حضور نبی کریم ﷺ کا پیغام

   
تاریخ : 
۹ مئی ۲۰۰۴ء

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ اور شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ حالات و واقعات کے حوالے سے، ارشادات و اقوال کے حوالے سے، یا ہدایات و فرمودات کے حوالے سے رسول اکرمؐ کا تذکرہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں نہ ہو رہا ہو۔ یہ تذکرہ کسی ماہ کا پابند ہے، نہ کسی دن کا اور نہ ہی کسی اور دائرے میں اسے محدود کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات سب انسانوں کے لیے ہیں، سب علاقوں کے لیے ہیں، قیامت تک کے سب زمانوں کے لیے ہیں اور زندگی کے سب معاملات کے لیے ہیں تو پھر کوئی زمانہ، کوئی علاقہ اور کوئی ماحول آنحضرتؐ کی یاد اور ذکر سے مستثنیٰ نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس آخری اور عظیم پیغمبر کے اعجاز کا ایک اظہار ہے۔

ربیع الاول چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں سیرت طیبہ اور حالات مبارکہ کا تذکرہ عام دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ولادت باسعادت پر خوشی کے اظہار کے طریقوں میں اختلاف اور تحفظات کے باوجود کم و بیش ہر طبقے اور ہر مکتب فکر کے مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے تذکرے کا اپنے اپنے انداز میں ہر جگہ اہتمام کرتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ولادت سے وفات تک تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے اور آپؐ کے ارشارات و فرمودات کو بھی امت کے اہل علم نے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ و مدون کر رکھا ہے۔ آپؐ تاریخ کی واحد شخصیت ہیں جن کے حالات اور ارشادات اس قدر تفصیل کے ساتھ کتابوں میں نہ صرف موجود و محفوظ ہیں، بلکہ نقد و جرح اور چھان پھٹک کے سخت سے سخت مراحل سے گزر کر ان کی ثقاہت و صحت ہر قسم کے شک و شبہے سے بالاتر ہو گئی ہے، اور یہ بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اعجاز کا ایک نمایاں پہلو ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں وحی کے نزول کے ساتھ ہی پہلے مرحلے میں مخصوص افراد کی حد تک اسلام کی دعوت کا آغاز کر دیا تھا، مگر پہلے شخص کو اسلام کی دعوت دینے کے صرف تئیس برس بعد حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے مشن کی تکمیل کا اعلان فرما دیا تھا، جب آپؐ تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرامؓ کے اجتماع میں ان سے گواہی لے رہے تھے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کا دین تم تک پہنچا دیا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر نازل فرما کر گویا اس بات کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا کہ جس مشن کے لیے آپؐ کو بھیجا گیا تھا، وہ مکمل ہو گیا ہے۔ صرف تئیس برس کے عرصے میں پورے عرب کی کایا پلٹ دینا اور چالیس برس کی عمر میں شروع کیے جانے والے مشن کو تریسٹھ برس کی عمر میں مکمل کرنے کا اعلان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات میں سے ہے اور یہ بھی آنحضرتؐ کے اعجاز کا ایک پہلو ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشن کیا تھا؟ اور انہیں اللہ رب العزت نے کون سی مہم سونپی تھی؟ اسے حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی اکرمؐ کے تاریخی خطبے کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ خطبہ یکجا طور پر کسی بھی روایت میں اکٹھا موجود نہیں ہے، بلکہ مختلف صحابہ کرامؓ نے بیسیوں روایات میں اس کے مختلف حصوں کو بیان کیا ہے اور اس پر بہت سے محققین نے مختلف ادوار میں کام کیا ہے۔ میرے سامنے اس وقت زوار اکیڈمی پبلی کیشنز ناظم آباد کراچی کے علمی مجلہ ششماہی السیرۃ عالمی کا اپریل ۲۰۰۴ء کا شمارہ ہے۔ اس میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ اسلامی کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد نے ایک وقیع مقالے کی صورت میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاریخی خطبہ حجۃ الوداع کی بیشتر تفصیلات کو مستند حوالوں کے ساتھ جمع کر دیا ہے، جو ایک قابل قدر علمی محنت ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف اس پر ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔ آج جب میں اس مجلے اور مقالے کا مطالعہ کر رہا ہوں تو اس مطالعے میں قارئین کو بھی شریک کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے خطبہ حجۃ الوداع کی ان تفصیلات کا ایک مختصر سا خلاصہ پیش کر رہا ہوں، جنہیں ڈاکٹر نثار احمد نے اس مقالے میں سمو دیا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا:

  • اے لوگو! میری بات توجہ سے سن لو اور اچھی طرح سمجھ لو۔ شاید اس سال کے بعد میری تمہاری ملاقات کبھی نہ ہو سکے۔
  • تمہارا رب ایک ہے۔ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ شعار ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر کوئی فضیلت اور امتیاز حاصل نہیں، مگر تقویٰ اور کردار کی وجہ سے۔
  • جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہے اور جاہلیت کے دور کا ہر خون، مال اور آثار قیامت تک کے لیے ختم کیے جاتے ہیں۔
  • ہر قسم کا سود آج سے ممنوع قرار پاتا ہے، البتہ تمہیں اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے، جس میں نہ اوروں کا نقصان ہے اور نہ تمہارا۔ اللہ نے یہ بات طے کر دی ہے کہ سود کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
  • زمانۂ جاہلیت کے تمام خون یعنی بدلے اور انتقام اب کالعدم ہیں۔
  • تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں اسی طرح ایک دوسرے پر محترم ہیں، جیسے حج کے دن کی حرمت ہے، حج کے مہینے کی حرمت ہے۔
  • میری بات سنو گے تو تمہیں زندگی ملے گی۔ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا اور کسی سے زیادتی نہ کرنا۔
  • ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کا گوشت دوسرے پر حرام ہے کہ وہ اس کی غیبت کر کے اس کا گوشت کھائے۔ اس کی عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالنا اس پر حرام ہے، اس کا چہرہ اس پر حرام ہے کہ اس پر طمانچے مارے اور اسے تکلیف دینا حرام ہے۔
  • مسلمان وہ ہے جو اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگوں کو محفوظ رکھے، مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان و مال امن و عافیت میں رہے، مہاجر وہ ہے جو اپنے گناہوں سے کنارہ کشی کر لے اور مجاہد وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے نفس کا مقابلہ کرے۔
  • اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اسے واپس کرے، قرض لیا ہے تو ادا کرے، مستعار چیز کو واپس کیا جائے، عطیے کا بدلہ دیا جائے اور ضامن اپنی ذمہ داری پوری کرے۔
  • اب نہ باپ کے جرم میں بیٹا پکڑا جائے گا اور نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا، بلکہ ہر شخص اپنے جرم کا خود ہی ذمہ دار ہو گا۔
  • عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان کے حقوق کا خیال رکھو اور وہ تمہارے حقوق کا خیال رکھیں۔
  • غلاموں کے بارے میں بھی تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان سے حسن سلوک کرو۔ جو خود کھاتے ہو ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ان کو پہناؤ۔ انہیں سخت سزا نہ دو، اور اگر ان کا کوئی جرم تمہارے نزدیک ناقابل معافی ہے تو انہیں اپنے پاس رکھنے کی بجائے فروخت کر دو۔
  • اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، بدکاری سے دور رہو اور چوری نہ کرو۔
  • میرے بعد کوئی نبی نہیں اترے گا اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی امت ہو گی۔
  • صدقہ دیا کرو اور اللہ تعالیٰ کے نام پر جھوٹی قسمیں نہ کھایا کرو۔
  • علم میں سے جو کچھ حاصل کر سکتے ہو لے لو، اس سے قبل کہ وہ سمیٹ لیا جائے اور اس سے پہلے کہ علم کو اٹھا لیا جائے۔
  • میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر ان کو تھامے رہے تو پھر کبھی بھی گمراہ نہ ہو گے۔ صاف و روشن اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔
  • جو یہاں حاضر ہے وہ غیر حاضر تک یہ سب باتیں پہنچا دے، شاید کہ بعض ایسے لوگ جن تک یہ باتیں پہنچیں، یہاں موجود بعض سننے والوں سے زیادہ سمجھدار ثابت ہوں۔
  • اپنے رب کی عبادت کرو، نماز پنجگانہ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اللہ کے گھر کا حج کرو، اپنی زکوٰۃ خوشی خوشی دیا کرو اور اپنے حکام کی اطاعت کرو۔
  • دین میں غلو اختیار نہ کرو۔ تم سے پہلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک کر دی گئیں۔
  • اللہ سے ڈرو، ماپ تول میں کمی نہ کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور ملک میں فساد نہ پھیلاؤ۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کی چند اہم باتوں کا خلاصہ پیش کیا جا سکا ہے۔ یہ نبی اکرمؐ کا پیغام ہے مسلمانوں کے نام بھی اور پوری نسلِ انسانی کے نام بھی اور اسی میں نسل انسانیت کی فلاح ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس پیغام کو عمل کی دنیا میں قبول کرنے اور پھر اسے دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری کو محسوس کر سکیں، آمین ثم آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter