نفاذِ اسلام کے سلسلے میں فکری کنفیوژن اور اعتدال کی راہ

   
دسمبر ۲۰۱۲ء

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۱۲ نومبر ۲۰۱۲ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:

’’القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے چھوٹے بھائی محمد الظواہری نے کہا ہے کہ سینا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی خبریں گمراہ کن ہیں۔ ہماری جماعت دوسروں کو کافر قرار نہیں دیتی، اس لیے ہم پر تکفیری فرقے کے الزامات بے سروپا ہیں۔ ان اطلاعات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ ’’اسلامی جہاد‘‘ قاہرہ میں دہشت گرد بم حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایسی خبریں اسلامی جہاد کے خلاف میڈیا میں ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ مصری میڈیا اور سکیورٹی اداروں کو سابق حکومت کی باقیات سے پاک کیا جائے۔ ’’اسلامی جہاد‘‘ اسلحے کے بجائے وعظ، کانفرنسوں اور کتابوں کے ذریعے اسلامی فہم پھیلانے میں مصروف ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ہماری جماعت سیاست میں حصہ لینے کی متمنی نہیں، کیونکہ ہم جمہوریت کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اس جمہوریت کے قائل ہیں جو انصاف، انسانی عظمت اور مساوات قائم کرنے میں معاون ہو۔ صرف ایسی جمہوریت ہی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

ڈاکٹر محمد الظواہری نے ایک ہی سانس میں اتنی باتیں کہہ دی ہیں کہ ان سب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ہر ایک پر تبصرہ کرنا مشکل سا ہو گیا ہے، لیکن اس سے اتنی بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ نفاذ اسلام، جہاد اور جمہوریت کے حوالے سے اس طرح کی کنفیوژن کم و بیش پورے عالم اسلام میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے اور نفاذ اسلام کے خواہاں دینی حلقے ہر مسلم ملک میں اسی قسم کی ذہنی و فکری کشمکش سے دوچار ہیں جو ڈاکٹر محمد الظواہری کے مذکورہ بالا بیان کے بین السطور جھلک رہی ہے۔

نفاذِ اسلام تو دنیا بھر کے اکثر مسلمانوں کی دلی خواہش ہے اور اس کے لیے بیسیوں ممالک میں کسی نہ کسی درجے میں محنت بھی ہو رہی ہے، لیکن بعض بنیادی امور پر ذہن واضح نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مقامات پر یہ محنت اور جدوجہد وہ ثمرات نہیں دے رہی جن کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں اسلامی ریاست اور شرعی حکومت کے حوالے سے کام کرنے والے حلقوں کو چند مختلف دائروں میں تقسیم کر کے اس صورتحال کا زیادہ بہتر طور پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے:

  • مسلم ممالک کی قومی سیاست میں ایک طبقہ جو اس وقت سب سے زیادہ مؤثر، فعال اور با وسائل ہے، ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مسلمان ہونے کے ناتے سے اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں اسلام کے ایک نظام ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، بلکہ نفاذِ اسلام یا کسی اسلامی قانون کی ترویج کے مطالبہ پر انہیں تعجب ہوتا ہے اور وہ اسے ’’بے وقت کی راگنی‘‘ سمجھتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقات زیادہ تر ایسے ہی افراد پر مشتمل ہیں اور ایک اسلامی ریاست کی تشکیل یا کسی مسلمان ملک میں قرآن و سنت کے قوانین کے عملی نفاذ کی راہ میں وہ ایک مضبوط رکاوٹ ہیں۔
  • ایک طبقہ وہ ہے جو نفاذِ اسلام کے عنوان سے گھبراتا تو نہیں لیکن اس کے نزدیک اسلام صرف چند اسلامی عبادات و شعائر کا نام ہے اور وہ عبادات و اخلاق کے دائرے سے ہٹ کر نفاذ کے درجے میں اسلامی قانون اور شریعت کے کسی ضابطے کو رو بہ عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ مسلم ممالک کی قومی سیاست میں ایسے افراد بھی بکثرت موجود ہیں اور بد قسمتی سے سیکولر حلقوں کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو ہی اسلامی حلقے تصور کر کے عام مسلمان ان سے اس قسم کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو پوری نہ ہونے پر مایوسی پھیلتی ہے۔
  • ایک طبقہ وہ ہے جو فی الواقع نفاذِ اسلام کا خواہاں ہے اور یہ لوگ ملک کے دستور و قانون میں قرآن و سنت کی بالادستی اور اس پر عملدرآمد پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے، رولنگ کلاس کی ذہن سازی، نفاذِ اسلام کے لیے ضروری رجال کار کی تیاری، اور نفاذِ اسلام کے سلسلے میں جدید ذہن کے اشکالات و اعتراضات کا منطقی طور پر جواب دے کر اس کی تشفی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انہیں کسی جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔
  • ایک طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو رائے عامہ، ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعے نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو ’’کارِ بے کاراں‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد اس سارے کام سے کنارہ کش ہو کر خود کو عبادت و ریاضت میں مشغول رکھے ہوئے ہے اور نفاذِ اسلام کے سارے کام کو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت امام مہدیؒ کے ظہور کے ساتھ متعلق سمجھ کر ان کے انتظار میں شب و روز مصروف ہے۔ جبکہ ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو ان ساری رکاوٹوں اور کوتاہیوں کے ردعمل میں جذباتیت کا شکار ہو کر ہتھیار بکف ہیں اور ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق شہادتوں اور قربانیوں کو اس جدوجہد کا واحد راستہ سمجھے ہوئے ہیں۔

