اخبار نویسی اور رپورٹنگ کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جائے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے نظریات و خیالات کو بلاکم و کاس عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ لیکن معلوم نہیں ہمارے ہاں اخبار نویسی کا معیار کیا سمجھ لیا گیا ہے کہ جو چیز مخصوص گروہی اغراض کے مطابق ہو اسے قومی پریس میں جگہ دے دی جاتی ہے اور جس چیز کو اخبار نویسوں کی گروہی اغراض گوارا نہ کرتی ہوں وہ خود کتنی ہی اہمیت کی حامل ہو، ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے۔
اس کی تازہ مثال گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والی جمعیۃ العلماء اسلام کی عظیم الشان ڈویژنل کانفرنس سے اخبار نویسوں کی بے اعتنائی ہے۔ اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت میں نے خود اخبار نویس دوستوں کو دی تھی مگر افسوس کہ گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں نے اپنی ’’مخصوص‘‘ ڈگر کو چھوڑنا پسند نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۰، ۲۱ ستمبر ۱۹۶۸ء کو شیرانوالہ باغ میں کانفرنس کے عظیم الشان اجلاس منعقد ہوتے رہے، جن لوگوں نے کانفرنس میں شرکت کی ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ کانفرنس گوجرانوالہ کی تاریخ میں فقید المثال کانفرنس تھی۔ بڑے بڑے مقررین اور چوٹی کے خطباء نے تقاریر کیں اور صف اول کے سیاسی راہنماؤں نے ملکی و ملی مسائل پر اظہار خیال کیا۔ لیکن ایک مقامی اخبار نوائے گوجرانوالہ اور دوسرا روزنامہ وفاق لاہور کے علاوہ کسی اخبار نے اس کانفرنس کے بارہ میں ایک لفظ تک نہ لکھا۔
اس کے برعکس جمعیۃ العلماء پاکستان کی تشکیل جدید کے محرک مفتی محمد حسین صاحب نعیمی نے جمعیۃ العلماء پاکستان قدیم کے صدر صاحبزادہ سید فیض الحسن صاحب پر کسی محفل میں دھاندلیوں کا الزام لگایا تو اسے نوائے وقت کے معزز اور کرم فرما نمائندہ نے ’’جمعیۃ علماء اسلام کے سابق صدر پر دھاندلیوں کا الزام‘‘ کا عنوان دے کر اور پوری خبر میں جمعیۃ العلماء پاکستان کی بجائے جمعیۃ العلماء اسلام کا نام استعمال کر کے یہ الزام جمعیۃ علماء اسلام پر چسپاں کر دیا۔ حتیٰ کہ خبر کے آخر میں جمعیۃ علماء اسلام کی اس تاریخی ڈویژنل کانفرنس کا حوالہ بھی دے دیا جس کے چھ انتہائی کامیاب اجلاسوں میں سے کسی ایک اجلاس کی رپورٹ نوائے وقت کو بھیجنے کی توفیق اس معزز نمائندہ خصوصی کو نہیں ہوئی۔
میں گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اخبار نویسی کا پاکیزہ پیشہ آپ لوگوں کے مخصوص مفادات کا اسی طرح تابع بنا رہے گا؟ کیا فرماتے ہیں اخبار نویساں کرام بیچ اس مسئلہ کے؟ بینوا توجروا۔