ورلڈ اسلامک فورم (برطانیہ) کے سیکرٹری جنرل مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور ان کے رفیق محترم مولانا اورنگزیب خان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کا سفارت خانہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو خیال ہوا کہ نئے افغان سفیر ملا عبد الحکیم مجاہد سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی، چلو دونوں کام اکٹھے ہو جائیں گے۔ چنانچہ ہم تینوں اور مولانا اللہ وسایا قاسم سفارت خانے جا پہنچے۔ میری بہت سی کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے سے وقت لینے کے تکلف میں نہیں پڑتا، موقع پر کام جائے تو ٹھیک ورنہ پھر سہی کے فارمولے پر اکثر عمل کرتا ہوں۔ گیٹ سے چٹ بھجوائی تو جلدی بلا لیا گیا۔ سفیر محترم موجود تھے بلکہ افغان وزیر اطلاعات ملا امیر خان متقی بھی تشریف لائے ہوئے تھے، ان سے غیر متوقع ملاقات کی خوشی ہوئی۔ اس سے قبل کابل میں ان سے مل چکا ہوں، نوجوان ہیں، ذہین ہیں، اور گفتگو کا اچھا سلیقہ رکھتے ہیں، اردو بول لیتے ہیں اس لیے پاکستانی حضرات کو ان سے گفتگو میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔
دونوں حضرات اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات بھگتا رہے تھے اس لیے ہمیں تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا اور پھر دونوں سے الگ الگ ملاقات ہو گئی۔ پہلے ملا امیر خان متقی ہمارے پاس انتظار گاہ میں آئے اور وہیں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا اور انہوں نے میرے والد محترم (شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر) کا حال بطور خاص دریافت کیا۔
والد صاحب کے براہ راست اور بالواسطہ شاگردوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ ان کی عمر اس وقت پچاسی برس سے زائد ہے اور وہ اب بھی بحمد اللہ تعالیٰ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بخاری شریف پابندی کے ساتھ پڑھا رہے ہیں۔ والد صاحب پشتون ہیں اور پشتو میں روانی کے ساتھ گفتگو اور خطاب کرتے ہیں۔ گزشتہ سال قندھار جا کر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد سے مل چکے ہیں اور اب ضعف و علالت کے باوجود کابل جانے کا شوق رکھتے ہیں، جبکہ اب یہ سفر بظاہر ان کے بس کی بات نہیں نظر آتا۔
افغان وزیر اطلاعات سے افغانستان کی موجودہ صورتحال اور طالبان کی حکومت کو درپیش مختلف مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ بین الاقوامی حلقوں کا وہ دباؤ بھی زیر بحث آیا جو اسلامی احکام و قوانین پر عملدرآمد کے حوالہ سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دباؤ میں اگرچہ اضافہ ہو رہا ہے لیکن امیر المومنین ملا محمد عمر اپنے عزم پر قائم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ صرف ایک چٹان پر کھڑے ہوں، اردگرد کا سارا ماحول ان کے خلاف ہو جائے اور کوئی بھی ان کا ساتھ نہ دے تب بھی وہ اسلامی احکام و قوانین پر مکمل عملدرآمد کے موقف پر قائم رہیں گے اور اس مسئلہ پر کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انہوں کہا کہ امیر المومنین کا یہ عزم ہماری اصل قوت ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں ضرور سرخرو کریں گے۔
ملا امیر خان متقی نے بتایا کہ افغانستان میں کمیونسٹ دور کے نظام تعلیم کے مکمل خاتمہ کے بعد کچھ وقفہ رہا ہے مگر اب تعلیمی ادارے دوبارہ کھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ اور ملک کے مختلف حصوں میں ایسے بیس کے لگ بھگ نئے دینی مدارس نے بھی کام شروع کر دیا ہے جن کے نصاب میں انگریزی زبان اور دیگر عصری تقاضوں کو سمویا جا رہا ہے۔ صنعتی حوالہ سے انہوں نے بتایا کہ شمال کی کشمکش کی وجہ سے بڑے صنعتکار ابھی سرمایہ کاری کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ البتہ قندھار کے اردگرد تھوڑا بہت کام شروع ہے جسے آہستہ آہستہ بڑھایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شمال کا مسئلہ اپنی جگہ پر مگر جنوب اور وسط میں تو مکمل امن ہے اور ایسا امن افغانستان کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے صنعتکاروں اور تاجروں کو کسی خوف کے بغیر آنا چاہیے اور سرمایہ کاری کر کے اس شعبہ میں اپنے افغان بھائیوں کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
افغان وزیر اطلاعات نے ایک اور ضرورت کی طرف توجہ دلائی کہ افغان عوام میں دینی مسائل کا شعور بیدار کرنے اور دینی معلومات کو عام کرنے کے لیے دینی لٹریچر کی ضرورت ہے۔ اور وہ ایسی کتابوں کا فارسی اور پشتو میں ترجمہ کرا کے انہیں شائع اور تقسیم کرانا چاہتے ہیں جن میں مسائل و احکام کو اچھے طریقہ سے سمجھایا گیا ہو۔ اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ کی مشہور کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ کا بطور خاص ذکر کیا جس کا ترجمہ وہ کرا چکے ہیں مگر طباعت کے لیے وسائل میسر نہیں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ کچھ اصحابِ خیر دلچسپی لے کر ایسی چند کتابوں کی طباعت کی ذمہ داری اٹھا لیں تو ایک اچھے اور مفید کام میں پیشرفت ہو جائے گی۔
