طالبات کے لیے ایک سبق

   
۱۹ و ۲۰ جون ۲۰۱۲ء

ہماری بڑی ہمشیرہ محترمہ اچھڑیاں ضلع مانسہرہ میں اپنے شہید بیٹے حاجی عدیل عمران کی یاد میں طالبات کی دینی درس گاہ قائم کر کے وفاق المدارس کے نصاب کے مطابق درسِ نظامی کی تدریس میں گزشتہ دو عشروں سے مصروف ہیں۔ عدیل عمران شہید ہمارا عزیز بھانجا تھا، جو جہادِ افغانستان کے مختلف مراحل میں شامل رہا۔ خوست کی فتح میں شریک تھا اور خوست کی فتح کے موقع پر بڑے مورچے پر مجاہدین کا قبضہ مکمل ہونے پر وہاں پہلی اذان دینے کی سعادت بھی اسی نے حاصل کی۔ وہ تو اس کے بعد جامِ شہادت نوش کر گیا، مگر اس کی والدہ اس کی یاد دل میں بسائے اپنے گھر میں ہی ”عدیل عمران شہید اکیڈمی“ قائم کر کے دینی علوم کی تدریس و تعلیم میں مگن ہیں۔ ۱۴ جون کو وہاں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی، جس میں مجھے بخاری شریف میں طالبات کے نصاب کی آخری حدیث کا درس دینے کا شرف حاصل ہوا، اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بخاری شریف پڑھنے والی طالبات کو اس سعادت پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے ان کے سامنے ان کے نصاب کی آخری روایت پڑھوں گا اور اس کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں گا۔ یہ روایت کتاب النکاح کی آخری حدیث ہے، جس میں امام بخاریؒ نے ایک طویل حدیث کا صرف ایک حصہ ذکر کیا ہے اور اس سے ایک مسئلہ کا استنباط کیا ہے۔ بخاری شریف حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ کی کتاب بھی ہے کہ حضرت امام بخاریؒ نے ہزاروں احادیث میں سے ہزاروں احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ امام بخاریؒ کا اسلوب یہ ہے کہ پہلے مسئلہ بیان کرتے ہیں اور پھر آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین پیش کرتے ہیں۔

یہ حدیث ایک واقعہ کے کچھ حصے پر مشتمل ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک غزوہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھیں۔ یہ غزوۂ مریسیع تھا، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین کے ساتھ واپس تشریف لا رہے تھے۔ راستہ میں ایک جگہ رات کے پچھلے پہر آرام کے لیے قیام کیا، وہاں قریب پانی موجود نہیں تھا اور قافلہ والوں کے پاس پانی کا ذخیرہ بھی ختم ہو چکا تھا، جبکہ اس وقت تک وضو کی بجائے تیمم کرنے کی سہولت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور نماز کے لیے وضو ہی کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے صبح جلدی بیدار ہو کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کو آگے سفر کرنے کا حکم دیا، تاکہ پانی تلاش کر کے نماز کے لیے وضو کیا جا سکے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس سفر پر روانہ ہونے سے قبل اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار مانگ کر لائی تھیں۔ یہ عورتوں کا مزاج شروع سے چلا آ رہا ہے کہ کسی سفر یا تقریب پر جائیں گی تو اچھا لباس اور زیور پہنیں گی اور اگر اپنے پاس نہیں ہو گا تو کسی سے عاریتاً مانگ کر پہن لیں گی۔ آج بھی ایسا ہوتا ہے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بھی یہی کیا تھا، مگر اس صبح کو جب سفر کے لیے آگے روانہ ہونے لگے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ گلے میں ہار موجود نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہار کہیں گر گیا ہے، اسے تلاش کر لیا جائے۔ جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے کہا کہ پہلے ہار تلاش کر لیں، پھر سفر شروع کریں گے۔ چنانچہ ہار کی تلاش شروع ہوئی، مگر خاصی تلاش کے باوجود ہار نہ ملا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجاوے میں تھوڑی دیر سستانے کے لیے لیٹے تو آنکھ لگ گئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سو جاتے تو ہم عام طور پر جگایا نہیں کرتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کجاوے میں سو رہے تھے، ہار نہیں مل رہا، قافلہ رکا ہوا ہے، پانی موجود نہیں ہے، نماز کا وقت گزرتا جا رہا ہے اور پینے کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہے۔ اس سے قافلہ میں پریشانی اور تشویش پیدا ہونے لگی۔ کچھ دوستوں نے مشورہ کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی قافلہ میں موجود ہیں، ان سے عرض کیا جائے، وہ اپنی بیٹی یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کو سمجھائیں کہ ہار کوشش کے باوجود نہیں مل رہا، اس لیے وہ قافلہ کو آگے سفر کرنے دیں تاکہ بروقت نماز پڑھی جا سکے اور سفر کو جاری رکھا جا سکے۔ ان حضرات کی بات سن کر حضرت ابوبکرؓ اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کے کجاوے میں گئے۔

واقعہ کی یہ تفصیلات بخاری شریف ہی میں دوسری روایات میں مذکور ہیں۔ امام بخاریؒ کا ذوق ہے کہ وہ ایک روایت سے کئی مسائل مستنبط کرتے ہیں اور مختلف ابواب میں مسئلہ کی مناسبت سے حدیث کا اتنا حصہ ذکر کر دیتے ہیں جس سے وہ اس مسئلہ پر استدلال کر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی انہوں نے صرف اسی قدر حصہ بیان کیا ہے، جس کا پس منظر عرض کیا جا چکا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ابا جان جب ہمارے کجاوے کے پاس آئے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھے سو رہے تھے، ابا جان نے آتے ہی مجھے ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی اور میرے پہلو میں مکے بھی مارنے لگے۔ بخاری شریف میں دوسری جگہ مذکور ہے کہ مکے سخت تھے، جس سے مجھے درد ہو رہا تھا، بلکہ ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ”فبی الموت“ میں تو مرنے لگی، لیکن یہ بھی فرماتی ہیں کہ میں ڈانٹ ڈپٹ سہہ رہی ہوں، مکے بھی کھا رہی ہوں، مگر حرکت نہیں کر رہی، اس لیے کہ اس سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند خراب ہو گی۔

کم و بیش یہی صورت حال ہجرت کے سفر میں حضرت ابوبکرؓ کو بھی پیش آ چکی تھی کہ غارِ ثور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند خراب ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹی دونوں کو ایک ہی طرح کا مزاج اور ذوق دے رکھا تھا۔

امام بخاریؒ نے اس موقع پر روایت کا صرف اتنا حصہ ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عائشہؓ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور مکے بھی مارے، مگر حضرت عائشہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند خراب ہونے کے خدشہ سے چپ چاپ حرکت کیے بغیر یہ سب کچھ برداشت کرتی رہیں۔

اس کے بعد دوسری روایات کے مطابق واقعہ کی باقی تفصیل یہ ہے کہ اس موقع پر تیمم کا حکم نازل ہوا کہ اگر پانی میسر نہ ہو تو وضو کی بجائے پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ قرآن کریم کا یہ حکم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے اس قافلہ کو سنایا تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ وقتی طور پر پریشانی تو ہوئی، لیکن اس کے بعد یہ بڑی سہولت مل گئی کہ پوری امت کو قیامت تک تیمم کی اجازت میسر آ گئی۔ ایک انصاری صحابی حضرت اسید بن حضیرؓ تو اتنے خوش ہوئے کہ ام المؤمنینؓ کے کجاوے کے پاس آ کر بلند آواز سے یہ پکارنا شروع کردیا کہ ”ماهی باول برکتکم یا آل ابی بکر“ اے ابوبکر کے خاندان! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے، یعنی اس سے قبل آپ کی وجہ سے ہم اس کے علاوہ بھی بڑی برکتیں سمیٹ چکے ہیں۔

اس حکم کے نزول کے بعد تیمم کر کے نماز ادا کی گئی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ کو آگے سفر کرنے کا حکم دے دیا۔ ہار تلاش بسیار کے باوجود ابھی تک نہیں ملا تھا، لیکن جب سفر شروع کرنے کے لیے اونٹ کو اٹھایا گیا تو ہار اس کے نیچے پڑا ہوا تھا، جو حضرت عائشہؓ کی گردن سے گر گیا تھا اور اونٹ اس کے اوپر بیٹھ گیا تھا۔ طحاوی شریف کی ایک روایت کے مطابق ام المؤمنینؓ فرماتی ہیں کہ ہار لمبا تھا اور میں سفر کے دوران اونٹ پر بیٹھے بار بار اونگھ رہی تھی، جس سے گردن کو جھٹکا لگتا تھا، اسی دوران کسی لمبے جھٹکے میں ہار گردن سے نیچے گر گیا اور اونٹ اس کے اوپر بیٹھ گیا۔

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے نیازی کا اظہار تھا کہ ہار اونٹ کے نیچے پڑا ہے اور اس کی تلاش ارد گرد جاری ہے۔ نیچے ہار ہے، اوپر اونٹ ہے، اس کے اوپر کجاوہ ہے اور کجاوے میں خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں، مگر ہار کی تلاش اردگرد چاروں طرف ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ یہ بات سمجھائی کہ غیب کا علم میرے پاس ہے۔ میری مرضی ہو تو دو ہزار سال بعد کی خبر دے دوں، عرش کے اوپر کا حال بتا دوں، زمین کے نیچے کی خبریں دے دوں اور سمندر کی تہہ کی باتیں بتا دوں اور میری حکمت اور مرضی نہ ہو تو اونٹ کے نیچے پڑے ہار کی خبر نہ دوں۔

واقعہ کی تفصیل تو یہ ہے، لیکن میں بخاری شریف کی طالبات کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ امام بخاریؒ نے کتاب النکاح کے آخر میں اس واقعہ کا یہ حصہ کسی مقصد کے لیے بیان کیا ہے؟ اور اس سے مسئلہ کیا نکالا ہے؟ امام بخاریؒ نے اس روایت سے مسئلہ یہ نکالا ہے جو ترجمۃ الباب میں یوں مذکور ہے کہ ”طعن الرجل ابنتہ فی الخاصرۃ عند العتاب“ اگر باپ کسی وجہ سے بیٹی سے ناراض ہو تو کیا غصہ کے اظہار کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ اسے مکا وغیرہ بھی مار سکتا ہے؟ امام بخاریؒ کا خیال ہے کہ مار سکتا ہے، اس لیے کہ مکے مارنے والے حضرت ابوبکرؓ ہیں اور کھانے والی حضرت عائشہؓ ہیں، جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی موجود ہیں۔ اس سے بڑی اور دلیل کیا ہو سکتی ہے؟

یہاں دورۂ حدیث کی طالبات کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آج کے حالات میں یہ بات بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ مغرب ہمیں یہ سبق پڑھانے کی ایک عرصہ سے کوشش کر رہا ہے کہ لڑکا یا لڑکی بالغ ہو جائیں تو ماں باپ کا روک ٹوک اور ڈانٹ ڈپٹ کا حق ختم ہو جاتا ہے اور ان کے کسی معاملہ میں مداخلت کا ماں باپ کو حق نہیں رہتا۔ جبکہ امام بخاریؒ یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد نہیں، بلکہ شادی ہو جانے کے بعد بھی ماں باپ کا یہ حق باقی رہتا ہے کہ وہ بیٹی کے معاملات کی نگرانی کریں، اس کے حالات پر نظر رکھیں اور کوئی غلطی ہو جانے پر اس کی روک ٹوک اور ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ بیٹی کتنی بھی بڑی ہو جائے اور کتنی ہی پروٹوکول والی ہو جائے، مگر باپ کے لیے وہ بیٹی ہی ہے۔ سیدہ عائشہؓ سے زیادہ پروٹوکول والی خاتون کون ہو گی؟ لیکن اس کے باوجود حضرت ابوبکرؓ نے باپ کے طور پر اپنا ڈانٹ ڈپٹ کا حق استعمال کیا اور حضرت عائشہؓ نے اسے پورے تحمل و فرمان برداری کے ساتھ قبول کیا۔

اس موقع پر میں اپنی بیٹیوں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ماں باپ کا ڈانٹ ڈپٹ کا حق ان کے نقصان میں نہیں، بلکہ فائدہ میں ہے کہ انہیں سسرال میں بھی ماں باپ کی سرپرستی اور شیلٹر حاصل رہتا ہے۔ ایک بات پر غور کریں کہ بیٹی شادی کے بعد اگر سسرال میں کسی وجہ سے اذیت میں ہو اور تکلیف میں ہو تو کیا اس کے دکھ درد میں پہنچنا اور اس کے حالات کی خبر گیری کرنا ماں باپ کی ذمہ داری نہیں ہے؟ یہ صرف ذمہ داری نہیں، بلکہ سنتِ رسولؐ بھی ہے۔ اسی طرح اگر لڑکی خدانخواستہ اپنے سسرال میں کسی وجہ سے آباد نہیں ہو سکی اور اسے وہاں سے اٹھنا پڑ گیا ہے تو کیا ماں باپ پر اس کو سنبھالنے کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اسلام سسرال میں آباد نہ ہو سکنے والی لڑکی کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ ماں باپ کو اسے سنبھالنے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”مردودۃ“ یعنی واپس لوٹائی جانے والی بیٹی یا بہن کو عزت و احترام کے ساتھ سنبھالنے والے باپ اور بھائی کو جنت کی بشارت دی ہے۔ اس لیے میری بیٹیاں اس بات پر غور کریں کہ یہ بات ان کے فائدہ میں ہے کہ ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ان کے ماں باپ کی ذمہ داری ہے اور ہمارے معاشرے میں ماں باپ پہنچتے بھی ہیں۔ بلکہ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ بعض ماں باپ تو ضرورت سے زیادہ ہی پہنچ جاتے ہیں، جس سے معاملات سنبھلنے کی بجائے الجھ جاتے ہیں، لیکن جائز حد تک اور جائز طریقہ سے بیٹی کی تکلیف میں مداخلت کرنا ماں باپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔

اسی طرح بیٹی کے سسرال میں آباد نہ ہو سکنے کی صورت میں اسے سنبھالنا اور اس کی کفالت کرنا بھی باپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر بیٹی کے بارے میں یہ باتیں ماں باپ کی ذمہ داری میں شامل ہیں تو اس کے حالات کی نگرانی کرنا اور کسی غلطی پر اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنا ماں باپ کا حق بھی بنتا ہے اور امام بخاریؒ کتاب النکاح کے آخر میں یہ روایت لا کر ہمیں یہی بات سمجھانا چاہتے ہیں۔

ان گزارشات کے ساتھ میں ان طالبات کو اور ان کے والدین اور اساتذہ کو مبارک باد دیتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان بچیوں کو علمِ حدیث کا ذوق، اس پر عمل کرنے کی توفیق اور اس کی خدمت کرنے کے مواقع نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter