کوسووو میں سرب جارحیت کا نشانہ بننے والے البانی مسلمانوں کے حق میں ’’المہاجرون‘‘ نے گزشتہ ہفتے لندن میں مظاہرے کا اہتمام کیا جس میں سرب جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کوسووو کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس سے قبل کوسووو کے مسلمانوں نے بھی لندن میں ایک مظاہرہ کیا جس میں کوسووو کی آزادی اور خودمختاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بوسنیا کے بعد کوسووو مشرقی یورپ کا دوسرا خطہ ہے جہاں مسلمان سربوں کی وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس خطہ میں البانوی نسل کے مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے اور وہی سب سے زیادہ سرب جارحیت کی زد میں ہیں۔ مشرقی یورپ کا یہ علاقہ ایک عرصہ تک ترکی کی خلافت عثمانیہ اور یونان کی صلیبی حکومت کی باہم محاذ آرائی کا میدان رہا ہے۔ کوسووو سمیت بہت سے علاقوں پر ترکوں کی صدیوں تک حکومت رہی ہے مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے ساتھ ترکی کے زیر قبضہ علاقوں کی نئی بندربانٹ ہوئی، اور پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی یورپ پر سوویت یونین کا تسلط قائم ہوا۔ اس دوران ان میں سے بیشتر علاقے یوگوسلاویہ کے نام سے ایک نئے متحدہ ملک کی حیثیت اختیار کر گئے اور اسی یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو ایک عرصہ تک عالمی لیڈر کی حیثیت سے بین الاقوامی بساط سیاست پر نمایاں رہے۔
افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد مشرقی یورپ پر روسی استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور نہ صرف دیوار برلن ٹوٹی بلکہ مشرقی یورپ کی بہت سی ریاستیں آزاد ہوئیں۔ اس طرح یوگو سلاویہ ایک بار پھر بکھر کر رہ گیا، اسی بکھرنے کے عمل میں بوسنیا کے مسلمانوں کو اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے ایک صبر آزما جنگ سے گزرنا پڑا۔ اور اب کوسووو کی آبادی ساڑھے بارہ لاکھ افراد پر مشتمل تھی جس میں البانوی مسلمانوں کی تعداد نو لاکھ سے زائد ہے جبکہ سربوں کی تعداد سوا دو لاکھ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ لیکن یہ خطۂ زمین چونکہ تین اطراف سے سربوں میں گھرا ہوا ہے اس لیے سربوں کو جارحیت میں بہت آگے تک جانے کی صلاحیت حاصل ہے اور کوسووو کے مسلمان اسی طرح سرب جارحیت کا شکار ہو رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے بوسنیا کے مظلوم مسلمان رہ چکے ہیں۔
مغربی ممالک بشمول امریکہ سربوں کی مذمت کر رہے ہیں اور انہیں جنگی مجرم قرار دے کر کوسووو کے مسلمانوں کے ساتھ ظاہری ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ اسی طرح کا زبانی جمع خرچ ہے جو اس سے پہلے ان کی طرف سے بوسنیا کے بارے میں دنیا اچھی طرح دیکھ چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھی سربوں کی مذمت کرتے رہے اور سرب درندے پورے اطمینان کے ساتھ بوسنیا کے مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام میں مگن رہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں اور بعض مغربی ممالک دکھاوے کے لیے اس کے کسی اقدام کی مذمت بھی کر دیتے ہیں لیکن اسرائیل کسی قرارداد اور مذمت کو خاطر میں لائے بغیر اپنے ایجنڈے پر پوری دلجمعی کے ساتھ مسلسل پیش رفت کر رہا ہے۔ بوسنیا، کوسووو، اور مشرقی یورپ کے دیگر مسلمان علاقوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ترکی جو صدیوں تک اس خطہ کے مسلمانوں کا نگہبان رہا ہے، اب وہ اپنے اس کردار سے نہ صرف دست کش ہو چکا ہے بلکہ اس کی پالیسیاں مسلمانوں کی بجائے ان کے جانی دشمنوں کی تقویت کا باعث بن رہی ہیں۔ جبکہ یہاں کے مسلمانوں کے خلاف سربوں اور دیگر صلیبی قوتوں کی شدید نفرت کے پس منظر میں وہی دور کارفرما ہے۔ صدیوں یہ پوزیشن رہی ہے کہ یہ خطہ جسے بلقان کے تاریخی نام سے پکارا جاتا ہے، مسلمانوں اور صلیبی قوتوں کا محاذ جنگ رہا ہے۔ ایک طرف ترکی کی خلافت عثمانیہ تھی اور دوسری طرف یونان اور دیگر مغربی صلیبی ممالک جن کے درمیان جنگوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ یہی کوسووو ہے جہاں ۱۳۸۹ء میں خلافت عثمانیہ اور سربیا کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں اور ترکی کی افواج نے سربوں کو عبرتناک شکست دے کر کوسووو پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ۱۹۱۲ء تک کم و بیش چھ سو برس کوسووو خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ آج دشمنی وہی ہے، سرب انہی صلیبی جنگوں کے جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور بوسنیا و کوسووو کے مسلمان بھی اسی روایتی جذبہ سے سرشار ہیں، مگر فرق صرف یہ ہے کہ آج ترکی ان کی پشت پر نہیں ہے اور وہ خلافت عثمانیہ کے کردار سے دستبردار ہو کر سیکولر ترکی کے طور پر صلیبی قوتوں کی تقویت کا باعث بنا ہوا ہے۔
چند سال قبل لندن میں بوسنیا کے ایک عالم دین سے ملاقات ہوئی جو اس وقت شدت کے ساتھ جاری دفاعی جنگ کے سلسلہ میں مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی مہم پر تھے۔ انہوں نے ایک محفل میں مشرقی یورپ کے مسلمانوں بالخصوص بوسنیا کے مسلمانوں کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے ایک جملہ کہا کہ ’’ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں بڑا مسلمان ملک پاکستان نہیں ترکی ہے۔‘‘
حال ہی میں ترکی میں نجم الدین اربکان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سیکولرازم کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کے دینی تعلیم کے ادارے بند کیے گئے اور دینی رجحانات کی حوصلہ شکنی کے قوانین نافذ ہوئے تو کوسووو میں بھی سرب حکومت نے اس کی آڑ میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے بند کر دیے۔ حالانکہ وہ مذہبی تعلیم کے ادارے نہیں تھے عام سکول تھے، لیکن چونکہ مسلمانوں کے تھے اس لیے انہیں خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق جو ادارے بند کیے گئے ان میں ۱۹۷۵ پرائمری سکول، ۱۱۵ سیکنڈری سکول، اور ۲۰ کالج شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی البانوی زبان پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اور ایسے لباس کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے جس سے اسلامی شناخت نمایاں ہوتی ہو۔
کوسووو کے مسلمان آج بہت بڑی آزمائش سے دوچار ہیں اور اپنی آزادی و اسلامی تشخص کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا سامنا سرب قوم سے ہے جس کی وحشت اور درندگی کا تماشہ دنیا بوسنیا میں چند سال قبل دیکھ چکی ہے جہاں ابھی تک مظلوم بوسنیائی مسلمانوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں، جہاں عورتوں کی عصمت دری کی گئی، حاملہ عورتوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے گئے، اور بربریت کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ ان سربوں کی پشت پر یورپ کی وہ تمام قوتیں اور لابیاں ہیں جو یورپ کے کسی خطہ میں اسلام اور مسلمانوں کو آزاد دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔ اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہر ممکن حد تک آگے جانے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے یہ صرف کوسووو کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ پورے مشرقی یورپ کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے کیونکہ آج اگر کوسووو کے البانوی مسلمان سرب جارحیت کا تر لقمہ بن گئے تو کل خود البانیہ ان سربوں کی ہٹ لسٹ پر ہوگا اور وہ مشرقی یورپ سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس لیے عالم اسلام اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوسووو کے مظلوم مسلمانوں کی صدا پر لبیک کہیں اور سرب جارحیت کا راستہ روکنے کے لیے جو بھی وہ کر سکتی ہوں اس سے گریز نہ کریں۔