میں جب ’’فتح مباہلہ کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے ایوانِ اقبال کے ہال میں داخل ہوا تو سابق صدر پاکستان محترم جناب محمد رفیق تارڑ کانفرنس سے خطاب جبکہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ مولانا عبد الحفیظ مکی صدارت کر رہے تھے، ان کے ساتھ مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج، مولانا محمد زاہد قاسمی، مولانا محمد یوسف قریشی، مولانا محمد الیاس چنیوٹی اور دیگر حضرات اسٹیج پر موجود تھے۔
فتح مباہلہ کانفرنس کے عنوان سے یہ کانفرنس ہر سال ۲۶ فروری کو چنیوٹ میں ہوا کرتی ہے اور کم و بیش ہر سال مجھے اس میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اب سے پچاس برس قبل سفیر ختم نبوت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی نے پڑوس کا حق ادا کرتے ہوئے قادیانی امت کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کو اسلام میں واپس آنے کی دعوت دی اور بصورت دیگر اس بات کی دعوت دی کہ وہ اپنے مذہب کے حق یا باطل ہونے پر ان سے کھلے میدان میں مباہلہ کر لیں۔ مباہلہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دو فریق جو اپنی اپنی جگہ اپنے حق ہونے اور مخالف فریق کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں، ایک جگہ جمع ہو کر اکٹھے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! ہم میں سے جو باطل پر ہے اس کے باطل کو ظاہر فرما۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی علامت ظاہر ہو جاتی ہے جو باطل والے کے باطل کا اظہار کر دیتی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران سے آنے والے مسیحی علماء کے وفد کو مباہلہ کی دعوت دی تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے مگر مسیحی علماء نے اس دعوت مباہلہ کو قبول کرنے سے گریز کیا تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے مسلم علماء کرام کو مباہلہ کی دعوت دی جن میں سے آخری دعوتِ مباہلہ معروف اہل حدیث عالم حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے لیے تھی اور اس میں لکھا گیا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ دوسرے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے۔ اس کے بعد مرزا صاحب تو کچھ دنوں میں ہی وفات پا گئے جبکہ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کم و بیش چالیس سال بعد تک زندہ رہے۔ اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی نے مرزا بشیر الدین محمود کو دعوت مباہلہ دی اور اپنے وقت کے چند بڑے علماء کرام مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا غلام اللہ خانؒ اور مولانا دوست محمد قریشی کی طرف سے سندِ نمائندگی حاصل کر کے سب کے مشترکہ نمائندے کے طور پر دعوتِ مباہلہ پیش کی۔ مگر مرزا بشیر الدین محمود نے دعوتِ مباہلہ پر آنے سے انکار کر دیا جبکہ مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی اپنے رفقاء کے ہمراہ دریائے چناب کے درمیان مقررہ جگہ پر سارا دن موجود رہے۔
اس کے بعد ہر سال اس تاریخ کو چنیوٹ میں فتح مباہلہ کانفرنس ہوتی ہے جو کہ اس سال اس کے آغاز کو پچاس سال مکمل ہونے پر پچاسویں سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس کے طور پر ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد کی گئی اور مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کی تحریک ختم نبوتؐ کے سلسلہ میں خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ ان کے فرزند و جانشین مولانا محمد الیاس چنیوٹی اپنے والد مرحوم کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے مسلسل مصروف عمل ہیں۔
محترم محمد رفیق تارڑ کا بھی تحریک ختم نبوتؐ سے تعلق رہا ہے اور وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محترم چودھری سردار خان مرحوم گکھڑ کے قریب پیرکوٹ نامی بستی میں رہائش پذیر تھے، ان کا بیعت کا تعلق حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے تھا اور ایک دور میں وہ جمعیۃ علماء اسلام گکھڑ کے امیر رہے ہیں، وہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ جبکہ چودھری محمد رفیق تارڑ حضرت والد صاحبؒ کے شاگرد ہیں اور ان سے گہری عقیدت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوتؐ میں وہ مجلس عمل کے قانونی گروپ کا حصہ تھے اور گرفتار شدگان کی ضمانت کرانے اور بطور وکیل کیسوں کی وکالت کرانے میں پیش پیش رہتے تھے۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا اور شاہ جیؒ انہیں بیٹا کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ ایوانِ اقبال کی کانفرنس میں تارڑ صاحب کے خطاب کا بڑا حصہ قادیانیت کے تعارف اور تحریک ختم نبوت کے اہم رہنماؤں کے تذکرے پر مشتمل تھا اور وہ تحریک ختم نبوت کے رہنماؤں کو کھلے دل سے خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔
