سالِ رواں کا آغاز ہمارے دوستوں نے ڈسٹرکٹ کونسل ہال گوجرانوالہ میں ’’نعت کانفرنس‘‘ کے انعقاد سے کیا جو یکم جنوری کو ’’پاکستان نعت کونسل‘‘ کے زیراہتمام منعقد ہوئی اور جس کے لیے حافظ فیصل بلال حسان کافی دنوں سے متحرک تھے۔ نعت کانفرنس میں وفاقی وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان اور ضلع کونسل کے چیئرمین حاجی مدثر قیوم ناہرہ نے بھی شرکت کی جبکہ ملک کے بزرگ نعت خواں حافظ محمد شریف منچن آبادی اور شاعر اسلام الحاج سید امین گیلانی مرحوم کے فرزند سید سلمان گیلانی کے ساتھ بہت سے نعت خوان حضرات نے حمد باری تعالیٰ، نعتِ رسول مقبولؐ اور مدح صحابہ کرامؓ کے موضوعات پر خوبصورت لہجوں میں اپنے کلام اور آواز سے حاضرین کو محظوظ کیا۔ خطاب کرنے والوں میں انجینئر خرم دستگیر خان، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا محمد ایوب صفدر ، مولانا ظہیر فاروقی اور راقم الحروف شامل تھے، جبکہ مولانا قاری سعید احمد نے اپنے مخصوص لہجے میں تلاوت کلام پاک سے سامعین کو نوازا۔ شہر کی بزرگ شخصیات مولانا قاری گلزار احمد قاسمی اور ڈاکٹر عبد الماجد حمید مشرقی بھی اسٹیج پر رونق افروز ہوئے اور اس طرح نئے شمسی سال کے پہلے دن کا کچھ حصہ ہم سب نے برکتوں اور رحمتوں کے ماحول میں گزارا۔
سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ہمارے لیے بڑی نعمتیں ہیں جن سے ہم باقی بہت سے فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دنوں اور اوقات کا حساب بھی طے کرتے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ کے احکام میں دونوں کا اعتبار کیا جاتا ہے چنانچہ رمضان المبارک، عیدین، لیلۃ القدر، یوم عرفہ اور دیگر ایام کا تعین چاند کے حساب سے ہوتا ہے جبکہ نماز، روزہ اور مناسکِ حج کے اوقات سورج کی گردش کے حساب سے طے پاتے ہیں۔ شمسی سال کا موجودہ حساب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور ’’عیسوی‘‘ اور ’’میلادی‘‘ کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی ولادت کو دو ہزار سترہ سال گزر چکے ہیں۔ جبکہ قمری سال کا موجودہ حساب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے شروع ہوتا ہے اور ’’ہجری‘‘ کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتؐ کی ہجرتِ مدینہ کو چودہ سو اڑتیس سال گزر گئے ہیں۔ اس طرح سورج اور چاند دونوں کی گردش کا حساب ہمارے شرعی نظام کا حصہ ہے چنانچہ اس تناظر میں نئے شمسی سال ۲۰۱۸ء کا آغاز حمد و نعت کے ماحول میں ہم سب کے لیے باعث رحمت و برکت بنا۔
انجینئر خرم دستگیر خان شہر کے بزرگ سیاستدان خان غلام دستگیر خان کے فرزند اور سیاسی جانشین ہیں۔ خان غلام دستگیر خان صاحب محترم کے ساتھ متعدد دینی و قومی تحریکات میں رفاقت رہی ہے اور اب وہ یہ سارے معاملات اپنے لائق فرزند خرم دستگیر خان کے سپرد کر کے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔ خرم دستگیر خان نے اپنے خطاب میں مظفر وارثی کی معروف نعت سنائی اور اس کے ساتھ اپنی گفتگو میں یہ خوبصورت بات کہی کہ اصل نعتِ رسولؐ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا اور ان کی پیروی کرنا ہے۔
مولانا شاہ نواز فاروقی نے نعتِ رسولؐ کی اہمیت و ضرورت اور آداب پر بہت اچھی گفتگو کی اور تفصیل کے ساتھ کی۔ ان کا بیان سنتے ہوئے مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ساری باتیں جیسے میں خود کر رہا ہوں، میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ اس گفتگو کو قلمبند کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
میں نے اپنی معروضات میں فاروقی صاحب کے خطاب کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے نعتِ رسولؐ کے آداب میں ایک بات کا اضافہ کیا کہ ہمارے ہاں عام طور پر نعت پڑھتے ہوئے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان تقابل کا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔ حضرات انبیاء کرامؑ کے درمیان فضیلت کے درجات اور ان سب پر جناب رسول اکرمؐ کی فضیلت خود قرآن کریم نے ’’تلک الرسل فضلنا بعضہم علیٰ بعض‘‘ کہہ کر بیان کی ہے جو ہمارے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود بخاری شریف کی روایات کے مطابق آنحضرتؐ نے حضرت یونسؑ اور حضرت موسیٰؑ کے حوالہ سے فرمایا ہے کہ ’’لا تفضلونی علی یونس بن متیٰ‘‘ اور ’’لا تفضلونی علی الانبیاء‘‘ مجھے ان پر فضیلت نہ دو۔ حالانکہ فضیلت موجود ہے اور اس کا اظہار بھی ہمارے عقائد میں شامل ہے لیکن محدثین کرامؓ فرماتے ہیں کہ منع فضیلت کے اظہار سے نہیں کیا گیا بلکہ تقابل کا ایسا ماحول قائم کرنے سے روکا گیا ہے کہ اللہ کے دو پیغمبروں کو آمنے سامنے کر کے ان کو ترازو پر تولا جائے۔ ایسا کرنا درست نہیں ہے اس لیے کہ تقابل میں کسی نہ کسی طرف اہانت کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکل آتا ہے جو حضرات انبیاء کرامؑ کے حوالہ سے کسی درجہ میں بھی قابل قبول نہیں ہے اس لیے اس معاملہ میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
میں نے گزارش کی کہ ہمارے ہاں حضرات انبیاء کرامؑ کی طرح حضرات صحابہ کرامؓ کا تذکرہ کرتے ہوئے خطابت اور شاعری دونوں شعبوں میں ان کے باہمی تقابل کا ذوق پایا جاتا ہے جو بسا اوقات بہت غیر محتاط ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان طبقات اور شخصیات دونوں حوالوں سے فضیلت کے درجات موجود ہیں جن کا مناسب انداز میں اظہار بھی ضروری ہے لیکن صحابہ کرامؓ میں سے دو طبقوں یا شخصیات کو آمنے سامنے کر کے تقابل کے انداز میں ان کا تذکرہ کرنا میری طالب علمانہ رائے میں صحیح بات نہیں ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی صحابی ہو احترام و عقیدت اس کا حق ہے، اس کی فضیلت ضرور بیان کی جائے مگر کسی دوسری شخصیت کے ساتھ تقابل کر کے صراف کا ترازو ہاتھ میں نہ لے لیا جائے کہ اس سے کسی طرف اہانت کا پہلو سامنے آہی جاتا ہے۔ اور ایسا کرنا صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت و عقیدت اور ان کے ادب و احترام کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بہرحال پاکستان نعت کونسل کی یہ نعت کانفرنس بہت خوشگوار اور ایمان افروز ماحول میں ہوئی جس پر حافظ فیصل بلال حسان اور ان کے رفقاء تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