جنوبی پنجاب کا سفر

   
۲۶ اپریل ۲۰۱۷ء

گزشتہ دو تین روز جنوبی پنجاب میں کافی مصروف گزرے۔ ۲۲ اپریل کو ملتان میں الکتاب فاؤنڈیشن کی تیرہویں سالانہ سیرت کانفرنس تھی جبکہ ۲۳ اپریل کو وہاڑی کی مسجد باغ والی میں بنات کی مشکوٰۃ شریف کے آخری سبق اور حفاظ کی دستار بندی کا پروگرام تھا۔ چونکہ ان دنوں جامعہ میں تعطیلات ہونے کی وجہ سے اسباق نہیں ہیں اس لیے اس کے ساتھ ہی دو تین پروگرام اور بھی بنا لیے۔ ٹیکسلا کے جناب صلاح الدین فاروقی ہمارے پرانے ساتھی ہیں جن کے ساتھ کم و بیش نصف صدی سے نظریاتی اور تحریکی رفاقت چلی آرہی ہے۔ شروع ہی سے تحریکی پروگراموں کے اجتماعات کا ریکارڈ (آڈیو و تحریر کی صورت میں) محفوظ رکھنے کا ذوق رکھتے ہیں اور بہت سا قیمتی ذخیرہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک اور ساتھی مولانا صالح محمد حضروی بھی اب سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو کر ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں، جو ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہفت روزہ خدام الدین کی ادارت میں مولانا سعید الرحمان علویؒ کے ساتھ شریک کار رہے ہیں۔ ہم تینوں کا اس سلسلہ میں مشورہ ہوا ہے کہ تحریکی اور جماعتی حوالہ سے گزشتہ نصف صدی کے آڈیو اور تحریری ذخیرہ کو جمع کر کے مرتب کرنا کا کام شروع کیا جائے۔ یہ پروگرام اگر ہماری توقعات کے مطابق آگے بڑھا تو امید ہے کہ اگلے دو تین سالوں میں ہم اس تاریخی ریکارڈ کا بیشتر حصہ جمع و مرتب کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

گزشتہ دنوں پشاور کے صد سالہ اجتماع کے موقع پر ہم نے ایک رات حضرو میں جناب راشد علی زئی کے گھر گزاری تھی جو مولانا صالح محمد حضروی کے بھائی ہیں اور اس حوالہ سے کتابی اور جرائد کا خاصا ذخیرہ اپنی لائبریری میں سنبھالے ہوے ہیں۔ اسی موقع پر طے ہوا کہ میرے ملتان کے سفر میں صلاح الدین فاروقی صاحب ہمراہ ہوں گے اور ہم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر کی اس بڑی لائبریری سے استفادہ کی کوئی صورت نکالیں گے جو حضرت مولانا عبد الرحیم اشعرؒ اور ان کے بعد مولانا اللہ وسایا اور مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی کی مساعی سے نادر کتابوں اور دینی جرائد و رسائل کی محفوظ فائلوں کا بہت وقیع خزانہ بن چکی ہے۔

۲۱ اپریل کو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد تھا، جمعیۃ علماء اسلام آزاد جموں و کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف خان نے جمعہ کا خطبہ دیا جس کے بعد ہم حضرت صوفی عطاء اللہ نقشبندی کے ساتھ مل کر دستاربندی اور تقسیم اسناد کے مرحلہ سے گزرے۔ جناب صلاح الدین فاروقی اپنے فرزند حافظ محمد معاویہ کے ساتھ گوجرانوالہ آچکے تھے۔ چنانچہ ہم جلسہ سے فارغ ہوتے ہی فاروقی صاحب کی گاڑی میں ملتان روانہ ہوگئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے راہنما قاری محمد یوسف عثمانی بھی ساہیوال تک شریک سفر تھے۔ نصف شب کے لگ بھگ خانیوال پہنچے جہاں جمعیۃ علماء اسلام (س) پنجاب کے سیکرٹری جنرل مفتی خالد محمود ازہر اپنی مسجد میں ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے فجر کی نماز کے بعد درس قرآن اور ناشتہ کے موقع پر شہر کے سرکردہ علماء کرام کے اجتماع کا اہتمام کر رکھا تھا جو بہت بھرپور تھا اور اس حوالہ سے مفتی صاحب کا ذوق اور محنت دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وہاں سے ہم ہفت روزہ ترجمان اسلام کے سابق مدیر جناب اکرام القادری کے مدرسہ احسن المدارس پہنچے اور ان سے اپنے پروگرام کے سلسلہ میں تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر ایک پرانے دوست جناب شمس القمر قاسمی سے بھی طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی اور ماضی کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔

