لاہور میں مسلم سربراہ کانفرنس کا انعقاد

   
۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء

آئندہ ماہ لاہور میں مسلم ممالک کے سربراہوں کی تاریخی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے جس کی تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری ہیں اور اسلامی سیکرٹریٹ کے سیکرٹری جنرل جناب حسن التہامی گزشتہ روز کانفرنس کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اخباری نمائندوں سے گفتگو کے دوران مسلم سربراہ کانفرنس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنس کے بعد عالم اسلام کی شیرازہ بندی بین الاقوامی تعلقات میں مؤثر کردار ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی سربراہ کانفرنس میں ہم عالمی سیاست میں اپنے کردار کا تعین کریں گے اور اسے زیادہ واضح طریقے پر پیش کریں گے۔ علاوہ ازیں یہ بھی فیصلہ کیا جائے گا کہ باوقار امن کے قیام میں مسلمان ممالک انسانیت کی کس طرح معاونت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اگلے چند برسوں میں اسلامی ملکوں کی یہ جتھے بندی دنیائے ارضی میں امیر ترین ہوگی۔ انہوں نے کہا، یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم ابھی سے یہ سوچیں اور اس بارے میں منصوبہ تیار کریں کہ ہم اپنے تیل کے ذرائع آمدن میں کس طرح اضافہ کر سکتے ہیں، اور پھر اسلامی دنیا کی اقتصادی امداد کے لیے اس آمدن کو کس طرح روبہ عمل لا سکتے ہیں تاکہ ہم غیر ممالک کے بنکوں کے رحم و کرم پر نہ رہیں۔‘‘ (بحوالہ امروز لاہور ۔ ۲۱ جنوری ۱۹۷۴ء)

جناب حسن التہامی نے، جو مصر کے ایک ممتاز دانشور ہیں، جن زریں خیالات اور مبارک عزائم کا اظہار کیا ہے ان سے کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ عالمی استعمار نے گزشتہ چند صدیوں سے عالم اسلام کا شیرازہ منتشر کرنے اور ملت اسلامیہ کو اسلام سے بیگانہ کر کے سامراج کا ذہنی غلام بنانے کے لیے جو پاپڑ بیلے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ استعمار یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ دنیا میں ملت اسلامیہ ہی ایک ایسی قوت ہے جو سامراجی عزائم اور استعماری سازشوں کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتی ہے، اور جس کے ہوتے ہوئے دنیا پر چودھراہٹ قائم کرنے اور مظلوم اقوام پر تسلط جمانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے استعمار نے سب سے پہلے عالم اسلام پر ہاتھ صاف کیا۔ مسلم ممالک پر استعماری قبضہ کے فکری، سیاسی اور اقتصادی نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ بات بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے کہ سامراج نے ان محاذوں پر ملت اسلامیہ کو اپنا دست نگر بنانے کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ یہ الگ بات ہے کہ برصغیر میں ولی اللہی تحریک اور مشرق وسطیٰ میں جمال عبد الناصر مرحوم کی انقلابی جدوجہد کے سامنے استعمار کے قدم نہ جم سکے اور ان تحریکات کے مسلسل جہد و عمل کے نتیجہ میں آج دنیا بھر کے مسلمان ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی، استعمار سے نجات، اور عالم اسلام کی ترقی و فلاح کے مقدس جذبہ سے سرشار ہیں۔

ہمارے نزدیک مسلم سربراہ کانفرنس میں عالم اسلام کے راہنماؤں کو سامراج کے اقتصادی و سیاسی تسلط سے پیچھا چھڑانے کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کو سامراج کی فکری غلامی اور تہذیبی و ثقافتی بالادستی سے نجات دلانے اور اسلام کے عادلانہ نظام کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے امکانات کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ کیونکہ اسلامی افکار و نظریات، تہذیب و ثقافت اور نظام و دستور کی بنیادیں مضبوط کیے بغیر عالم اسلام کا اتحاد بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔

اگر مسلم حکومتوں کے سربراہ تاریخ کے اس نازک مرحلہ پر وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر حیران و سرگردان ملت اسلامیہ کو اس کی حقیقی منزل کی طرف گامزن کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ ان کا ایسا عظیم کارنامہ ہوگا جو نہ صرف دنیا کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا بلکہ اللہ رب العزت کی بے پایاں رحمتیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعائیں و شفقتیں ان کے شامل حال ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے راہنماؤں کو صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter