یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبد القیوم خان کو وزیرداخلہ بنایا ہی اس لیے ہے کہ وہ ملک کی جمہوری قوتوں اور عوامی صوبائی حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلسل سازشیں کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان موصوف کی تمام سرگرمیوں کا محور یہی مقصد رہا۔ حتیٰ کہ جب سندھ کے لسانی فسادات پورے عروج پر تھے، لسانی عصبیت کا جنون مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا گلا کٹوانے میں مصروف تھا اور پورا سندھ خون میں نہایا ہوا تھا، خان موصوف سندھ میں وزیرداخلہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے سرحد کی جمہوری حکومت کے خلاف تقریروں اور الزام تراشی میں مصروف تھے۔ اس ’’مشن‘‘ سے ان کی لگن ملاحظہ فرمائیے کہ بلوچستان اور سرحد کی آئینی، جمہوری اور اکثریتی حکومتوں کو جب تک غیر جمہوری طور پر سبکدوش نہیں کر دیا گیا، وہ چین سے نہیں بیٹھے۔
مگر سرحد و بلوچستان میں اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد ان کو یہ بیکاری راس نہ آئی اور وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت آزاد کشمیر کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف ریشہ دوانیوں کے محاذ پر آ دھمکے اور آج آزاد کشمیر کا خطہ خان عبد القیوم خان کی ’’فنی مہارت‘‘ کا شاہکار بنا ہوا ہے۔ صدر آزاد کشمیر کو قادیانیت کی تبلیغ کی ممانعت کرنے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے جرم میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ عبد القیوم خان، خورشید میر اور یوسف بچ کی تثلیث آزادکشمیر کی عوامی حکومت کو سبکدوش کر کے قادیانیت کا تحفظ کرنے کا تہیہ کر چکی ہے اور پاکستان کے ان نادان دوستوں کو اس بات کی بھی پروا نہیں رہی کہ آزاد کشمیر کی حکومت کے خلاف پاکستان کی وزارت داخلہ و امور کشمیر کی اس کھلم کھلا مداخلت سے عالمی رائے عامہ کے سامنے مسئلہ کشمیر کو کس قدر نقصان پہنچے گا اور آزاد کشمیر حکومت کی آزاد پوزیشن کس حد تک مشکوک ہو کر رہ جائے گی۔ ہم اس مداخلت کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور سردار عبد القیوم خان کو یقین دلاتے ہیں کہ تحفظ ناموس رسالتؐ اور آزادیٔ کشمیر کی مہم میں پاکستان کے غیور عوام ان کے ساتھ ہیں۔
لندن میں بیٹھ کر پاکستان اور بھارت کی کنفیڈریشن کے منصوبے پیش کرنے والے نواب اکبر بگٹی جب سے بلوچستان کے گورنر بنے ہیں، صوبہ کی اکثریتی سیاسی پارٹیوں اور عوامی قوتوں کے خلاف مسلسل ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ ان صاحب نے نیپ جمعیۃ کے اکثریتی پارلیمانی گروپ کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اکثریتی گروپ کے ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے لالچ، دباؤ، دھمکی حتیٰ کہ منت سماجت کے حربے بھی استعمال کیے، مگر ان کی آرزو کسی طرح بر نہ آئی اور اقلیتی گروپ کو کرسیٔ اقتدار پر مسلط کرنے کے بعد بھی اس نامسعود مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ہر طرف سے ناکام ہو کر بگٹی صاحب نے مینگل اور مری قبائل کے علاقوں میں سوچی سمجھی اسکیم کے تحت گڑبڑ کرا کے فوجی ایکشن کے لیے راہ ہموار کی اور مرکزی وزیرداخلہ مسٹر عبد القیوم خان سے ملی بھگت کر کے اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کی راہ نکالی۔ بگٹی قبیلہ کے اس نواب نے اپنی کرسی کو بچانے کے لیے آج بلوچستان کے غیور عوام پر سنگینیں تان رکھی ہیں اور بلوچستان میں فوج کشی کے بعد حالات لحظہ بہ لحظہ دگر گوں ہوتے جا رہے ہیں۔
ہم مرکزی حکومت سے صرف اتنی گزارش کریں گے کہ خدا کے لیے ایک نواب کی کرسی کو بچانے کے لیے پورے ملک کو داؤ پر نہ لگائیں۔ بیرونی طاقتیں پاکستان کو ختم کرنے کے لیے گھات میں بیٹھی ہیں، انہیں بہانہ فراہم نہ کریں۔ اکبر بگٹی کا اقتدار ملک کے وجود و سلامتی سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ بلوچستان میں اکثریتی حکومت کا قیام ایک سیاسی مسئلہ ہے اور سیاسی مسئلہ کو فوج کے ذریعہ حل کرنے کا انجام آپ مشرقی پاکستان میں دیکھ چکے ہیں۔ بلوچستان کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ وہاں سے فوج واپس بلائی جائے، بگٹی صاحب کو رخصت دی جائے، اور نیپ جمعیۃ کے اکثریتی پارلیمانی گروپ کی آئینی و جمہوری حکومت کو بحال کیا جائے۔