قومی سیاست کی چند یادیں

   
۴ مئی ۲۰۱۱ء

پاکستان قومی اتحاد میں چوہدری ظہور الٰہی مرحوم کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کا موقع ملا تھا، گجرات کے ظہور الٰہی پیلس میں ہمارا آنا جانا رہتا تھا۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ہمراہ بھی جانا ہوا اور ویسے بھی چودھری صاحب مرحوم کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد کی مختلف مجالس میں ملاقات ہوتی تھی۔ ایک مرحلہ پر وہ قومی اتحاد کے پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین تھے اور مجھے پارلیمانی بورڈ میں جمعیۃ علماء اسلام کی نمائندگی کرنا ہوتی تھی۔ آج ان کی یاد پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار میں شراکت کے لیے ہونے والے مذاکرات اور اس کے نتیجے میں ان کی جماعت کی حکومت میں شمولیت کے فیصلے سے تازہ ہوگئی اور ایک واقعہ بطور خاص یاد آگیا۔

جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے پاکستان قومی اتحاد کو اقتدار میں شرکت کی پیشکش کر رکھی تھی اور خبروں سے معلوم ہو رہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ اور جماعت اسلامی اپنے طور پر اس پیشکش کو قبول کرنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ بعد میں ہوا بھی ایسے ہی کہ پاکستان مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے پیشکش قبول کر لی اور پاکستان قومی اتحاد کی دیگر جماعتوں نے بھی اتحاد کو بچانے کے نام پر وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے اس سلسلہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شورٰی کا وہ اجلاس یاد ہے جو حکومت میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے دارالعلوم حنفیہ عثمانیہ (ورکشاپی محلہ، راولپنڈی) میں ہوا تھا۔ مجلس شورٰی کے ارکان کی رائے ملی جلی تھی۔ کچھ شریک ہونے کے حق میں تھے اور کچھ مخالف تھے۔ میں مخالفین میں سے تھا۔ شوریٰ کے اجلاس میں مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کے ساتھ میرا اس مسئلہ پر طویل مباحثہ ہوا اور مجلس کا عمومی رخ شرکت کے حق میں جاتا دیکھ کر میں نے مجلس شورٰی کی کاروائی میں اپنا اختلافی نوٹ لکھوانے کا حق استعمال کیا تھا۔ مجلسِ شورٰی نے فیصلے کا اختیار مولانا مفتی محمودؒ کو دے دیا اور مفتی صاحبؒ نے یہ فرما کر وفاقی کابینہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے شریک ہونے کا اعلان کر دیا کہ پاکستان قومی اتحاد کو متحد رکھنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان قومی اتحاد اس سے قبل ہی ٹوٹ چکا تھا اور تحریک استقلال اور جے یو پی نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ مگر اس سے پہلے اس مرحلہ میں، جبکہ ابھی پاکستان مسلم لیگ اور جماعت اسلامی نے عملاً حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی، لیکن اس قسم کی خبریں آرہی تھیں۔ اس دوران مولانا مفتی محمودؒ کراچی میں تھے اور جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں قیام پذیر تھے، میں بھی وہیں تھا کہ چودھری ظہور الٰہی مرحوم مفتی صاحبؒ سے ملنے کے لیے وہاں تشریف لائے، سلام و آداب کے بعد مفتی صاحب نے ہنستے ہنستے چودھری صاحب مرحوم سے سوال کیا کہ چودھری صاحب آپ نے وزارتوں میں جانے کا فیصلہ کر لیا؟ چودھری صاحب مرحوم نے بھی اسی بے ساختگی سے جواب دیا کہ مفتی صاحب! آپ ایک مسلم لیگی سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ ہم تو پیدا ہی وزارتوں کے لیے ہوئے ہیں، مسلم لیگی کو وزارت کی پیشکش ہو اور وہ قبول نہ کرے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

چنانچہ ایسا ہی ہوا، پہلے مسلم لیگ اور جماعت اسلامی وفاقی کابینہ میں شامل ہوئیں، پھر پاکستان قومی اتحاد کو بچانے کے عنوان سے قومی اتحاد حکومت کا حصہ بنا، مگر اس کے بعد قومی اتحاد کا شیرازہ دوبارہ مجتمع نہ ہو سکا اور ۱۹۷۷ء کی زبردست عوامی تحریک کی قیادت کرنے والا پاکستان قومی اتحاد اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گیا۔ ایک سیاسی کارکن کے طور پر میرا مشاہدہ او رتجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں تین مواقع ایسے آئے ہیں جب سیاسی جماعتوں نے عوامی تحریکی قوت کی حیثیت اختیار کی مگر تینوں مواقع پر اسٹیبلشمنٹ کی چالیں غالب رہیں اور سیاسی جماعتیں زبردست عوامی قوت کا درجہ حاصل کر کے بھی اپنا عوامی وجود قائم نہ رکھ سکیں:

  1. قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی بانی مسلم لیگ کو یہ مقام حاصل تھا کہ ایک زبردست عوامی قوت اس کی پشت پر تھی اور وہ اس نوزائیدہ ملک کو ایک اچھا سیاسی نظام اور ماحول فراہم کر سکتی تھی لیکن بیوروکریسی کی آکاس بیل نے اسے اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ قائد اعظمؒ کی وفات اور لیاقت علی خان مرحوم کی شہادت کے بعد بیوروکریسی پر ہی اس کا دارومدار رہ گیا۔ چنانچہ بیوروکریسی کی مکروہ چالوں کے تسلسل نے ملک کے اقتدار کی کنجی بالآخر جرنیلوں کے ہاتھ میں تھما دی۔
  2. دوسرا مرحلہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور پاکستان کے دولخت ہوجانے کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں اس صورت میں آیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بہرحال ایک عوامی سیاسی قوت موجود تھی جو ملک کے نظام میں بہت سی مثبت تبدیلیوں کا باعث بن سکتی تھی۔ مگر پاکستان پیپلز پارٹی کا عام کارکن بھی، جو بھٹو مرحوم کا دیوانہ اور بھٹو کے سیاسی فلسفہ پر فریفتہ تھا، بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی اقتدار کی ترجیحات نے ایسا رخ اختیار کر لیا کہ ایک عوامی سیاسی قوت نے حکومت اور اپوزیشن کا روایتی ذوق رکھنے والی سیاسی پارٹی کا روپ اختیار کر لیا، اور ایک عرصہ کے بعد کسی عوامی سیاسی قوت کے سیاسی منظر پر نمودار ہونے سے جو توقعات پیدا ہوگئی تھیں وہ دم توڑ کر رہ گئیں۔

    اس دور کے حوالہ سے میں ایک رائے کا اظہار بسا اوقات کیا کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے فورًا بعد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم،مولانا مفتی محمودؒ اور خان عبد الولی خان مرحوم کے مابین جو سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا وہ اگر قائم رہتا اور اسے ملک کے سیاسی مستقبل کی ازسرنو تعمیر کے لیے کام کرنے کا موقع مل جاتا تو میرے خیال میں اس سے اچھی ٹیم نہ اس وقت ملک کو مل سکتی تھی اور نہ شاید آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک ٹیم ورک کا ذوق پیدا نہیں ہو سکا اور اگر کبھی ٹیم ورک کا کوئی موقع قومی سیاست میں پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے بھی گروہی ترجیحات کی بھینٹ چڑھا دینے سے گریز نہیں کرتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹیم تو کچھ دیر تک باقی رہتی ہے مگر ’’ورک‘‘ کی کوئی صورت نہیں بن پاتی اور ہم ایڈہاک ازم کے ماحول میں زیروپوائنٹ پر ہی کھڑے رہ جاتے ہیں۔

  3. تیسرا مرحلہ میرے خیال میں اس وقت آیا جب پاکستان قومی اتحاد کی عوامی تحریک کے نتیجے میں فوج نے اقتدار سنبھالا اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے تین ماہ کے اندر انتخابات کرا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد کر دینے کے اعلان کے ساتھ حکومت سنبھالی۔ میرے خیال میں پاکستان قومی اتحاد کو یہ صورتحال قبول نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس وقت اس کے پاس اتنی عوامی قوت موجود تھی کہ وہ مارشل لاء کو قبول نہ کرنے کا اعلان کر دیتا، یا کم از کم فوجی حکومت کو ۹۰ دن کے اندر الیکشن کرانے کے وعدے کا پابند رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرتا، یا پھر اگر مارشل لاء کو قبول ہی کر لیا تھا تو اس کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونا بہرحال سیاسی خودکشی کے مترادف تھا، مگر ہم نے یہ بھی کر ڈالا۔ اس کے اسباب کچھ بھی تھے ان پر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان قومی اتحاد نے مارشل لاء ٹیم کا حصہ بن کر اس ملک میں عوامی سیاست کا آخری دروازہ بھی بند کر دیا۔

آج بہت سے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ اس دور میں سیاست میں قومی سطح پر بہت متحرک تھے، اب آپ غیر فعال کیوں ہیں؟ میں ان سے گزارش کیا کرتا ہوں کہ:

  1. اول تو اس ملک میں میرے نزدیک اب سرے سے سیاست کا وجود ہی نہیں رہا۔ جس طرح ہم قومی سطح پر اپنے فیصلوں میں خودمختار نہیں رہے اسی طرح سیاسی پارٹیاں بھی اپنے فیصلوں میں خودمختار نہیں ہیں۔ نادیدہ قوتیں اس حد تک دخیل ہیں کہ انہیں نادیدہ کہنا بھی تکلف لگتا ہے۔
  2. دوسری وجہ یہ ہے کہ سیاست اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ غریب بلکہ متوسط درجے کے شہری کے لیے بھی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور میں تو فقیر آدمی ہوں، مسجد کے مکان میں رہتا ہوں اور بمشکل اپنے گھریلو اخراجات پورے کر پاتا ہوں۔
  3. اس کے ساتھ یہ مشکل بھی ہے کہ سیاست کے لیے وسائل جن ذرائع سے آج کے دور میں عام طور پر میسر آتے ہیں ان کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔

البتہ مجھے یہ سہولت حاصل ہے کہ ایک دو جرائد میں کالم کے نام پر ’’غصہ‘‘ نکالنے کا موقع مل جاتا ہے اور اس ذریعے سے اپنی بات کسی نہ کسی طرح قوم کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان شراکتِ اقتدار اور کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے یہ چند یادیں ذہن میں تازہ ہوگئیں جو قلم کی نوک سے پھسل گئی ہیں، خدا جانے اب ان باتوں کا بھی موقع یا وقت باقی رہ گیا ہے یا نہیں!

   
2016ء سے
Flag Counter