میڈیا کا مثبت کردار

   
۱۴ مارچ ۲۰۱۴ء

میں بھی آزاد میڈیا کے ناقدین میں سے ہوں کہ اس قدر آزادی، جس سے قوم کی نظریاتی شناخت اور تہذیبی قدریں خطرے میں پڑ جائیں، عقیدہ و ثقافت رکھنے والی کسی بھی قوم کے لیے سود مند نہیں ہوتی۔ لیکن تھر کے معاملے میں آزاد میڈیا نے جو مثبت اور جرأت مندانہ کردار ادا کیا ہے اس پر داد نہ دینا بھی ناانصافی اور ناقدری کی بات ہو گی۔ تھر کے علاقے میں طویل خشک سالی اور اس سے زیادہ حکمرانوں کی بے اعتنائی نے جو صورت حال پیدا کر دی ہے، اس کی طرف ملک کے عوام اور عالمی برادری کی توجہ دلا کر میڈیا نے مظلوموں کی داد رسی کا اہتمام کیا ہے، جو قابلِ تحسین کام ہے۔ میڈیا کا اصل کردار عملی یہی ہے کہ معاشرے کی کمزوریوں کو اجاگر کر کے ان کے ازالے کی طرف رہنمائی کرے، قوم کے مختلف طبقات اور افراد کی خوبیوں کو نمایاں کر کے ان کی حوصلہ افزائی کا ماحول پیدا کرے اور مظلوموں اور ناداروں کی بے کسی کو سامنے لا کر ظالموں کو ظلم سے روکنے اور اصحابِ ہمت و خیر کو مظلوموں کی مدد کے لیے آمادہ کرنے کے رجحان کو فروغ دے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ کوئی مستحق اور نادار آپ کے پاس آتا تو اس کی مدد فرماتے۔ اگر فوری طور پر خود امداد کی پوزیشن میں نہ ہوتے تو دوسروں کو توجہ دلاتے اور مجلس میں اعلان کرتے کہ اس کی مدد کی جائے۔ بلکہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے ایک دوسرے کو کہا کرو۔ یہ بھی فرمایا کہ توجہ دلانے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا مدد کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس لیے نادار اور ضرورت مند لوگوں کی ضروریات کو بیان کرنا اور معاشرے کے اصحابِ خیر کو اس کی طرف توجہ دلانا بھی سنت نبویؐ اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔

البتہ حکمرانوں کی ذمہ داری اس سے قدرے مختلف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ میں اس کے بارے میں بھی مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ حکمرانوں کا کام صرف توجہ دلانا نہیں ہوتا، بلکہ اصلاحِ احوال کے لیے انتظام کرنا بھی ان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مختلف قبائل سے اسلام قبول کرنے والے سینکڑوں لوگوں نے بھی ہجرت کی۔ مدینہ منورہ کی چھوٹی سی بستی اتنے لوگوں کی مستقل میزبانی کی متحمل نہیں تھی، اس کا انتظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا اور اسے اس کی کفالت کا ذمہ دار قرار دے دیا، حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی قرار پائے اور یہ انتظام اس وقت تک رہا جب تک وراثت کے باقاعدہ احکام نازل نہیں ہوئے اور مہاجرین کے لیے روزگار کے مستقل ذرائع میسر نہیں آ گئے۔

اسی طرح ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے خطبے میں اعلان فرما دیا کہ قربانی کا گوشت قربانی کرنے والے کے گھر میں تین دن کے بعد موجود نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جن لوگوں نے قربانی کی تھی انہوں نے تین دن میں ہی سارا گوشت کھا لیا یا تقسیم کر دیا اور چوتھے دن کی صبح کو کسی کے گھر میں گوشت کی ایک بوٹی بھی موجود نہیں تھی۔ اگلے سال لوگوں نے دریافت کیا کہ اس سال بھی وہی حکم باقی ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گزشتہ سال باہر سے کچھ خاندان آئے تھے جو ضرورت مند اور نادار تھے، میں نے ان کی خاطر یہ پابندی لگائی تھی تاکہ تم گوشت کو ذخیرہ کرنے کی بجائے ان کو کھلاؤ۔ اس سال یہ صورت حال نہیں ہے، اس لیے وہ پابندی باقی نہیں رہی۔ قربانی کا گوشت خود کھاؤ، دوسروں کو کھلاؤ اور چاہو تو ذخیرہ بھی کر لو۔

اس واقعہ سے بعض فقہائے کرام نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ اگر معاشرے کے کچھ لوگوں کی کفالت کا معقول نظم موجود نہ ہو تو حکومت دوسرے لوگوں پر کچھ پابندیاں لگا کر بھی ان کی کفالت کا انتظام کر سکتی ہے۔

تھر میں قحط سالی کا جو معاملہ سینکڑوں لوگوں کی فاقوں سے موت کی نوبت تک جا پہنچا ہے، اس کا وقتی سبب خشک سالی ہی ہو گا، لیکن ہمارے خیال میں اس کی بڑی وجہ حد سے بڑھی ہوئی معاشی ناہمواری اور پسماندہ طبقات کی ضروریات و مسائل کی طرف حکمران طبقات کی توجہ نہ ہونا ہے۔ معاشی عدم توازن اور ارباب اقتدار کی بے پروائی ہی دراصل ان سینکڑوں اموات کا بنیادی سبب ہے اور اس کا مستقل حل تلاش کیے بغیر اس قسم کے سانحات کا سد باب ممکن نہیں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر معاشرے کے نادار اور بے سہارا افراد کی کفالت کو اپنی ذمہ داری قرار دیا تھا، جس پر اسلام کی رفاہی ریاست کی بنیاد کھڑی ہوئی اور حضرات خلفائے راشدینؓ نے بیت المال کے ذریعے ویلفیئر اسٹیٹ کا ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا، جسے آج بھی بہت سی اقوام و ممالک میں آئیڈیل رفاہی سسٹم کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ اس نظام کی بنیادی روح حضرت عمرؓ کا یہ مشہور قول ہے کہ ”اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کے بارے میں عمر سے باز پرس ہو گی۔“

امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کو تو ایک کتے کے بھوکا مر جانے پر بھی اپنی مسئولیت اور باز پرس کا ڈر تھا، لیکن یہاں سینکڑوں انسان بھوک سے مر گئے اور ان سے کہیں زیادہ لوگ بھوک اور موت کے دروازے پر کھڑے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس کی ذمہ داری، باز پرس اور مسئولیت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔

تھر کی خشک سالی سے متاثرہ خاندانوں کی امداد کے لیے حکومت اور رفاہی ادارے میڈیا کے واویلا کرنے پر متحرک ہو گئے ہیں، جو ایک خوش آئند امر ہے اور ہماری اس خوشگوار قومی روایت کا تسلسل ہے کہ جب بھی ملک کے کسی حصے کے عوام پر کوئی آفت آتی ہے اور ہمارے کچھ بھائی مصائب و مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو حکومت، رفاہی ادارے اور عوام ان کی مدد کے لیے متحرک ہو جاتے ہیں اور انسانی ہمدردی کا ہر موقع پر شاندار مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن مسئلے کا اصل علاج نہیں ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ معاشی نظام اور وسائل کی تقسیم کے سسٹم پر نظر ثانی کر کے اسے اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ازسرنو تشکیل دیا جائے اور خلفائے راشدینؓ کی طرز پر ویلفیئر اسٹیٹ کا نظام قائم کیا جائے۔ اگر برطانیہ اور ناروے اس سسٹم کو اختیار کر سکتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ سسٹم اختیار کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter