ربیع الاول ۱۴۳۵ھ کی سرگرمیاں

   
۱۱ جنوری ۲۰۱۴ء

ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک تذکرہ کی محافل کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ سلسلہ عام طور پر ربیع الثانی میں بھی جاری رہتا ہے اور مختلف مکاتب فکر کے لوگ اپنے اپنے ذوق کے مطابق جناب سرور کائناتؐ کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں سے اس حوالہ سے جلسوں میں حاضری کے مسلسل تقاضے رہتے ہیں مگر اسباق کی وجہ سے سب دوستوں کی فرمائش پوری کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ پھر بھی کچھ دوستوں کا اصرار حاوی ہو جاتا ہے اور بعض مقامات پر جانا ہی پڑ جاتا ہے۔

گزشتہ روز (۹ جنوری) کو جوہر آباد کی مسجد نمرہ میں ’’جناب نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ اور انسانی حقوق‘‘ کے موضوع پر مغرب کے بعد سیمینار تھا۔ سرگودھا میں مولانا محمد الیاس گھمن کو پتہ چلا تو تقاضہ کیا کہ جاتے ہوئے ان کے مرکز میں بھی حاضری اور بیان ہو جائے۔ چنانچہ ظہر اُن کے ہاں پڑھی، مرکزِ اہلِ سنت کے نام سے ان کا ادارہ تعلیمی اور خانقاہی دونوں حوالوں سے علماء کرام اور طلبہ کی توجہات کا مرکز بنتا جا رہا ہے اور مختلف شعبوں بالخصوص دفاع حنفیت میں ان کا منظم اور مربوط کام دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ ظہر کے بعد تخصص کی کلاس میں کم و بیش ایک گھنٹہ گفتگو کا موقع ملا جس میں ’’حنفیت کے دفاع کے تاریخی پس منظر، اس کی دینی ضرورت اور عصرِ حاضر میں اس کے ضروری تقاضوں‘‘ پر بات چیت کی اور عرض کیا کہ مجھے آپ کے ہاں کتاب، دلیل، مطالعہ اور افہام و تفہیم کا ماحول دیکھ کر مسرت ہوتی ہے اور اسی کو آج کی اہم دینی ضرورت سمجھتا ہوں۔ جامعہ اسلامیہ محمودیہ سرگودھا کے مہتمم مولانا اشرف علی صاحب وہیں تشریف لے آئے، وہ ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں، ان کے ساتھ اس خوشخبری پر کہ عصر کے وقت مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی ان کے ہاں تشریف لا رہے ہیں، جامعہ محمودیہ میں حاضری کا وعدہ کر لیا۔ عصر کی نماز وہاں ادا کی اور دونوں دوستوں کے ساتھ مختصر محفل میں باہمی دلچسپی کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔

مغرب کے بعد جوہر آباد پہنچے تو جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل مولانا فیصل محمود اور مسجد نمرہ کے جلسہ کے منتظم مولانا مفتی حسین احمد کے ساتھ بزرگ دانشور جناب عبد الرشید ارشد کو بھی منتظر پایا جو معروف صاحبِ قلم ہیں اور مختلف موضوعات پر ان کی تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ جوہر آباد میں جمعیۃ علماء اسلام کے پرانے بزرگ حکیم علی احمد خان صاحب کی خدمت میں ہمیشہ حاضری ہوتی رہی ہے اور وہ بھی شفقت سے نوازتے ہیں۔ صاحبِ فراش ہیں، حاضری پر بہت خوش ہوئے، پرانی یادیں تازہ کرتے رہے اور دعائیں دیں۔ جوہر آباد میں جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ مولانا غلام ربانیؒ بھی ہمارے پرانے رفقاء کار میں رہے ہیں، ان کے فرزند مولانا رشید ربانی سے ملاقات و گفتگو کا موقع ملا۔

سیمینار میں انسانی حقوق کے حوالہ سے مغربی فلسفہ اور اسلامی تعلیمات میں فرق پر کچھ معروضات پیش کیں اور گزارش کی کہ مغرب غلط طور پر اس بات کا دعویدار ہے کہ انسانی حقوق کا شعور اس نے بیدار کیا ہے اور انسانی حقوق سے سوسائٹی کو اس نے متعارف کرایا ہے۔ مغرب کی معاشرتی بیداری سے ایک ہزار سال قبل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی معاشرے کو انسانی حقوق کا ایک جامع نظام دے چکے تھے اور انہوں نے لوگوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا جو شعور بیدار کیا، وہ قیامت تک اس حوالہ سے مشعلِ راہ رہے گا اور اسلام کا حقوق و فرائض کا نظام آج بھی دنیا کا متوازن ترین نظام ہے۔

گزشتہ دنوں گجرات میں جمعیۃ علماء اہلِ سنت کے زیر اہتمام ایک مسجد میں سیرت النبیؐ کے موضوع پر گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے اظہار میں حضرات صحابہ کرامؓ کا ذوق بھی ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ اپنے ذوق کا اظہار اس طرح فرماتے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا چہرۂ انور سامنے ہو اور زیارت کرتا رہوں۔ جبکہ حضرت عمر بن العاصؒ فرماتے ہیں کہ میں جناب نبی اکرمؐ کے چہرہ مبارک کے خدوخال بیان نہیں کر سکتا اس لیے کہ محبت کے رعب میں کبھی جی بھر کر دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ اسی طرح ہر صحابی کی تمنا ہوتی تھی کہ اسے مرتے وقت نبی کریمؐ کی زیارت نصیب ہو اور وہی اس کا جنازہ پڑھائیں، لیکن ایک صحابیؓ نے وصیت کی کہ اس کا جنازہ اگر رات کے وقت ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع نہ دی جائے اس لیے کہ دشمنوں کا علاقہ ہے، کہیں کوئی دشمن آپؐ کو نقصان نہ پہنچا دے۔

یہ محبت اور اس کے اظہار کے اپنے اپنے انداز ہیں لیکن ان میں یہ بات ضرور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کی پسند و ناپسند کا لحاظ رکھا جائے۔ شمائل ترمذی کی ایک روایت میں حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ مجلس میں تشریف لاتے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ احترام میں اٹھ کھڑے ہوں لیکن ہم ایسا کرتے نہیں تھے ’’لمکان کراھتہ‘‘ اس لیے کہ آپؐ کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ لہٰذا ہمیں محبت و عقیدت کا اپنے اپنے انداز میں اظہار کرنا چاہیے لیکن اس میں جناب نبی اکرمؐ کی پسند و ناپسند کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter