ان دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان میں اردو زبان کے بارے میں حکومتی رویہ پر بحث جاری ہے اور فاضل جج صاحبان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حوالہ سے اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس ضمن میں روزنامہ اوصاف لاہور میں ۲۵ اپریل ۲۰۱۵ء کو ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے حوالہ سے شائع ہونے والی یہ خبر ملاحظہ فرمائیں۔
’’دنیا بھر میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں سے اردو دوسری بڑی زبان بن چکی ہے جبکہ اول نمبر پر آنے والی زبان چینی ہے، روزنامہ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے یونیورسٹی آف ڈیسلڈ رف السرچ کی ۱۵ برس کی مطالعاتی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کو ساتوں براعظموں میں نقشے اور چارٹ کی مدد سے تقسیم کیا گیا ہے، اس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ یعنی ۲۳۰۱ زبانیں ایشیا میں بولی جاتی ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر براعظم افریقہ ہے جہاں ۱۲۳۸ زبانیں بولی جاتی ہیں، بحر الکاہل کے خطے میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ۱۳۱۳ بتائی جاتی ہے اور ساؤتھ اور نارتھ امریکہ میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد ۱۰۶۴ ہے، جبکہ یورپ میں جہاں بہت سی قومیں آباد ہیں لیکن اس براعظم میں صرف ۲۸۶ زبانیں بولی جاتی ہیں، رپورٹ کے مطابق ۱۲ زبانیں ایسی ہیں کہ جنہیں دنیا کی دو تہائی آبادی بولتی اور سمجھتی ہے، ان میں سے پانچ ایشیائی زبانیں ہیں جن میں چینی زبان سرفہرست ہے جسے ایک ارب انتالیس کروڑ لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں، انگریزی زبان ۵۲ کروڑ ۷۰ لاکھ افراد بول اور سمجھ سکتے ہیں، ان کے مقابلہ میں عربی بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں جو ۴۶ کروڑ ۷۰ لاکھ کے قریب ہے جبکہ ہسپانوی زبان بولنے والوں کی تعداد بھی ۳۸ کروڑ ۹۰ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔‘‘
اس قسم کی رپورٹ کچھ عرصہ قبل بھی ہم نے پڑھی تھی جس میں ایک بین الاقوامی سروے کے حوالہ سے بتایا گیا تھا کہ اردو تعداد کے حوالہ سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جبکہ پھیلاؤ کے اعتبار سے اسے دنیا کی پہلی بڑی زبان کا درجہ حاصل ہے، اس لیے کہ چینی زبان اگرچہ تعداد میں بڑی اکثریت کی زبان ہے مگر زیادہ تر ایک ہی خطے میں بولی جاتی ہے جبکہ اردو دنیا کے ہر براعظم اور خطے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور یہ بات خود ہمارے مشاہدے میں بھی ہے کہ ایشیا، یورپ، امریکہ اور افریقہ کے درجنوں ممالک میں حاضری اور مختلف شہروں میں سینکڑوں اجتماعات سے خطاب کا موقع ملا ہے اور اردو کے سامعین ہمیں ہر جگہ کثیر تعداد میں میسر آئے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان کے حکومتی حلقوں کا اردو کے ساتھ یہ رویہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ دستور میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے اور دفتری اور عدالتی زبان کا درجہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی انگریزی سے مرعوبیت اور قومی زبان کے بارے میں احساس کمتری کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی قومی اور دنیا کی دوسری بڑی زبان کو ملک کی سرکاری، دفتری اور عدالتی زبان کا درجہ دینے میں ابھی تک تذبذب کا شکار ہے حتیٰ کہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات پر کان دھرنے کو بھی تیار نہیں ہے، بلکہ ہمارے بہت سے سیاستدان دستور کی پابندی اور عملداری کا نعرہ مسلسل بلند کرتے رہتے ہیں مگر اس کی طرف کوئی سنجیدہ پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی۔
ہمارا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ دستور پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان اور عوامی جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے اردو کو دفتری اور عدالتی زبان کی حیثیت دینے کے لیے جلد از جلد اور مؤثر اقدامات کا اہتمام کرے۔