ملا امیر خان متقی سے ملاقات کے بعد ہم سفیر محترم ملا عبد الحکیم مجاہد سے ملنے کے لیے ان کے کمرے کی طرف بڑھے تو ذہن اس تردد میں تھا کہ اللہ جانے انہیں پہلے کہیں دیکھا ہے یا نہیں۔ لیکن آمنا سامنا ہوا تو صورت کچھ دیکھی بھالی سی لگی مگر پہچان نہ سکا۔ البتہ انہوں نے معانقہ کے ساتھ یہ سوال داغ دیا کہ ’’راشدی صاحب! آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘ مجھے معذرت کے سوا کوئی جواب نہ سوجھا کیونکہ دماغ کا کمپیوٹر اس کے بغیر کچھ نہیں بتا رہا تھا کہ انہیں کہیں دیکھا ضرور ہے۔ چنانچہ یہ عقدہ انہیں خود ہی حل کرنا پڑا کہ افغان مجاہدین کے شہید راہنما مولوی نصر اللہ منصورؒ کے ہمراہ وہ ہمارے ساتھ ایک دفعہ آزادکشمیر کے سفر میں شریک تھے جہاں مولوی صاحب شہید نے دارالعلوم تعلیم القرآن باغ کے سالانہ جلسہ سے خطاب کیا تھا۔ مولوی عبد الحکیم مجاہد جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں، اردو و عربی کے ساتھ ساتھ انگلش پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور معاملہ فہم اور زیرک عالم دین ہیں۔
افغان سفیر نے اپنی تفصیلی گفتگو میں مختلف امور پر روشنی ڈالی جن میں سے دو باتوں کا تذکرہ اس وقت مناسب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے ’’وسیع البنیاد حکومت‘‘ کی اصطلاح کا ذکر کیا جس کا افغانستان کے حوالہ سے ایک عرصہ سے چرچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اس پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے۔ اس سے ان کی مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ عوام کے مختلف گروہوں اور طبقات کی نمائندگی حاصل ہو، کیونکہ عوام کی اکثریت تو طالبان کے ساتھ ہے اور طالبان کی حکومت اور نظام میں ہر طبقہ، گروہ، علاقہ، اور زبان کے افراد شامل ہیں۔ بلکہ اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ خالص اسلامی ذہن رکھنے والے لوگوں کی تنہا حکومت نہ رہے اور اس میں سیکولر اور کمیونسٹ عناصر کو بھی شریک اقتدار کیا جائے تاکہ طالبان اسلامی نظام کے مکمل نفاذ کے پروگرام پر عمل نہ کر سکیں۔ اس لیے اگر سارا افغانستان ایک طرف ہو جائے اور گنتی کے چند لوگ دوسری طرف رہ جائیں تب بھی یہ مغربی ممالک یہی مطالبہ کرتے رہیں گے کہ ’’وسیع البنیاد حکومت‘‘ کے نام پر انہیں ضرور شریک حکومت کیا جائے۔ جبکہ یہ بات ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ جہاد افغانستان کا مقصد ہی اسلامی نظام کا نفاذ تھا، اور طالبان کی تحریک اسی مقصد کو زندہ کرنے اور بروئے کار لانے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ اس لیے اس سلسلہ میں کسی لچک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ آج امریکہ اور اقوام متحدہ ہمیں تسلیم نہیں کر رہے لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا؟ انہوں نے چین کو بھی ایک عرصہ تک تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ اس کی ضد میں تائیوان کو سلامتی کونسل میں بٹھائے رکھا۔ لیکن حقیقت خود کو تسلیم کرا لیتی ہے چنانچہ انہیں آخر کار چین کو تسلیم کرنا ہی پڑا۔ اس لیے ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے اور اس بات کا یقین ہے کہ ہم اگر اپنے عزم اور پروگرام پر قائم رہے اور اس میں مسلسل آگے بڑھتے رہے تو اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں اور ممالک کے لیے ہمارا وجود تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہے گا اور وہ حقیقت سے زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکیں گے۔
ہمارے وفد میں شریک مولانا رضاء الحق سیاکھوی اور مولانا اورنگزیب خان ایک عرصہ سے برطانیہ میں قیام پذیر ہیں اور مغربی میڈیا اور لابیوں کی براہ راست زد میں ہیں۔ اس لیے ان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات و خدشات تھے، لیکن افغان سفارت خانے میں دو گھنٹے گزارنے کے بعد جب ہم باہر نکلے تو ان کے چہروں کا اطمینان اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ ان خدشات و سوالات سے نجات حاصل کر چکے ہیں۔ اور اس کی دلیل مولانا رضاء الحق کا یہ عزم ہے کہ وہ برطانیہ جا کر طالبان حکومت کے خلاف پھیلائے گئے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے کام کریں گے اور وہاں کے مسلمانوں کو اصل صورتحال سے باخبر کرنے کی کوشش کریں گے۔