، آنریری ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں اور فوج سے نکلے ہوئے اکھڑ ڈپٹی کمشنروں کے سپرد کر دیئے گئے ہیں جو عملاً ان کو پوری آزادی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
مجلس تحقیقات سرحد کی رپورٹ میں مسٹرئی رنگا چاریر نے ان کے استبداد کی مثالیں پیش کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھا ہے کہ احمد آباد کانگریس کے موقع پر ہزارہ کے کرنل جیمز نے تمام ان لوگوں کو جنہیں کانگریس کے لئے مندوب منتخب کیا گیا تھا، صاف طور پر یہ اطلاع دی کہ اگر وہ کانگریس میں شریک ہوئے تو انہیں قانون جرائم سرحد کی دفعہ ۳۶ کے ماتحت جلاوطن کر دیا جائے گا۔ یہ قانون جرائم سرحد من جملہ ان نیم فوجی قوانین کے ہے جو اہل سرحد کی وفاداری و جاں نثاری کا صلہ دینے کے لئے ہماری احساس شناس حکومت نے خاص طور پر اس صوبہ میں رائج کئے ہیں۔ وہ مقامی حکومت کو رعایا کی جان و مال اور عزت و آزادی پر غیر محدود اختیارات دیتا ہے اور اس کے ماتحت وہ پورا حق رکھتے ہیں کہ ایک شخص کو سخت سے سخت سزا دے دیں بغیر اس کے کہ اس پر اس کا جرم ظاہر کیا جائے یا اسے صفائی کا موقع دیا جائے۔ کوئی مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں، کسی وکیل یا گواہ کی ضرورت نہیں، کسی محاکمہ اور عدالتی تحقیقات کی ضرورت نہیں، محض پولیس کی رپورٹ اور مجسٹریٹ کی رائے اسے ضبطیٔ جائیداد، جلاوطنی، طویل مدت کی سزائے قید بامشقت، غرض ہر سخت سے سخت سزا کا مستوجب ثابت کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ ‘‘