اسلامی نظام کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے بھی اسی طرح کی کنفیوژن پائی جاتی ہے:

  • بہت سے لوگ وہ ہیں جو جدید سیاسی اور معاشرتی نظریات و افکار کو بالکل مسترد کرتے ہوئے نفاذِ اسلام کے عمل کو اب سے صدیوں قبل کے ڈھانچے اور اسٹرکچر کے ساتھ دوبارہ مسلم معاشرے میں لانا ضروری سمجھتے ہیں۔ حتٰی کہ وہ اس ناگزیر فرق کو سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ آج کے دور میں نہ تو محض طاقت کو حقِ حکمرانی کا جواز قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی خاندانی تقدس و وجاہت کسی کے حق حکمرانی کی وجہ بن سکتا ہے۔ جبکہ آج کا دور حقِ حکمرانی کے حوالے سے خلافتِ راشدہ کے نکتۂ آغاز کی طرف واپس جا چکا ہے کہ حقِ حکمرانی صرف اس کو حاصل ہوگا جسے عوام کے اعتماد و قبول کی سند حاصل ہو گی۔
  • نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو ان لوگوں کی تکفیر کو ضروری سمجھتی ہے جو ان کے تجویز کردہ نقشے اور طریق کار سے اتفاق نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے خیال میں نفاذِ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ان کی جدوجہد میں کسی سطح پر مزاحم ہوتے ہیں، یا ان کا اس طرح ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس طرح وہ چاہتے ہیں۔ اور بات صرف تکفیر تک نہیں رکتی بلکہ تکفیر کے بعد انہیں راستے سے ہٹا دینا بھی ’’جہاد‘‘ کا لازمی حصہ قرار پاتا ہے۔
  • مغربی فکر و فلسفہ کو بالکل مسترد کر دینے یا کلیتاً قبول کر لینے کی دو انتہاؤں کے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ’’خذ ما صفا ودع ما کدر‘‘ کا قائل ہے۔ لیکن جدید سیاسی نظریات اور اسلام کے سیاسی نظام کے درمیان مطابقت و موافقت اور مخالفت و تفاوت کو واضح کرنے کے لیے جس علمی محنت اور جگرکاوی کی ضرورت ہے، وہ بالکل مفقود دکھائی دیتی ہے۔

اس تناظر اور پس منظر میں اپنے ان بزرگوں کی بصیرت و تدبر کی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے نئے ملک پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ان سارے مسائل کا جائزہ لے کر اجتماعی اجتہاد کے ذریعے ایک متوازن راستہ اختیار کیا اور نفاذِ اسلام کے لیے ’’قرارداد مقاصد‘‘ اور تمام مکاتبِ فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے مرتب کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی صورت میں جامع، قابلِ عمل اور صحیح رخ طے کر دیا جس کی بنیاد ان نکات پر تھی کہ:

  • حقِ حکمرانی عوام کے اعتماد کی صورت میں حاصل ہوگا اور وہی حکومت کر سکیں گے جنہیں عوام اس مقصد کے لیے منتخب کریں گے۔
  • ریاست و حکومت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلٰی اور قرآن و سنت کی بالادستی کے تابع ہو گی۔
  • نفاذِ اسلام کے لیے پُراَمن سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے عسکریت کا راستہ اختیار کرنے سے مکمل گریز کیا جائے گا۔
  • نفاذِ اسلام کے لیے قرآن و سنت اور امت کا اجماعی تعامل ہی بنیاد ہوگی۔ جبکہ جدید ضروریات اور تقاضوں کو نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے لیے اجتہاد کے شرعی اصولوں سے کام لیا جائے گا۔

ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی دینی جماعتیں اور علمی مراکز اگر اپنے ان اجتماعی اصولوں کا صحیح پہرہ دیتے اور اجتماعی اجتہاد کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے دنیائے اسلام کی راہنمائی کو اپنی ذمہ داری سمجھ لیتے تو شاید اس کنفیوژن کی نوبت نہ آتی جس کی جھلکیاں ڈاکٹر محمد الظواہری کے مذکورہ بالا بیان کے بین السطور نظر آرہی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کا صحیح راستہ آج بھی یہی ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان کے دینی حلقے اور علمی مراکز اپنی اس ذمہ داری کا اب بھی سنجیدگی کے ساتھ احساس کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter