جماعتی حلقوں میں یہ خبر انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ تحریک آزادی و تحریک ختم نبوت کے سرگرم کارکن اور جمعیۃ علماء اسلام صوبہ سندھ کے نائب امیر مولانا تاج الدین بسمل کو عید الفطر کے روز پڈعیدن ضلع نواب شاہ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کا تعلق ضلع گجرات (پنجاب) سے تھا اور کم و بیش چالیس سال سے پڈعیدن میں رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفٰی میں سرگرم کردار ادا کیا تھا اور متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مرحوم بے لوث سماجی ورکر تھے اور ڈسٹرکٹ کونسل نواب شاہ کے ممبر بھی رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی وحدت و سالمیت کے علمبردار تھے اور علاقائی عصبیتوں اور علیحدگی پسندی کے رجحانات کے خلاف مسلسل جدوجہد میں مصروف رہتے تھے۔ وہ ہفت روزہ ’’تعمیر قوم‘‘ کے نام سے ایک جریدہ بھی نواب شاہ سے شائع کرتے تھے۔
مولانا تاج الدین بسمل کی شہادت ایک محب وطن پاکستانی اور حق گو عالم دین کی موت ہے جس پر ہر کارکن اشکبار ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مولانا بسمل کی شہادت جہاں ملک کے دینی حلقوں کے لیے باعث اضطراب ہے وہاں سندھ کے مخصوص حالات کے پس منظر میں قومی و سیاسی حلقوں کے لیے بھی خطرہ کا ایک سگنل ہے۔ سندھ میں علاقائی، لسانی اور نسلی عصبیتوں کو جس طرح فروغ دیا جا رہا ہے اور بیرونی لابیوں کی اس مکروہ سازش کو جس طرح بعض مقتدر حلقوں کی سرپرستی اور پشت پناہ حاصل ہے اس کے پیش نظر ایک محب وطن عالم دین کا یہ قتل کسی عظیم اور خطرناک منصوبہ کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ قومی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا احساس کریں اور علاقائی، لسانی اور نسلی عصبیتوں کی اجتماعی حوصلہ شکنی کا راستہ اختیار کر کے خانہ جنگی کے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش کریں جس کے سامنے شاید کوئی بھی اقتدار یا سیاسی دھڑے بندی نہ ٹھہر سکے گی اور ملک و قوم کی اس بدنصیبی میں وہ تمام افراد اور حلقے برابر کے ذمہ دار ہوں گے جو اقتدار یا سیاست کی مصلحتوں کی خاطر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر اس طوفان بدتمیزی کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