خانیوال سے ملتان حاضری ہوئی تو ہم نے اپنے کام کا آغاز مہربان کالونی میں دارِ بنی ہاشم سے کیا جو احرار کا مرکز ہے۔ مولانا سید عطاء المؤمن شاہ بخاری اور مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی بیمار پرسی کی اور ان سے دعا کی درخواست کے ساتھ پیرجی سید کفیل شاہ بخاری سے اپنے پروگرام پر تبادلہ خیال کیا اور انہیں اس سلسلہ میں بھرپور تعاون کے لیے تیار پایا۔ صلاح الدین فاروقی صاحب نے ان کے ساتھ چند بزرگوں کی یادگار تقاریر کی کیسٹوں کا تبادلہ بھی کیا۔ وہاں سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر پہنچے تو مولانا اللہ وسایا ہمارے انتظار میں تھے، دو دن ہم ان کے مہمان رہے اور لائبریری کی بہت سی فائلوں کی ورق گردانی کرتے رہے۔ اس دوران مولانا عزیز الرحمان جالندھری، مولانا اللہ وسایا اور مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی کی توجہات اور مہمان نوازی سے محظوظ ہوتے رہے۔ اس موقع پر صلاح الدین فاروقی صاحب تو ان تقاریر کی تلاش میں رہے جو انہوں نے مختلف ادوار میں مرتب کی تھیں اور ہفت روزہ لولاک، ترجمان اسلام اور خدام الدین میں شائع ہو چکی ہیں، جبکہ مجھے ان جرائد میں اپنے شائع شدہ مضامین کی تلاش تھی۔ ہم نے بہت سا ذخیرہ جمع کیا مگر اندازہ ہوا کہ یہ سب کچھ دوچار دن کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کئی بار مستقل طور پر ایام و اوقات کو فارغ کرنا ہوگا۔ چنانچہ میرے ذہن نے تو ابھی سے اس کا تانا بانا بننا شروع کر دیا ہے اور سوچ رہا ہوں کہ اگلے تعلیمی سال کو جلسوں اور عوامی پروگراموں سے فارغ کر کے تعلیمی اور تحریری کاموں کے لیے وقف کر دوں کیونکہ اس کے سوا اب اس کام کی اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ویسے بھی مسلسل سفر اور اجتماعات میں حاضری صحت و عمر کی موجودہ کیفیت میں میرے لیے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

اس دوران الکتاب فاؤنڈیشن کے سالانہ ’’سیرت سیمینار‘‘ میں حاضری ہوئی۔ یہ فورم حضرت مولانا محمد نواز نقشبندی کے رفیق کار مولانا عبد الجبار طاہر اور ان کے رفقاء نے منظم کر رکھا ہے جو گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے تعلیمی اور فکری خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہے۔ تیرہواں سالانہ سیرت سیمینار ایک ہوٹل کے ہال میں تھا جو اچانک بارش اور آندھی کے باوجود بہت کامیاب رہا۔ اجتماع سے مولانا مفتی ارشاد احمداعجاز کراچی، مولانا مفتی محمد زاہد فیصل آباد اور مولانا ڈاکٹر سعید الرحمان ملتان کے علاوہ راقم الحروف اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔ پروگرام میں علماء اور اہل دانش کی دلچسپی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس نوعیت کے تعلیمی اور فکری پروگرام اب وقت کی اہم ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔

اتوار کے روز عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی کی خانقاہ نقشبندیہ کا افتتاحی پروگرام تھا جو کہ بوسن روڈ پر نئی تعمیر شدہ مسجد صدیق اکبرؓ میں نماز ظہر کے بعد منعقد ہوا۔ اس میں مولانا عزیز الرحمان جالندھری اور مولانا اللہ وسایا کے ہمراہ حاضری ہوئی اور نقشبندی سلسلہ کے بعض معمولات میں شرکت کی سعادت بھی حاصل کی۔ جامعہ خالد بن ولیدؓ وہاڑی کے مہتمم مولانا ظفر احمد قاسم اس اجتماع میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ صلاح الدین فاروقی صاحب تو دفتر ختم نبوت میں اپنا کچھ کام مکمل کرنے کے لیے رک گئے جبکہ میں مولانا ظفر قاسم کے ہمراہ اگلے سفر پر روانہ ہوا۔ جامعہ خالد بن ولیدؓ میں مغرب کی نماز پڑھی، چند احباب کے ساتھ مختصر نشست ہوئی جس کے بعد جامع مسجد باغ والی پہنچے جہاں پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا صاحبزادہ محمد زاہد قاسمی بھی جلسہ میں شرکت کے لیے پہنچے ہوئے تھے، ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ جلسہ میں بنات کو مشکوٰۃ شریف کا آخری سبق پڑھایا، حفاظ کرام کی دستاربندی میں شریک ہوا اور اس کے بعد گوجرانوالہ کی طرف واپس روانہ ہوگیا۔

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے احباب کئی دنوں سے میری ’’آنیاں جانیاں‘‘ دیکھ رہے ہیں اور دورۂ تفسیر قرآن کریم کی تفصیلات طے کرنے کے لیے مسلسل انتظار میں ہیں۔ یہ سالانہ دورۂ تفسیر قرآن کریم ۲۹ اپریل ہفتہ سے شروع ہو رہا ہے جو اٹھائیس شعبان تک مکمل ہو جائے گا۔ اس میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے چند دیگر تلامذہ کے ساتھ قرآن کریم کے چند پاروں کی تدریس میرے ذمہ بھی ہوگی جبکہ مروجہ بین الاقوامی نظام و قوانین کے ساتھ قرآن کریم کے احکام و قوانین کا تقابلی مطالعہ میرے محاضرات کا اہم حصہ ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ پروگرام کی معلومات کے لیے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ناظم مفتی محمد عثمان جتوئی سے فون ۰۳۰۱۵۷۹۷۷۳۷ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter