دین میں عُسر اور یُسر کا مفہوم

   
جامع مسجد صدیقیہ، سیٹلائیٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ
۲۲ جولائی ۲۰۱۴ء

(۲۴ رمضان المبارک ۱۴۳۵ھ کو نماز فجر کے بعد سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کی زیر نگرانی جاری ”فہم قرآن و سنت کورس“ کی نشست سے خطاب۔ ادارہ نصرۃ العلوم)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں ماہِ رمضان میں قرآن کریم کے نزول اور روزے کی فرضیت کا تذکرہ ہے، اور مسافر و مریض کے لیے روزہ دوسرے دنوں میں قضا کر لینے کی سہولت بیان کی گئی ہے، وہاں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یرید اللّٰہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر‘‘ (البقرہ ۱۸۵) اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتے ہیں اور تنگی کا ارادہ نہیں فرماتے۔ آج قرآن کریم کے اس ارشاد گرامی کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یُسر اور عُسر کا مفہوم کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے شریعت کے احکام میں تنگی اور آسانی کی کون سی صورتیں بیان فرمائی ہیں۔

پہلی بات تو روزے کے حوالے سے دیکھ لیں کہ روزے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے اور ہم پر بھی فرض کیے گئے ہیں، لیکن ہمارے لیے دو بڑی سہولتوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے:

ایک یہ کہ روزہ فرض ہے جو ہر حال میں رکھنا ہے لیکن اگر بیماری اور سفر کی وجہ سے روزے میں دشواری پیش آرہی ہے تو اجازت دی گئی ہے کہ اس وقت روزہ نہ رکھیں اور بعد میں مناسب ایام میں قضا کر لیں۔ جبکہ اگر بڑھاپے اور بیماری کی نوعیت ایسی ہے کہ بعد میں بھی قضا نہیں ہو سکتی تو فدیہ دے دیں۔

یہاں ایک مسئلہ کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ روزہ رمضان المبارک میں نہ رکھ سکنے کی صورت میں فدیہ دیا جاتا ہے اور بعض لوگ معمولی بیماری پر بھی فدیہ دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ فدیہ روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ قضا نہ کر سکنے کی صورت میں ہے۔ جو شخص رمضان المبارک میں روزہ نہیں رکھ سکتا مگر بعد میں قضا کر سکتا ہے اس کے لیے فدیہ نہیں بلکہ قضا ہے۔ البتہ جو بعد میں قضا بھی نہیں کر سکتا اس کے لیے فدیہ کی سہولت ہے۔ حتیٰ کہ فقہاء کرامؒ نے لکھا ہے کہ اگر یہ سمجھ کر فدیہ دے دیا کہ رمضان المبارک میں روزہ نہیں رکھ سکتا اور بعد میں قضا بھی اس کی استطاعت میں نہیں ہے، مگر بعد میں کسی وقت قضا کرنے کی استطاعت ہو گئی تو قضا ضروری ہو جائے گی اور دیا گیا فدیہ صدقہ شمار ہو گا۔

یہ روزے میں ایک بڑی سہولت ہے جو دو مرحلوں میں دی گئی ہے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو بعد میں قضا کرنے، اور دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اگر بعد میں قضا بھی نہیں کر سکتا تو فدیہ دے دے۔

روزہ میں دوسری سہولت ہمیں یہ دی گئی ہے کہ پہلی امتوں کا روزہ دن رات کا ہوتا تھا جو رات سونے سے شروع ہو جاتا تھا اور اگلے روز شام تک جاری رہتا تھا، سحری اس میں نہیں ہوتی تھی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے کا دورانیہ کم کر دیا اور رات اس سے نکال کر سحری کھانے کو سنت قرار دے دیا۔ اور اس کی وجہ ہماری ایک کمزوری بیان کی کہ ’’علم اللّٰہ انکم کنتم تختانون انفسکم‘‘ (البقرہ ۱۸۷) اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے ہو۔ وہ یہ کہ روزے میں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کی مباشرت بھی منع ہے لیکن کچھ لوگوں سے رات کو اس سے صبر نہیں ہوتا تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے خیانت سے تعبیر کر کے فرمایا ہے کہ وعفا عنکم پچھلی کوتاہیاں اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دی ہیں اور آئندہ کے لیے رات کو روزے سے نکال دیا ہے، اب روزہ طلوعِ فجر سے شروع ہوتا ہے اور غروبِ آفتاب تک رہتا ہے۔

یہ دو بڑی سہولتیں اللہ تعالیٰ نے روزے میں ہماری امت کو دی ہیں جن کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ تمہارے لیے سہولت اور یُسر کا راستہ بتاتا ہے اور تمہیں تنگی اور عُسر میں ڈالنا پسند نہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ کا عمومی ضابطہ یہ ہے کہ ’’لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا‘‘ (البقرہ ۲۸۶) اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی ہمت اور طاقت سے زیادہ کام نہیں لگاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی حکم جو کسی انسان کی طاقت میں نہ ہو، شریعت میں اس سے اس کا تقاضہ نہیں کیا گیا۔ اور اگر کوئی کام اس کی طاقت سے باہر ہو گیا ہے تو اس کے مطابق اسے سہولت دے دی گئی ہے، جیسا کہ نماز کے بارے میں ہے کہ

  1. مسجد میں پڑھو، لیکن اگر کوئی عذر ہو تو گھر میں یا جہاں بھی ہو پڑھ لو۔
  2. کھڑے ہو کر پڑھو، اگر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھ لو، بیٹھ بھی نہیں سکتے تو لیٹ کر پڑھ لو، اگر حرکت بھی نہیں کر سکتے تو اشاروں سے پڑھ لو۔
  3. نماز کے لیے طہارت ضروری ہے، اگر پانی میسر نہیں ہے یا پانی کے استعمال پر کسی وجہ سے قدرت نہیں ہے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔

جبکہ روزے کے بارے میں مرحلہ وار سہولت کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے، یہ سب سہولتیں انسانی طاقت اور ہمت کے حوالے سے ہیں اور ان کا مقصد ہر مسلمان کو شرعی فریضہ کی ادائیگی میں آسانی مہیا کرنا ہے اور اس کی طاقت و ہمت کے مطابق اس سے کام لینا ہے۔

یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ انسان کے بس میں کون سا کام ہے اور کون سا نہیں ہے، اس کا فیصلہ کرنا کام کرنے والے پر نہیں چھوڑا گیا۔ ورنہ انسانی نفسیات عام طور پر یہ ہیں کہ اگر اس سے کہہ دیا جائے کہ یہ کام اگر تم سہولت سے کر سکتے ہو تو کر لو، اور اگر سہولت نہ محسوس کرو تو نہ کرو، تو پھر صرف دین کے احکام نہیں بلکہ دنیا کے کام بھی اکثر رک جائیں گے اور کوئی کام بھی نہیں ہو سکے گا۔ انسان فطرتاً سہل اَنگار ہے، اس لیے یہ فیصلہ کرنا کام کرنے والے کا اختیار نہیں ہے بلکہ شریعت نے خود ہی جہاں تنگی محسوس کی ہے وہاں سہولت دے دی ہے، اس لیے کہ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون سا کام کر سکتا ہے اور کونسا کام نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں کوئی مشین ہے جس کے بارے میں ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون سے کام کر سکتی ہے اور کون سا کام اس کے بس میں نہیں ہے، اس بات کا فیصلہ ہم مشین بنانے والی فرم سے پوچھ کر کرتے ہیں کہ بنانے والی فرم ہی بہتر جانتی ہے کہ اس کی بنائی ہوئی مشین سے کون سا کام لیا جا سکتا ہے اور کونسا کام وہ مشین نہیں کر سکتی۔ اسی طرح انسانی طاقت اور صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں اور انہوں نے اسی کے مطابق شریعت کے احکام و ضوابط مقرر فرمائے ہیں۔

اس طرح عُسر اور یُسر کا ایک دائرہ یہ بھی ہے کہ جوں جوں انسانی صلاحیتوں اور قوت میں کمزوری آتی گئی ہے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں کے احکام آسان ہوتے چلے گئے ہیں۔ اور آخری امت کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے معاملات میں ایسی آسانیاں فراہم کی ہیں جو پہلی امتوں کو حاصل نہیں تھیں، جن میں سے بعض کا ذکر ہو چکا ہے۔ اور یہ بھی ان میں شامل ہیں کہ پہلے غنیمت کا مال استعمال کرنا جائز نہیں تھا، اب اسے حلال و طیب کر دیا گیا ہے۔ پہلے قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد میدان میں ڈال دیا جاتا تھا اور آسمان سے آگ آ کر اسے جلا دیتی تھی، اب قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور اس طرح کی بہت سی سہولتیں ہیں جو ہماری امت کو مرحمت فرمائی گئی ہیں۔

یہاں ایک اور بات قابلِ توجہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کو جوں جوں اسباب اور وسائل کی فراوانی کی سہولت ملتی جا رہی ہے اس کی ذاتی قوت و صلاحیت کمزور ہوتی جا رہی ہے، مثلاً

