مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں سہ ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران چار روز کے لیے صوبہ سندھ جانے کا موقع مل گیا اور کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص اور پتھورو میں مختلف اجتماعات میں شرکت کے علاوہ بعض سرکردہ بزرگوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کا ارشاد تھا کہ میں جو مغربی فلسفہ اور انسانی حقوق کے حوالے سے باتیں کرتا رہتا ہوں، اس کے بارے میں جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں دورۂ حدیث، درجہ موقوف علیہ اور تخصص کے طلبہ کے سامنے لیکچر دوں۔ چنانچہ دار الحدیث میں ان کلاسوں کے لیے تین خصوصی لیکچروں کا اہتمام ہوا اور میں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا چارٹر سامنے رکھ کر ان طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ:
- مغرب کے نزدیک انسانی حقوق کا تصور کیا ہے؟
- اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو آج کی دنیا میں بین الاقوامی قانون کے طور پر کیا مقام حاصل ہے؟
- انسانی حقوق کے اس چارٹر کی بنیاد پر قرآن و سنت کے کون کون سے قوانین غلط قرار پاتے ہیں؟
- مسلم حکومتوں پر کون سے شرعی قوانین کے بارے میں ترامیم کے لیے مغرب کا دباؤ موجود ہے؟
- حدود آرڈیننس، امتناع قادیانیت آرڈیننس، نکاح و طلاق اور وراثت کے اسلامی قوانین اور توہین رسالت کی سزا کے قانون کے حوالے سے مغرب کا موقف کیا ہے؟ اور اس موقف اور دباؤ کا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
ان امور پر تین محاضرات میں جتنی وضاحت کر سکا اس پر اساتذہ اور طلبہ بہت خوش تھے، انہوں نے دلچسپی سے گزارشات سنیں اور موقف کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بعض دوستوں کا خیال تھا کہ یہ باتیں ان کے لیے بالکل نئی ہیں اور انہیں پہلی بار یہ معلوم ہوا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف مغرب کی جو یلغار ہے، اس کا فکری پس منظر اور اس کی علمی بنیاد کیا ہے۔
جامعۃ الرشید میں حاضری کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم اور اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی یادگار اس عظیم علمی ادارے میں اس سے قبل بھی حاضر ہو چکا ہوں اور اس کے کام کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں مستقبل کی ضروریات کے حوالے سے جس قسم کے علمی اداروں کا قیام ضروری ہے، جامعۃ الرشید ان میں سے ایک ہے، اور اساتذہ کا ذوق اور محنت دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ادارہ مستقبل کی دینی، علمی اور فکری ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد میں دینی حلقوں کی مؤثر رہنمائی کرے گا۔
یہاں بھی مجھے حکم دیا گیا کہ ’’کلیۃ الشریعہ‘‘ کے طلبہ سے کچھ عرض کروں، چنانچہ تعمیل حکم میں چند باتیں عرض کیں، طلبہ کے ساتھ اساتذہ کرام نے بھی اپنی موجودگی کے ساتھ مجھے اعزاز بخشا۔ ’’کلیۃ الشریعہ‘‘ کے طلبہ سے میں نے بطور خاص یہ گزارش کی کہ ہمارے ہاں احکام کے تعین اور تغیر دونوں میں عرف کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور عرف کی بنیاد پر نہ صرف بہت سے احکام شرعیہ طے پاتے ہیں بلکہ عرف کی تبدیلی کے ساتھ احکام شرعیہ میں تغیر و تبدل بھی ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے مفتیان کرام اپنے فتاویٰ میں عرف کا لحاظ رکھتے ہیں لیکن ایک پہلو سے مجھے خلا محسوس ہوتا ہے جس کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ مقامی عرف پر تو ہماری نظر ہوتی ہے مگر عالمی عرف بسا اوقات ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے، جبکہ جس طرح شرعی احکام کے تعین و تغیر میں مقامی عرف اثر انداز ہوتا ہے، بالکل اسی طرح عالمی عرف کی تبدیلی بھی احکام شرعیہ کے تغیر کا باعث بنتی ہے۔ اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامی عرف کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف اقوام کے درمیان مشترکہ اقدار و روایات اور دوسرے لفظوں میں بین الاقوامی عرف و تعامل کا بھی لحاظ کیا ہے۔ مثال کے طور پر میں دو مواقع کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
- ایک یہ کہ بنو تمیم کا وفد جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں آیا تو انہوں نے اپنی علاقائی روایت کے مطابق یہ تقاضا کیا کہ آپ شعر و خطابت میں ہمارا مقابلہ کریں۔ آپ کا خطیب ہمارے خطیب سے اور آپ کا شاعر ہمارے شاعر سے برتر ثابت ہوا تو ہم اسلام قبول کر لیں گے۔ جناب رسول اللہ نے ان کی اس بات کو قبول فرمایا، مقابلہ کی مجلس جمی اور بنو تمیم کے شاعر و خطیب کا مقابلہ آنحضرتؐ کے حکم پر حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے کیا، اور مقابلہ جیتا، جو بنو تمیم کے قبول اسلام کا باعث بنا۔
- دوسرا واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب مسیلمہ کذاب کے دو قاصد آئے اور اس کا خط پیش کیا تو آپؐ نے ان قاصدوں سے دریافت کیا کہ کیا تم مجھے رسول اللہ مانتے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ آنحضرتؐ نے دریافت کیا کہ کیا تم مسیلمہ کو بھی اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں قاصد جناب نبی اکرمؐ کو رسول اللہ تسلیم کرنے کے بعد مسیلمہ کو رسول اللہ کہنے پر ارتداد کی وجہ سے قتل کی سزا کے مستحق تو تھے، مگر اس وقت کا یہ مروجہ ضابطہ رکاوٹ بن گیا کہ کسی قوم کے سفیر اور قاصد کو قتل نہیں کیا جاتا۔
ان دو واقعات کے حوالے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف مروجہ روایات اور بین الاقوامی قانون کا احترام کیا ہے بلکہ دوسری اقوام اور قبائل کی روایات کو بھی بوقت ضرورت قبول کیا ہے۔
یہاں اتنی بات ضروری ہے کہ بین الاقوامی عرف و تعامل کی وہ باتیں جو ہمارے قطعی اصولوں اور نصوص صریحہ سے متصادم ہوں گی، ہم ان کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن عالمی عرف اور بین الاقوامی روایات میں سے جو بات ہمارے احکام صریحہ اور مقاصد شریعت کے منافی نہیں ہے، جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ میں ہمیں انہی روایات کو قبول کرنے اور ان کا احترام کرنے کا اشارہ ملتا ہے۔ اس لیے علمائے کرام، اساتذہ اور شریعت کے طلبہ سے میری گزارش ہے کہ وہ مقامی اور علاقائی عرف و تعامل اور روایات و اقدار سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور عالمی عرف و تعامل سے بھی مکمل واقفیت حاصل کریں، جو گلوبلائزیشن کے اس دور میں زیادہ ضروری ہو گیا ہے اور اس کے بغیر ہم آج کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق احکام شرعیہ کی مکمل اور صحیح تعبیر نہیں کر سکیں گے۔