گذشتہ روز عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی گوجرانوالہ تشریف لائے اور استاذ محترم فاتحِ قادیان حضرت مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالٰی کی حیات و تعلیمات کے حوالہ سے اپنی تازہ تصنیف مرحمت فرمائی جس سے نصف صدی قبل کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو گئیں، ان میں سے چند باتیں نومبر ۲۰۱۶ء کے دوران الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں استاذِ محترم کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک نشست میں کی گئی گفتگو کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ حضرت مولانا محمد حیاتؒ شکرگڑھ کے قریب ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور درویش صفت عالمِ دین تھے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کو علم و تکلم، تقویٰ و عمل کی بڑی خصوصیات سے نوازا تھا۔ مولانا کی ڈاڑھی قدرتی طور پر نہیں تھی اور ان کا طرزِ زندگی بہت سادہ تھا،کوئی آدمی بظاہر انہیں دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ عالم دین اور دینی بزرگ ہیں۔ سادہ سے دیہاتی لگتے تھے لیکن ختمِ نبوت کے محاذ پر اپنے دور میں مناظرین کے استاذ تھے اور سب سے مضبوط مناظر تھے کہ انہیں فاتحِ قادیان کہا جاتا ہے۔
حضرت مولانا محمد حیاتؒ میرے استادِ محترم تھے، میں نے قادیانیت ان سے باضابطہ سبقاً سبقاً پڑھی ہے۔ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، یہ میرا کافیہ کا سال تھا، حضرتؒ مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے دفتر میں تشریف لائے اور مسئلہ ختمِ نبوتؐ، صدق و کذبِ مرزا، حیاتِ عیسٰیؑ، نزولِ عیسٰیؑ وغیرہ موضوعات پر ہمیں پندرہ دن کا کورس پڑھایا۔ مجھے حضرتؒ سے استفادے کا اور ان کی خدمت کا موقع ملا، وہ انتہائی شفیق استاد تھے۔ اللہ تعالٰی نے انہیں یہ خصوصیت دی تھی کہ خوبصورت گفتگو کرتے تھے، دھیمی اور ٹھنڈی لیکن بڑی مضبوط۔ الفاظ میں سختی نہیں ہوتی تھی، لہجہ ملائم ہوتا تھا لیکن گرفت ایسی مضبوط ہوتی تھی کہ بڑے بڑے مناظر بھی سامنے آنے سے ڈرتے تھے۔
پہلی دفعہ حضرت مولانا محمد حیاتؒ کی زیارت اس طرح ہوئی کہ مجھے پتہ چلا حضرتؒ دفتر ختم نبوت گوجرانوالہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ مولانا محمد خان جہلمی مرحوم ختم نبوت کے مبلغ تھے، انہوں نے بتایا کہ استاد آئے ہوئے ہیں۔ اگلے دن شاید جمعہ تھا، سردیوں کا موسم تھا، میں زیارت کے لیے گیا تو مولانا محمد خان دفتر کی سیڑھیاں اتر کر ناشتہ وغیرہ لینے جا رہے تھے جبکہ مولانا محمد حیاتؒ لحاف اوڑھے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کا چہرہ باہر تھا، باقی سارا جسم لحاف کے اندر تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ ان کی داڑھی نہیں ہے، میں نے جب دروازہ کھول کر اندر دیکھا تو سمجھا کہ کوئی خاتون لیٹی ہوئی ہیں اور سوچا کہ شاید مولانا محمد خان کے گھر کی کوئی خاتون ہیں۔ میں دروازہ بند کر کے باہر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد مولانا محمد خان تشریف لائے اور پوچھا کہ باہر کیوں کھڑے ہیں؟ میں نے کہا اندر تو کوئی خاتون لیٹی ہوئی ہے۔ فرمانے لگے خاتون نہیں مولانا محمد حیات صاحب ہیں۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی، بہرحال اندر گیا تو انہوں نے مولاناؒ سے میرا تعارف کرایا۔ حضرت والد صاحبؒ کے حوالے سے سارے بزرگ علماء ہی شفقت فرماتے تھے، اس وقت میرا اپنا کوئی تعارف نہیں تھا، اس کے بعد مجھے ان کی خدمت میں مسلسل حاضری کا موقع ملتا رہا ۔
حضرت مولانا محمد حیاتؒ کا اسلوب یہ تھا کہ وہ پہلے بتاتے کہ مخالف کے دلائل یہ ہیں اور ہمارا جواب یہ ہے، ان کا موقف یہ ہے اور ہمارا یہ ہے، ان کا اعتراض یہ ہے اور ہمارا جواب یہ ہے۔ پھر وہ ہم سے تقریر کرواتے کہ اٹھو اور ابھی جو پڑھا ہے اس پر تقریر کرو۔ ایک دن حیات و نزولِ عیسٰیؑ کے مسئلے پر انہوں نے ہمیں تقریباً دو گھنٹے تک دلائل سمجھائے، پھر مجھ سے کہا کہ اٹھ کر تقریر کرو۔ میں نو عمر لڑکا تھا، تقریر میں مرزا غلام احمد قادیانی کے حوالے سے کچھ سخت الفاظ کہے تو اس پر مولانا نے مجھے ٹوک دیا کہ نہیں بیٹا یوں نہیں کہتے، وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے، یہ غلط بات ہے۔ یوں کہو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں اور مجھے ان سے اختلاف ہے۔ استاذ محترم کا یہ جملہ ذہن کے ساتھ کچھ اس طرح چپک گیا کہ اس نے سوچ کا زاویہ اور گفتگو کا انداز بدل کر رکھ دیا۔ آج بھی جب اس واقعہ کی یاد ذہن میں تازہ ہوتی ہے تو مولانا محمد حیاتؒ کے لیے دل کی گہرائی سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے۔ یہ میری زندگی کا ایک اہم سبق ہے جو مولانا محمد حیاتؒ نے مجھے سکھایا۔ حضرتؒ قادیانیت کے محاذ پر سب سے بڑے مناظر تھے، وہ مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کے بھی استاذ ہیں، مولانا لال حسین اخترؒ اور مولانا عبد الرحیم اشعرؒ کے بھی استاذ ہیں بلکہ اس ساری کھیپ کے استاذ ہیں۔
حضرتؒ کی ہمت، حوصلہ اور جرأت کی داد دیجیے کہ ۱۹۳۱ء / ۱۹۳۲ء میں مجلس احرار اسلام نے قادیان میں دفتر کھولا تھا جب قادیان میں داخلہ ہی بڑا مسئلہ ہوتا تھا ۔ یہ احرار کی ہمت ہے کہ انہوں نے قادیان میں احرار کانفرنس کی جس میں حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ وغیرہ اکابر تشریف لائے۔ اور یہ پہلا موقع تھا کہ قادیان میں قادیانیوں کے علاوہ کسی نے جلسہ کیا تھا۔ پھر جب احرار نے دفتر بنایا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ دفتر میں بیٹھے گا کون؟ یہ بڑا مسئلہ تھا کیونکہ قادیان میں مسلمانوں کے دفتر میں بیٹھنا تو موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ چنانچہ دو آدمی وہاں بیٹھنے کے لیے تیار ہوئے۔ ایک مولانا عنایت اللہ چشتیؒ جو میانوالی کے تھے، اور دوسرے مولانا محمد حیاتؒ تھے۔ یہ دو نوجوان حضرات تیار ہوئے کہ ہم بیٹھیں گے اور جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ مولانا عنایت اللہ چشتی مرحوم تو اس لیے بیٹھے کہ یہ ہمارا مورچہ ہے، جبکہ حضرت مولانا محمد حیاتؒ مناظر اور عالم تھے، وہ وہاں مناظرانہ چھیڑ چھاڑ کرتے بھی تھے اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوتی بھی تھی۔ قادیانی ان کے ہاں آتے، ان سے گفتگو کرتے لیکن ان کی گرفت سے کوئی نہیں بچتا تھا، اور حضرتؒ خود کسی کی گرفت میں نہیں آتے تھے۔ وہاں بیٹھ کر انہوں نے ایک عرصہ کام کیا اور قادیانی بڑی کوشش کے باوجود نہ انہیں وہاں سے ہٹا سکے اور نہ ان انہیں کسی بات پر لاجواب کر سکے۔ اس پر حضرتؐ کو فاتحِ قادیان کا خطاب ملا اور یہ آپ کا مخصوص لقب ہے۔
پاکستان بننے کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جزائے خیر دیں حضرت امیرِ شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور مولانا محمد علی جالندھریؒ کو، انہوں نے ایک مستقل مورچہ قائم کر دیا کہ یہ جماعت اسی کام کے لیے وقف ہے ۔ مولانا محمد حیاتؒ نے مجلس کے مبلغ کے طور پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکز میں تعلیم و تربیت کا نظام سنبھال لیا۔ وہ مولانا لال حسین اخترؒ کے ساتھ مل کر علماء کی تربیت کرتے اور انہیں مناظرہ سکھاتے۔ حضرت علامہ خالد محمودؒ بھی اسی صف کے مناظر تھے۔ پھر ان کے ساتھ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور مولانا عبد الرحیم اشعرؒ بھی شامل ہوگئے۔
میں مولانا محمد حیاتؒ کی خدمت میں عرصہ تک آتا جاتا رہا ہوں۔ ان کی سادگی دیکھیے کہ ایک دفعہ گکھڑ تشریف لائے، مسجد میں بیان تھا اور ہمارے گھر کھانا تھا۔ میں خدمت پر مامور تھا، کھانا بیٹھک میں لے کر آیا تو دو قسم کا سالن تھا۔ غالباً ایک دال کا سالن تھا اور دوسرا گوشت کا۔ دیکھ کر فرمانے لگے کہ مولوی صاحب! اتنی فضول خرچی، دو سالن مولوی کے دستر خوان پر۔ ایک اٹھا لو ورنہ میں اٹھا دوں گا۔ میں نے جلدی سے دال اٹھا کر ایک طرف رکھ دی۔ حضرت استاد العلماء تھے اور قادیانیت کے محاذ پر شاید ہی کوئی عالم ایسا ہو جو ان کا شاگرد نہ ہو لیکن ان کی سادگی دیکھیں۔ اب ایسے بزرگ نہیں رہے اور فی الواقع نہیں رہے۔
مولانا محمد حیاتؒ کے مزاج اور ذوق کا ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ ختم نبوت کے ناظم اعلٰی تھے۔ وہ مبلغین کو تنخواہ دیتے تھے، نگرانی کرتے تھے اور رسید بک بھی تھما دیتے تھے کہ آپ نے چندہ کرنا ہے۔ مبلغ کا ایک کام چندہ اکٹھا کرنا بھی ہوتا ہے۔ مولانا محمد حیاتؒ ایک دفعہ مجھ سے ٹھیٹھ پنجابی میں فرمانے لگے کہ مولانا محمد علی کا کام دیکھو مجھے رسید بک پکڑا دی ہے، میں کہاں سے چندہ مانگوں گا۔ خالی رسید بک واپس دیتے ہوئے بھی اچھا نہیں لگتا اور چندہ مجھ سے ہوتا نہیں۔ میں نے کہا حضرت! رسید بک مجھے دے دیں۔ فرمایا تم کیا کرو گے۔ میں نے کہا دیں تو سہی۔ میں نے وہ رسید بک لی اور ساتھیوں سے کہہ کر اکیس یا بائیس روپے اکٹھے کر لیے، یہ اس زمانے میں مناسب رقم ہوتی تھی ۔ میں نے لا کر پیش کیے تو حضرتؒ بہت خوش ہوئے۔ فرمایا تم نے تو کمال کر دیا، اب میں بھی محمد علی کو کہہ سکوں گا کہ میں چندہ کر کے لے آیا ہوں۔ یہ ان کی سادہ مزاجی تھی لیکن علم میں وہ انتہا پر تھے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