  1. جب سواری عام میسر نہیں تھی لوگ میل ہا میل پیدل سفر کر لیتے تھے، اب ایسا نہیں ہو سکتا۔
  2. پہلے حکیم نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری اور اس کا سبب بیان کر دیتا تھا، اب معمولی بیماریوں کے تعین کے لیے ڈاکٹر صاحبان کو مختلف مشینوں کی رپورٹوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
  3. ہمارے بچپن تک لوگ دیے، موم بتی، لالٹین اور لیمپ کی روشنی میں لکھ پڑھ لیا کرتے تھے، اب کمرے میں ایک بلب یا ٹیوب کو لکھنے پڑھنے کے لیے کافی نہیں سمجھا جاتا وغیر ذٰلک۔

جوں جوں سائنسی ترقی بڑھ رہی ہے اور اسباب و وسائل کی سہولتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اسی حساب سے انسان کی ذاتی صلاحیتوں میں کمزوری بڑھتی جا رہی ہے۔ اس طرح ہم آج کے لوگ اسباب و وسائل کے حساب سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں، جبکہ پہلے لوگ ذاتی استعداد اور صلاحیتوں کے حوالے سے ہم سے کہیں زیادہ قوت و طاقت رکھتے تھے۔ گزشتہ شریعتوں کے احکام کے تسلسل میں جو سہولتیں فراہم کی جاتی رہی ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ لیکن جناب نبی اکرمؐ پر وحی کا سلسلہ مکمل اور نبوت کا دروازہ بند ہو جانے کے بعد اب شریعت کے اصولی احکام مکمل ہو گئے ہیں اور منصوص احکام میں بنیادی تبدیلی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ البتہ احکام کی بجا آوری میں انسان کی ہمت و استطاعت کا لحاظ آج بھی موجود ہے، اور فقہاء کرام ہر دور میں شریعت کے اصول و ضوابط کے دائرے میں اس حوالے سے سہولتیں بیان کرتے چلے آرہے ہیں۔

یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کی طرف سے علماء کرام سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ’’اجتہاد‘‘ سے کام لے کر ان کے لیے سہولتیں پیدا کریں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شریعت میں اجتہاد کی گنجائش بلکہ حکم موجود ہے، لیکن اجتہاد کا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن و سنت کے احکام اور فقہی اصولوں کی روشنی میں مسائل و مشکلات کا حل نکالا جائے۔ اور ایسا وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں جو علم و دیانت کے حوالے سے اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جبکہ اجتہاد کا مطالبہ کرنے والوں کے ذہن میں اس کا مفہوم یہ نہیں ہے، بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح کیتھولک عیسائیوں میں پاپائے روم اور ان کی کونسل کو مذہبی احکام میں ردوبدل کے صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں، اسی طرح شاید مسلمان علماء کے پاس بھی کوئی اختیار ہے جسے وہ استعمال نہیں کر رہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے جسے دور کرنا چاہیے۔ فقہاء اسلام کو اجتہاد کا حق حاصل ہے اور وہ آج بھی اس کی حدود میں یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ شریعت کی روشنی میں اور اصول و ضوابط کے دائرے میں کوئی سہولت بنتی ہو تو اسے بتا دیتے ہیں، اپنی طرف سے کوئی سہولت پیدا نہیں کر سکتے۔ وہ بتاتے ہیں، بناتے نہیں ہیں۔

ہماری فقہی تاریخ گواہ ہے کہ فقہاء کرام نے ہر دور میں اس وقت کی ضروریات اور عرف و تعامل کی روشنی میں مسائل کی تشریح کی ہے اور سینکڑوں مسائل میں سہولت دی ہے۔ خاص طور پر عرف و تعامل کے تغیر، عمومِ بَلویٰ، اور مصلحتِ عامہ کے اصولوں کے تحت جہاں بھی ضرورت محسوس ہوئی فقہاء اسلام نے انسانی سوسائٹی کو جائز سہولت فراہم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، لیکن اس سلسلہ میں دو باتیں بہرحال ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اس سہولت کا فیصلہ کرنے والے حضرات اس فقہی مقام و صلاحیت کے حامل ہوں جو اس کے لیے ضروری ہے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ سہولت کسی مسلّمہ شرعی اصول سے متصادم نہ ہو۔

اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ اللہ تعالیٰ یُسر کا ارادہ فرماتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ الدین یُسر دین آسانی دیتا ہے۔ لیکن آسانی کا مطلب احکامِ شریعت سے فرار نہیں بلکہ ان کی بجا آوری میں ضرورت کے مطابق سہولت مہیا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص یُسر کے نام پر دینی احکام پر عمل سے ہی بچنا چاہتا ہے تو اس کا نام فرار ہے یُسر نہیں ہے۔ یُسر کا معنیٰ یہ ہے کہ ایک شخص شرعی حکم پر عمل کرنا چاہتا ہے لیکن عمل میں کوئی دشواری محسوس کر رہا ہے تو شریعت اس کی ہمت اور دشواری دونوں کو دیکھ کر ضرورت کے مطابق آسانی ضرور فراہم کرتی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر صدقِ دل کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter