۲۸ مئی کو گوجرانوالہ کے عوام، دینی حلقوں اور تاجر برادری نے حرمتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر جس یکجہتی کا اظہار کیا اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے پہلے اسی روز لاہور میں جو افسوسناک واقعات ہوئے پہلے ان کے حوالے سے کچھ گزارش کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں۔ لاہور میں جمعہ کے روز قادیانیوں کی عبادت گاہوں پر مسلح حملوں اور اس کے نتیجے میں مبینہ طور پر ایک سو افراد کے جاں بحق ہونے پر ملک کے ہر باشعور شہری نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ یہ کام جس نے بھی کیا ہے ملک، قوم اور دین تینوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی انتہا پسند تنظیم نے اس کی پلاننگ کی ہے تو یہ قادیانیوں کے ساتھ نمٹنے کا انتہائی غلط طریق کار ہے، اور اگر یہ کاروائی پس پردہ خفیہ ہاتھوں کی کارستانی ہے تو ملک کو نقصان پہنچانے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت کا دائرہ کار وسیع کرنے کی کسی سازش کا حصہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنا قانون اور عدالت کا کام ہے کہ اس افسوسناک واقعے کے عوامل و اسباب کیا ہیں اور یہ کن لوگوں کی کاروائی ہے لیکن نتائج و عواقب کے حوالے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ملک و قوم، دینی حلقوں اور تحریکِ ختم نبوتؐ کے لیے شدید نقصان کا باعث ہے۔
قادیانیوں کو امتِ مسلمہ کے متفقہ فیصلے کی رو سے مسلمان ہونے کا درجہ حاصل نہیں ہے مگر قادیانی خود کو مسلمان کہلانے پر مصر ہیں۔ یہ کشمکش گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اور امت مسلمہ کے تمام مکاتب فکر اور طبقات کے اکابر علماء کرام اور رہنما اس کشمکش میں فریق رہے ہیں۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا سید ابوالحسنات قادریؒ، مولانا سید محمود احمد غزنویؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، سید مظفر علی شمسی اور حافظ کفایت حسین مجتہد جیسے اساطین امت اس محاذ پر امت مسلمہ کے نمائندے اور وکیل رہے ہیں۔ اور آج بھی تمام مکاتب فکر کے سرکردہ رہنما قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کے اس اجتماعی موقف کی وکالت اور ترجمانی کر رہے ہیں۔ مگر یہ جدوجہد ہمیشہ پر امن اور قانونی رہی ہے اور تحریک ختم نبوت کے رہنماؤں نے ہر دور میں سیاسی اور قانونی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ میں خود گزشتہ پینتیس سال سے تحریک ختم نبوت کا شعوری کارکن ہوں، اس دوران تحریک ختم نبوت کے ہر دور میں مجھے کسی نہ کسی سطح پر متحرک کردار ادا کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے اور اب بھی بحمد اللہ تعالیٰ اس کا تسلسل قائم ہے مگر ہمارے رہنماؤں نے ہمیں کبھی قتل و قتال کا راستہ نہیں دکھایا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اکا دکا واقعات ضرور ہوتے رہے ہیں جو وقتی اشتعال کا نتیجہ ہوتے تھے مگر اس طرح پلاننگ کر کے اجتماعی قتل عام کسی دور میں بھی تحریک ختم نبوت کا طرز عمل اور اس کی پالیسی نہیں رہی اور نہ ہی اب اس کو تحریک ختم نبوت کے ذمہ دار حلقوں کی پالیسی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس محاذ پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، عالمی مجلس احرار اسلام اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ باقاعدہ کام کر رہی ہیں جبکہ جمعیۃ علماء اسلام، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث، جمعیۃ علماء پاکستان اور دیگر جماعتیں بھی اس سلسلہ میں مسلسل متحرک رہتی ہیں اور تمام مکاتب فکر کی مشترکہ نمائندگی کرنے والا فورم بھی ’’کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کے نام سے ہر دور میں موجود رہا ہے۔ ان میں سے کسی نے کبھی قتل و قتال کی بات نہیں کی اور نہ ہی ان میں سے کوئی جماعت اس کو درست سمجھتی ہے۔ ہمارا قادیانیوں کے ساتھ شدید اختلاف ہے جو موجود رہے گا اور اس کے لیے ہماری جدوجہد بھی جاری رہے گی لیکن ملک کے دیگر شہریوں کی طرح ان کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت بھی ہم ان کا حق سمجھتے ہیں، ان کے خلاف قانونی، سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے ہٹ کر تشدد کے کسی بھی طریق کار کی ہم حمایت نہیں کرتے اور لاہور کے ۲۸ مئی کے واقعات کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔
۲۸ مئی کو گوجرانوالہ کے شہریوں نے جس یکجہتی کا اظہار کیا وہ اگرچہ گوجرانوالہ کی روایات سے ہٹ کر نہیں ہے مگر موجودہ حالات کے تناظر میں وہ پہلے سے زیادہ حوصلہ افزا ہے۔ ناموس رسالتؐ کے تحفظ و دفاع اور گستاخانہ خاکوں کے خلاف مختلف جماعتوں اور مکاتب فکر کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ تو کافی دنوں سے جاری تھا مگر ہماری روایت اجتماعی مطاہرے کی بھی چلی آرہی ہے جس کے لیے بدھ کے روز مرکزی جامع مسجد میں راقم الحروف کی دعوت پر تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام جمع ہوئے اور تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ جمعہ کے روز اجتماعی ریلی کا پروگرام طے پایا اور بعد نماز جمعہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام، تاجر تنظیموں اور دینی تنظیموں نے شیرانوالہ باغ سے گوندلانوالہ چوک تک ریلی کا اہتمام کیا۔ ریلی کے اختتام پر شرکاء سے خطاب کرنے والوں میں مولانا خالد حسن مجددی، مولانا سید عبد المالک شاہ، مولانا مشتاق احمد چیمہ، مولانا محمد ایوب صفدر، مولانا اکبر نقشبندی، مفتی محمد حسین صدیقی، حافظ محمد صدیق نقشبندی، حافظ ابرار احمد ظہیر، مولانا قاری محمد سلیم زاہد، مولانا محمد صادق عتیق اور مولانا سیف اللہ چیمہ کے علاوہ جماعت اسلامی کے ضلعی امیر ڈاکٹر عبید اللہ گوہر، گوجرانوالہ کلاتھ مارکیٹ بورڈ کے صدر حاجی شیخ نذیر احمد اور مرکزی انجمن تاجران کے صدر ڈاکٹر محمود احمد بھی شامل ہیں۔
مقررین نے حرمت رسولؐ کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا، گستاخانہ خاکوں کے ذمہ دار عناصر کی مذمت کی اور مسلم حکومتوں خاص طور پر حکومت پاکستان سے اس سلسلہ میں مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ مگر میرے نزدیک سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ یہ سب ایک فورم پر جمع ہوئے اور انہوں نے ایک اسٹیج سے خطاب کر کے قوم کو یکجہتی اور ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ احتجاجی ریلی میں مسیحی رہنما پادری آئرک ریزک نے بھی شرکت کی اور شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و رسول کے سلسلہ میں جذبات کے حوالہ سے ہم مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہیں، ہمارے نزدیک بھی حضرت محمدؐ اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے پیغمبروں کی توہین جرم ہے، ہم بھی گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرتے ہیں اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس روز شہر میں دیگر تنظیموں نے بھی احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا اور بریلوی مکتب فکر کے علماء کرام نے مشترکہ ریلی میں بھرپور شرکت کے ساتھ ساتھ ایک الگ ریلی بھی نکالی جس کا اسٹیج مشترکہ ریلی سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔ دونوں اسٹیج ایک دوسرے کے قریب تھے اور دونوں کے مقررین ایک ہی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہے تھے، میں نے مشترکہ ریلی کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے جہاں مشترکہ ریلی کا اہتمام کرنے والوں اور اس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا وہاں الگ ریلی کا اہتمام کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و ناموس کے لیے جو بھی آواز اٹھائے جہاں بھی آواز اٹھائے اور جس انداز میں بھی آواز اٹھائے وہ ہماری آواز ہے اور ہم ان میں سے ہر ایک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ اس تنوع میں بھی میرے نزدیک حسن کا ایک پہلو موجود ہے کہ ہم میں کوئی حلقہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ اگر ایک فورم پر کسی وقت نہیں بیٹھتا تو بھی حرمت رسولؐ پر ہمارے جذبات ایک ہیں اور ہمارے احساسات و خیالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔
بہرحال گستاخانہ خاکوں کے خلاف اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ و دفاع کے حق میں ملک بھر میں مظاہروں، اجتماعات اور جذبات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے جو مسلمانوں کی ملی غیرت و حمیت کی علامت ہے۔ لیکن اصل کام بہرحال او آئی سی، مسلمان حکومتوں اور حکومت پاکستان کے کرنے کا ہے۔ خدا کرے کہ انہیں بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا خیال آجائے، آمین یا رب العالمین۔