کانفرنس میں بہاولپور کے ایک معروف قانون دان جناب ظفر اعوان نے ہارون آباد میں ایک مدعی نبوت کے حالیہ کیس کا ذکر کیا اور بتایا کہ ان صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور ان کے مریدین انہیں خدا کا درجہ بھی دیتے ہیں، اس پر وہاں دینی حلقوں نے توہینِ رسالتؐ کا مقدمہ درج کرایا جس کی وکالت ظفر اعوان نے کی۔ وہ اس سلسلہ میں درپیش رکاوٹوں اور اعلیٰ سطح کی شخصیات کے دباؤ کا ذکر کر رہے تھے جسے سن کر یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ کسی اسلامی ملک میں نہیں ہو رہا۔ ظفر اعوان صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایک کیس کی پیروی کے دوران بہاولپور ہائیکورٹ کے سامنے یہ نکتہ رکھا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تصویر سازی توہینِ رسالتؐ ہے اس لیے کسی بھی پیغمبرؐ خدا کی تصویر بنانے کو جرم قرار دیا جائے، چنانچہ ہائیکورٹ نے ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کی تصویر بنانے کو توہینِ رسالت کے زمرے میں شمار کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے جو اب قانون کا حصہ بن چکا ہے۔
راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں عرض کیا کہ تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی اور دیگر سب علماء کرام کی خدمات قابل قدر اور لائق تحسین ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ جس شخصیت سے موسوم ہال میں ہم یہ کانفرنس کر رہے ہیں یعنی مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ، ان کا کردار اور خدمات بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور میرے نزدیک وہ تحریک ختم نبوتؐ کے صفِ اول کے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ آج کے جدید فلسفے کے ماحول میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کو قادیانیت سے متعارف کرانے اور قادیانیت کو بے نقاب کرنے میں جو کردار انہوں نے ادا کیا اس میں وہ سب سے منفرد ہیں۔ اس حوالے سے میں سب سے پہلے علامہ محمد اقبالؒ کو خراج عقیدت پیش کروں گا اور مجھے خوشی ہے ان سے منسوب اس ہال میں اقبالؒ کی علمی و فکری جدوجہد کے ایک اہم پہلو پر ہم آج یہاں جمع ہیں اور اقبالؒ ہی کے فکر پر بات کر رہے ہیں۔
راقم الحروف نے دوسری گزارش یہ کی کہ میمو کیس میں منصور اعجاز کے کردار کے ان پہلوؤں پر تو میں بات نہیں کروں گا جو عدالتی کمیشن میں زیربحث ہیں البتہ ایک دو متعلقہ پہلوؤں کے زمرے میں ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں:
- ایک پہلو یہ ہے کہ اتنی بات ہمارے سامنے آگئی ہے کہ عالمی سطح پر قادیانی حضرات پاکستان کے بارے میں کس سطح پر اور کس انداز میں متحرک ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں یہ بات ضروری ہوگئی ہے کہ حکومت پاکستان ایک مستقل کمیشن قائم کر کے پاکستان اور اسلامی معاملات کے حوالے سے قادیانیوں کے بین الاقوامی کردار کا جائزہ لے اور اس کی رپورٹ پر ان سرگرمیوں کے سدباب کا اہتمام کرے۔
- جبکہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ منصور اعجاز مبینہ طور پر قادیانی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور خاندانی قادیانی ہیں، انہوں نے میمو عدالتی کمیشن کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ کر کہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، میرے خیال میں صرف اتنی بات کافی نہیں ہے بلکہ مسلمان کہلانے کے لیے سابقہ عقائد سے برأت کا اظہار بھی ضروری ہے اور انہیں مسلمان تسلیم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ دستور پاکستان میں مسلمان کے لیے درج حلف نامے کو پر کر کے اس پر دستخط کریں، اس کے بغیر انہیں مسلمان قرار دینا دستوری طور پر بھی درست نہیں ہوگا۔
کانفرنس میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی نے اپنے والد محترمؒ کی روایت کو قائم رکھتے ہوئے موجودہ قادیانی سربراہ مرزا مسرور احمد کو اسلام کے دھارے میں واپس آنے کی دعوت دی اور اس کے قبول نہ کرنے کی صورت میں کھلے میدان میں آکر مباہلہ کرنے کا چیلنج بھی دیا۔