یکم محرم الحرام ۱۴۴۲ھ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے اجتماع، بعد نماز مغرب جامع مسجد تقوٰی پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں درسِ قرآن کریم، اور بعد نماز عشاء چوک گھنٹہ گھر میں سالانہ فاروقِ اعظمؓ کانفرنس سے خطاب کا موقع ملا۔ ان پروگراموں میں امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلو زیر بحث آئے جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ صرف ملتِ اسلامیہ نہیں بلکہ انسانی تاریخ کی عظیم شخصیات میں شمار ہوتے ہیں اور ان سے ہر دور میں امتِ مسلمہ اور انسانی سوسائٹی نے استفادہ کیا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
حضرت فاروق اعظمؓ کے بیسیوں فضائل و مناقب میں سے ایک یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر نبوت کا سلسلہ منقطع نہ ہو جاتا اور میرے بعد کسی کے نبی کے منصب پر فائز ہونے کی گنجائش ہوتی تو عمرؓ نبی ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی مگر نبوت کا سلسلہ منقطع اور دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے وہ نبی نہیں بن سکے۔ چنانچہ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید میں نازل ہوئیں، جنہیں مفسرین کرامؒ کی اصطلاح میں ’’موافقاتِ عمر‘‘ کہا جاتا ہے اور ان کی تعداد دو درجن کے لگ بھگ بیان کی گئی ہے۔ بعض مواقع پر پیش آمدہ مسائل حضرت عمرؓ نے رائے کا اظہار کیا جس کی تائید میں وحی نازل ہوئی اور قرآن کریم نے ان کی رائے کو صائب قرار دیا۔ مثلاً غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کر دینا چاہیے، یہ رائے قبول نہیں کی گئی اور ان قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا، جس پر اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی آیات کے ذریعے حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید فرما دی، اسی طرح اور بھی بہت سے واقعات احادیث میں موجود و مذکور ہیں۔
سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عمرؓ کے ذوق کے حوالہ سے ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ نبی کریمؐ کے بعض احکام وقتی ضرورت کے لیے ہوتے تھے جو ضرورت مکمل ہو جانے کے بعد باقی نہیں رہتے تھے۔ جیسا کہ ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار میں مواخاۃ کرائی گئی اور انہیں ایک دوسرے کا وارث قرار دیا گیا، جو مدینہ منورہ میں مہاجرین کو آباد کرنے کی وقتی ضرورت کے تحت تھا، بعد میں ضرورت مکمل ہونے پر وراثت کے باقاعدہ احکام نافذ ہوئے اور مواخات کا یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔ اسی طرح ایک موقع پر عید الاضحی کے خطبہ میں جناب نبی اکرمؐ نے اعلان فرمایا کہ قربانی کا گوشت گھر میں تین دن سے زیادہ رکھنا منع ہے، جبکہ اگلے سال عید الاضحی کے موقع پر اعلان کیا کہ گزشتہ سال یہ پابندی وقتی ضرورت کے تحت لگائی گئی تھی کہ کچھ ضرورت مند قبائل مدینہ منورہ میں ہجرت کر کے آئے تھے، پابندی کا مقصد یہ تھا کہ گوشت ذخیرہ کرنے کی بجائے ان کو دے دیا جائے، اب وہ صورتحال نہیں ہے اس لیے پابندی ختم ہو گئی ہے۔
اس پس منظر میں ایک اور حکم پر غور کر لیا جائے کہ عمرۃ القضاء کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کافی عرصہ کے بعد حاضری کا موقع ملنے کی وجہ سے انتہائی عاجزی کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے، جسے اردگرد دیکھنے والے دشمنوں نے کمزوری پر محمول کیا اور کہا کہ ’’وھنتھم حُمّٰی یثرب‘‘ حضورؐ کے ساتھیوں کو یثرب کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور وہ کمزور پڑ گئے ہیں۔ آنحضرتؐ کو یہ بات پسند نہیں آئی، چنانچہ انہوں نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکر رمل کے ساتھ لگائے جائیں، یعنی عاجزی کی بجائے اکڑ کر چلا جائے تاکہ دشمن اسے کمزوری نہ سمجھے۔ یہ رمل اب تک چلا آرہا ہے اور طواف کے پہلے تین چکر آج بھی رمل کے ساتھ لگائے جاتے ہیں، حالانکہ یہ ایک وقتی ضرورت تھی جو اس کے بعد نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں بھی باقی نہیں رہی تھی، بالخصوص فتح مکہ کے بعد تو ماحول بالکل بدل گیا تھا اور اردگرد کوئی طعنہ دینے والا موجود نہیں تھا، مگر رمل بدستور چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔
حضرت عمرؓ کے بارے میں ایک روایت میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت کے دور میں اس بات پر غور کیا کہ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، اسے ختم کر دینا چاہیے، مگر یہ سوچ کر ارادہ ترک کر دیا کہ جب حضورؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں بظاہر ضرورت ختم ہو جانے کے باوجود اسے ختم نہیں کیا تو اس میں یقینًا اور بھی کوئی مصلحت ہو گی، اس لیے اسے جاری رہنا چاہیے۔
یہ میں نے اس لیے عرض کیا کہ آج کل یہ سوچ عام ہوتی جا رہی ہے کہ نبی کریمؐ کی جس سنتِ مبارکہ کے بارے میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ یہ شاید وقتی ضرورت کے تحت تھی اور آج اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اس لیے اس سنت کو جاری رکھنے پر نظرثانی کرنی چاہیے، یہ درست طرز فکر نہیں ہے اور حضرت عمرؓ کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو کام آنحضرتؐ نے شروع کیا اور ان کی حیاتِ طیبہ میں جاری رہا، آج اگر اب کوئی ضرورت دکھائی نہ دیتی ہو تو بھی اس پر نظرثانی کی بات نہیں کرنی چاہیے اور اسے بدستور جاری رہنا چاہیے۔
سیدنا حضرت عمرؓ کے بارے میں اس پہلو پر بھی کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاں تک ان کے فضائل و مناقب اور عظمت و بزرگی کی بات ہے اس کا تذکرہ کرتے رہنا ہمارے ایمان کا حصہ اور تقاضہ ہے اور برکت و رحمت کا باعث ہے مگر آج کی دنیا کو بھی حضرت عمرؓ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسانی سوسائٹی کے مشکل ترین مسائل کے حل کے لیے حضرت عمرؓ کا اسوہ اور نظام راہنمائی کا کام دیتا ہے اور ہمیں اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ بالخصوص گڈگورننس اور ویلفیئر اسٹیٹ کے حوالہ سے تو حضرت عمرؓ کی شخصیت آج بھی حوالہ اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے، جس کا اپنے اور پرائے سب تذکرہ کرتے ہیں۔ ابھی مجھ سے پہلے مقرر نے گاندھی جی کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نظامِ حکومت کے حوالہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت کو مثالی قرار دیا تھا۔
جبکہ ہمارے ہاں تو اس کا مسلسل تذکرہ ہوتا رہتا ہے، آج ہی اخبارات میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی کا بیان شائع ہوا ہے کہ گڈگورننس کے حصول اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے حضرت عمرؓ ہمارے بہترین راہنما ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے اپنے دور میں ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیے تھے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور سب سے بڑی ضرورت گڈگورننس ہے جس کے لیے ہمیں حضرت عمرؓ سے راہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ میں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ چوہدری صاحب محترم کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے مگر میرا سوال ہے کہ حضرت عمرؓ کی گڈگورننس ملک کے کون سے ریاستی تعلیمی ادارے میں پڑھائی جاتی ہے؟
حضرت عمرؓ کی گڈگورننس کے حوالہ سے ایک تاریخی واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا جو امام ابوعبیدؒ نے اسلامی معاشیات کی کلاسیکل کتاب ’’کتاب الاموال‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں یمن کے گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ نے ایک سال صوبے سے وصول ہونے والی آمدنی کا تیسرا حصہ کسی مطالبہ کے بغیر مرکز کو بھجوا دیا، جس پر حضرت عمرؓ نے انہیں باقاعدہ خط کے ذریعے تنبیہ فرمائی کہ یمن سے وصول ہونے والی زکوٰۃ و صدقات پر یمن کے لوگوں کا حق زیادہ ہے، آپ نے مرکز کو کیوں بھجوا دیا ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ یمن کی سرکاری اور عوامی ضروریات پورے ہونے کے بعد اس سال یہ رقم بچ گئی ہے، اس لیے آپ کو بھیج دی ہے۔ اگلے سال انہوں نے نصف، تیسرے سال دو تہائی، اور چوتھے سال پوری رقم مرکز کو بھیج دی اور خط لکھا کہ اللہ تعالٰی کے قانون اور حضرت عمرؓ جیسے عادل حکمران کی برکت سے آج ہمارے صوبے میں کوئی شخص بھی بیت المال سے مدد حاصل کرنے کا مستحق نہیں رہا، اس لیے ساری رقم مرکز کو بھیج رہا ہوں۔
گویا اللہ تعالٰی کے قانون و احکام کی برکات تو ہوتی ہی ہیں، عادل حکمرانوں کی برکت بھی ہوتی ہے، اس لیے آج حضرت عمرؓ کی حیاتِ مبارکہ کے اس پہلو کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ انہوں نے کس سادگی، قناعت، جفاکشی، بے تکلفی اور صبر و حوصلہ کے ساتھ حکومت کی، لوگوں کو انصاف فراہم کیا، اللہ تعالٰی اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و قوانین کو انسانی معاشرے میں عملی طور پر نافذ کر کے سوسائٹی کو اس کی برکات سے فیضیاب کیا۔ اس لیے عرض کیا کرتا ہوں کہ فضائل و مناقب کا ذکر بھی ضروری ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس سے ثواب و اجر ملتا ہے، برکات حاصل ہوتی ہیں، اور اپنے بزرگوں کے ساتھ نسبت بھی تازہ اور پختہ ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی دنیا کے مسائل کیا ہیں اور آج کی انسانی سوسائٹی کو کون سی مشکلات، پرابلمز اور چیلنجز درپیش ہیں؟ ہمارا ایمان ہے کہ ان سب کا علاج اور حل قرآن و سنت اور خلافتِ راشدہ کے نظام میں موجود ہے مگر ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے، اور ہم اس حوالہ سے دنیا کی راہنمائی کے لیے علمی اور عملی طور پر کوئی کردار اختیار نہیں کر رہے۔
چنانچہ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے میں علماء کرام، دینی کارکنوں بالخصوص دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خلفاء راشدینؓ اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کے دور حکومت کے سیاسی، انتظامی، معاشی، عدالتی اور معاشرتی نظام و احکامات کو سمجھنا اور آج کی دنیا کے سامنے پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اس سلسلہ میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پوری طرح سمجھتے ہوئے ان کی ادائیگی کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالٰی سب کو توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